By Zaheda Hina, a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist. Now based in Karachi, Pakistan, she was born on October 5, 1946 in the Sehsram town of Bihar, India. E-Mail: zahedahina@hotmail.com
URL of this Page: https://newageislam.com/urdu-section/people-sow-thorns-/d/2329
زاہدہ حنا (کراچی)
آپ کو بھی وہ زمانہ شاید یاد ہو جب اسکولوں اور کالجوں کے
تقریری اور تحریری مقابلو ں میں یہ موضوع دیا جاتا تھا کہ ‘‘اسلام تلوار کی طاقت
سے دنیا میں پھیلا !؟’’تو لکھنے اور بولنےوالے اس موضوع کی مخالفت میں پوری قوت سے
لکھتے اور بولتے تھے۔ یہ لکھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ عیسائیوں اور بہ طور خاص
انگریز کالگایا ہوا الزام ہے جسے ہم بالکل تسلیم نہیں کرتے۔ دنیا بھر کے اور بہ
طور خاص برصغیر میں صوفیائے کرام کے ناموں کی ایک طویل فہرست گنوائی جاتی ہے ۔ بات
ملتان میں آنے والے صوفیوں سے شروع ہوتی تھی اور پھر علی ہجویری ،معین الدین چشتی
،نظام الدین اولیا ، روشن چراغ دہلی، عبداللہ شاہ غازی ، لال شہباز قلندر اور
سیکڑوں مشہور اور نسبتاً کم مشہور صوفیا کی فہرست پیش کردی جاتی تھی۔ دیوا شریف
،پیلی بھیت اور جانے کن کن درگاہوں کا نام لیا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ وہ لوگ
ہیں جنہوں نے اپنے حسن سلوک اور وسیع المشربی سے غیروں کے دل موم کیے ۔ہزارہاں ان
کے دست حق پر ست پر اسلام لائے ۔ یہ وہ صوفیا تھے جو ‘‘ مسلماں اللہ اللہ ،بابر
ہمن رام رام ’’ کی بات کرتے تھے اور ان لوگوں کے دل جیتتے تھے جن کے سمندر کے
درمیان ،باہر سے آنے والے مسلمان چھوٹے چھوٹے جزیروں سے زیادہ کی حیثیت نہیں
رکھتے تھے ۔بیشتر مورخین اور ماہرین عمر انیات کا کہنا ہے کہ اگر ان صوفیا نے
ہندوستان میں رواداری اور وسیع المشربی کا یہ ماحول نہ بنایا ہوتا تو ابتدائی دور
کے کٹر عقیدہ پرست آخر کار ہا ر جاتے۔ہندوستان کے طول وعرض میں شاید چھوٹی چھوٹی
مسلمان ریاستیں وجود میں آجاتیں لیکن وہ عظیم الشان سماج وجود میں نہ آتا جس کے
شاندار مظاہر ہمیں مغل اور اس کے بعد کے دور میں نظر آتے ہیں۔ یہ صوفیا کا ہی
کمال تھا کہ تقسیم کے باوجود آج کے ہندوستان میں 20یا22کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان
کی خانقاہیں اور درگاہیں آج بھی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ہندوؤں کے لیے بھی
واجب الاحترام ہیں، ہم آج بھی اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے ہندو زائرین کو
صوفیا کی ان درگاہوں پر سرجھکاتے اور منتیں مانگتےد یکھتے ہیں۔
یہ ان صوفیا کی رواداری تھی جس نے ذات پات میں جکڑے ہوئے
کروڑوں انسانوں کو اپنے سینے سے لگا یا اور ا ن کے لیے ایک ایسی دنیا کے دروازے
کھول دیے جو کسی مسجد ،کسی درگاہ ، کسی خانقاہ میں قدم رکھنے کا اتنا ہی حق رکھتے
تھے جتنا کسی سیدیا کیس صدیقی ،فاروقی کا حق تھا، وہ 9سلاطین کے دربار سے وابستہ
رہنے والے ملک الشعرا ، امیر الامرا ،امیر خسرو کے برابر بیٹھ کر ‘‘محمدؐ میر محفل
بود شب جائے کہ من بودم’’ سن سکتے تھے ۔ اور حضرت نظام الدین اولیا کے حضور رقص
کرسکتے تھے۔یہ وہی صوفی روایت تھی جس نے ہمیں کبیر ،نانک، فرید ،بلھا ، سرمد، سچل
،وارث، لطیف جیسے ان گنت بڑے دیے ۔ اسی صوفی روایت نے حسینی برہمن پیدا کیے ۔منشی
نول کشور کے مطبع سے قرآن کے اعلیٰ ترین نسخے اور عربی ، فارسی اور اردو کی
سیکڑوں مذہبی ، علمی اور ادبی کتابیں شائع ہوئیں ،آج بھی شب عاشور چھنو لال دلگیر
کا نوحہ ‘‘ بھیا تمہیں گھر جا کے کہاں پائے گی زینت، گھبرائے گی زینب’’کلیجہ شق کر
دیتا ہے ، یہ ان ہی صوفیا کے دم قدم کی برکت ہے کہ منشی پریم چند نے 1923میں
‘‘شہید اعظم’’ کے نام سے ہندی میں ایک مضمون لکھا اور 1924میں اسی حوالے سے ہندی
اور اپنا ڈرامہ ‘‘کربلا’’ تحریر کیا۔ منشی ہر گوپال تفتہ ، سرمہاراجہ کشن پرشاد ،
جگن ناتھ آزاد ،کنور مہند ر، سنگھ بیدی سحر، نعت، منقبت اور مرثیے تصنیف کرتے رہے
۔ گرسرن لال ادیب نے کہا کہ ‘‘ہندو بھی ہوں ،شبیر کا شیدائی بھی/ میراث میں ملی ہے
محبت حسین ؑ کی ’’ چندر بھان خیال نے ‘‘ لولاک’’ لکھی ۔مراٹھی کے شاعر گیای نشورم
لے فلسطین ،بغداد ، گو انتا ناموبے او رماہِ رمضان پر ایسی پردرد نظمیں لکھتے ہیں
کہ مسلمان شاعر ان پر شک کریں۔ ہمارے سندھ
میں لال شہباز کے خلیفہ مسلمان بھی ہوتے ہیں اور ہندو بھی ۔راجہ لو کے بسائے ہوئے
شہر لاہور میں مادھو لال اور شاہ حسین کو موت بھی جدانہ کرسکی اور وہ پہلو بہ پہلو
سوتے ہیں ، ان کی یاد میں میلہ چراغاں جو ان دنوں لاہور میں شروع ہوچکا ، ہماری
اسی صوفی روایت کا حصہ ہے۔ آج بھی برصغیر کا کسان ،کمہار ، کرگھا چلانے والا اور
کرخند ار عبد الرشید ہو یا رام دین ، ابھے سنگھ ہو یا کشن کمار ،خدا بخش سومرو
ہویا محمد احمد بھٹی ، وہ داتا دربار اور لال شہباز قلندر ،نظام الدین اولیا ، سلیم چشتی او رمعین الدین چشتی اجمیری کی
درگاہ پر ، دیوا شریف اور پیلی بھیت میں حاضری دیتا ہے چڑھا وے چڑھاتا ہے ۔تبرک
اور لنگر اور پرشاد کے لیے دھکا پیل سہتا ہے۔ اس کی عورتیں ڈھکے ہوئے سروں اور
ننگے پیروں کے ساتھ آنکھوں میں آنسو اور
دلوں میں دعائیں لیے ہوئے ان پیروں فقیروں کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتی ہیں، مزاروں کی
جالیوں سے دھاگے باندھتی ہیں اور دھمال ڈالتی ہیں ۔ یہ کہانیاں نہیں آج کی حقیقت
ہیں اور ان میں ہندوستانی اشرافیہ کی
عورتیں بھی شامل ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ہم نے جیہ بہادری اور ایشوریا رائے کی تصویریں
دیکھیں ۔آنچل سے ڈھکے ہوے سروں پر مخملیں چادروں کی ٹوکریاں دھرے ننگے پاؤں
اجمیر کی درگاہ اور سلیم چشتی کے مزار پر حاضری دے رہی ہیں، پھول چڑھا رہی ہیں ،
دعا مانگ رہی ہیں اور ان ہی کے ساتھ ابھیشک بچن کی جھلک بھی نظر آئی۔ یہ سب کچھ
ہندوستان کے کٹر پنتھیوں کے سامنے ہورہا ہے اور تلوار وں کے سائے میں نہیں ،یہ
صوفیا کی درگاہوں سے خلق خدا کے لیے بہنے والی محبت کی دھاراؤں کی عطا ہے ۔
ایک ایسے روادار اور وسیع المشرب سماج میں رہنے والے دہشت
زدہ ہیں۔6مارچ کو جب پاکستانیوں اور دنیا بھر میں صوفی مسلک او رشاعری کا احترام
کرنے والوں کو یہ خبر ملی کی جمعرات جسے ‘‘بھری مراد’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
، اس روزپشاور کا ہزاروں خوانی محلّہ دہشت گرد حملے کا نشانہ بنا ہے تو کسی کو
یقین نہیں آیا ۔ اس روز آسمان پر روشنی کا پہلا ٹانگا لگا تھا ، فجر کی اذان
ہورہی تھی جب پشاور کے ہزار خوانی میں ایک مہیب دھماکا ہوا اور پشتو کے عظیم صوفی
شاعر اور درویش رحمان بابا کے مزار کے ستون زمیں بوس ہوئے اور عمارت ڈھہ گئی
۔1650میں پیدا ہونے والے اور 1715میں رحلت کرنے والے اس بزرگ کی قبر کو بھی نقصان
پہنچا ۔ یہ شاعر جواب سے 300برس پہلے ختم ہوچکا ،جس کا مزار آج بھی مرجع خلائق
ہے، اس کے اشعار میں رواداری اور انسان دوستی کا جو پیغام ہے اس سے انتہا پسندوں
کو اس قدر ڈر لگتا ہے کہ انہوں نے 300برس
پرانی ایک قبر کو ملیا میٹ کرنا ضروری سمجھا ۔ پشتو میں رحمان بابا سے بڑا اور زود
گوشاعر نہیں گزرا ۔ وہ خوش حال حان خٹک سے مختلف زاویہ نظر رکھتے تھے ۔ ان کے یہاں
وہ درد مندی ، دل سوزی اور انسان پرستی ہے جس کے سبب ان کے اشعار کی تابانی 300برس
بعد بھی قائم ہے۔2005میں ان کی کلیات کا ر ابرٹ سیمپس او رمومن خان نے انگریزی میں
ترجمہ کیا جو 900صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ترجمے کی اشاعت کے بعد رحمان بابا کے کلام
کی مقبولیت میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا۔ رحمان بابا نے اصلی سونے جیسے کھری بات
کہی تھی کہ ‘‘جو خدا کا دوست نہیں، اس کے ساتھ اگر افواج کے پرے ہوں، تب بھی وہ
تنہا شخص ہے۔’’ان کے مزار کی بے حرمتی کرنے والے ہمارے سماج میں تنہا ہیں۔ یہ کہا
گیا کہ یہ مزار اس لیے بارود سے اڑایا گیا کہ یہاں عورتیں زیارت کے لیے آتی تھیں
اور منتیں، مرادیں مانگتی تھیں۔ اور ابھی ابھی جمرود سے جس دومنزلہ مسجد کے اڑائے
جانے کی خبر آئی ہے وہاں نہ تعویذ لکھے جارہے تھے اور نہ منت مانگی جارہی تھی۔
نمازی جمعہ کی نماز کے لیے جمع تھے اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور یہاں
وہ محفوظ ومامون ہیں ۔ امام نے ‘‘اللہ اکبر’’ کہا اور مسجد ریموٹ کے ذریعے اڑادی
گئی۔ اب تک 70نمازیوں کی ہلاکت کی اطلاع آچکی ہے ۔ رحمان بابا کے مزار کی بے
حرمتی کے بعد ان کے انگریز مترجم رابرٹ سیمپس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا
تھا کہ ‘‘پشتون خوا میں ان دنوں تشدد کی جو آگ بھڑک رہی ہے ۔ وہ رحمان بابا جیسے
شاعر کے افکار سے ہی بجھائی جاسکتی ہے۔’’ رحمان بابا نے کیا خوب کہا تھا:
پھولوں کے بیج بو کر ہی تم اپنے ارد گرد باغیچہ اگا سکتے ہو
کانٹے نہ بونا کہ یہ تمہارے تلوؤں میں چبھیں گے
تم دوسروں پر تیر اندازی کروگے
تو یاد رکھو یہ تیر پلٹ کر تمہیں چھید نے آئیں گے
دوسروں کے راستے میں گڑھا نہ کھودو
مباد اتم اس گڑھے کے کنارے آن پہنچو
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/people-sow-thorns-/d/2329