New Age Islam
Tue Feb 11 2025, 12:42 AM

Urdu Section ( 3 Apr 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Security of non-Muslims in Islamic state – Part 2 اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کا تحفظ ۔قسط۔2

 

ظفر دارک قاسمی

27 مارچ، 2013

جب تک بنی اسرائیل میں خلافت  راشدہ کانظام قائم رہا ۔ اس وقت تک تمام اسرائیلیوں  اور غیر  اسرائیلیوں  کو انسانی حقوق  دیےجاتے رہے۔ اپنے  دور انحطاط میں انہوں نے دینی احکام میں جو تبدیلیاں کیں، ان میں سے بڑی  تبدیلی یہ تھی کہ  انہوں نے انسانی حقوق کو صرف اسرائیلیوں  کے لیے مخصوص  قرار دے دیا۔ یہ واضح  رہنا چاہیے  کہ تلمود، خدا کی کتا ب نہیں ہے بلکہ  یہ بنی اسرائیل  کے فقہ کی کتاب ہے۔ جس طرح مسلمانوں  کی فقہ  کی کسی غلطی  کی بنیاد پر قرآن و سنت پر تنقید  نہیں کی جاسکتی ، اسی طرح یہود کی فقہ کی غلطی  کی بنیاد پر اللہ کی کتاب تو رات پر تنقید  نہیں کی جاسکتی ۔ موجودہ دور کے یہودی  علما جسے ربی مالکیل کوٹلر  وغیرہ  بڑی شد و مد سے اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کے ہاں غیر اسرائیلوں  کو  انسانی حقوق  نہیں دیے  جاتے لیکن  بہر حال  ان کے مذہبی کتب  اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ خود بائبل  میں غیر اسرائیلیوں سے  سود لینے کو جائز قرار دیا گیا ہے جب اسرائیلیوں  سے سود لینا حرام ہے اس طرح غلامی کے خا تمے کا جو قانون  تورات  میں بیان  ہوا ہے،  اسے تبدیل کر کے اسرائیلوں تک محدود  کردیا گیا ہے۔

عورت کی عصمت کا تحفظ : دوسرا اہم  حق یہ ہے کہ عصمت بہر حال محترم ہے ، خواہ وہ اپنی  قوم  کی ہو یا دشمن قوم کی ، جنگل  بیابان میں ملے  کسی  مفتوح  شہر میں، ہم  مذہب ہو  یا کسی غیر مذہب  سے تعلق  رکھتی ہو، یا لامذہب ہو مسلمان کسی حالت میں بھی  اس پرہاتھ نہیں ڈال سکتا ۔ اس کے لیے زنا کو مطلقاً  حرام کیا گیا ہے خواہ اس کا ارتکاب کسی عورت سے کیا جائے ۔ قرآن مجید کے الفاظ میں، لا تقر بو الالز نی یعنی ‘ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو’اور مزید برآں  اس فعل  کی سزا  مقرر کردی گئی ہے یہ حکم  ہے کسی  شرط  کے ساتھ  مشروط  نہیں ہے۔ عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالنا  ہر حالت میں حرام ہے اور کوئی مسلمان اس فعل کا ارتکاب کر کے  سزا سے نہیں بچ سکتا ، خواہ دنیا میں سزا پائے یا  آخرت میں عورت  کی عصمت  کے احترام کا یہ تصور اسلام کے سوا کہیں  نہیں پایا جاتا ۔ مغربی فوجوں  کو تو اپنے ملک میں  بھی ‘رفع حاجت’  کے لیے خود اپنی قوم کی بیٹیاں  درکار ہوتی  ہیں اور غیر  قوم کے ملک  پر ان کا قبضہ ہوجائے تو اس ملک کی عورتوں کا جو حشر ہوتا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، لیکن  مسلمانوں کی تاریخ منفرد انسانی غلطیوں سے قطع نظر ، اس سے خالی رہی ہے ۔ کہ کسی ملک کو فتح  کرنے کے بعد ان کی  فوجیں ہر طرف عام بدکاری  کرتی پھرتی ہوں یا ان کے اپنے ملک میں حکومت نے ان کے لیے فاحشات فراہم  کرنے کا انتظام  کیا ہو۔ یہ بھی ایک بڑی نعمت ہے جو نوع  انسانی کو اسلام کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے عصمت صرف عورت  ہی  کی نہیں مرد کی بھی ہوتی ہے ۔ جو شخص زنا کرتا ہے، وہ عورت کی عصمت ہی خراب نہیں کرتا  اپنی عصمت بھی خراب کرتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ دور میں مغربی اقوام بھی خواتین کی عصمت  کی حفاظت پر کم از کم قانون کی سطح  پر متفق  ہوچکی ہیں۔ اللہ کرے کہ ان کی افواج ان  قوانین پر بھی پوری طرح عمل در آمد کرسکیں۔

ہر سائل کی اعانت کا حکم: قرآن مجید  میں  یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وفی اموائھم حق اللسائل و المحروم (سورہ ذاریات :33)یعنی ‘‘ اور مسلمانوں  کے مالوں  میں مدد مانگنے والوں اور محروم رہ جانے  والوں کا حق ہے۔ اول تو اس حکم کے الفاظ بجائے  خود مطلق  ہیں۔ پھر یہ حکم مکے میں دیا گیا  تھا، جہاں  کوئی مسلم معاشرہ  باقاعدہ بنا ہی نہ تھا  اور بالعموم مسلمانوں  کا سابقہ  غیر مسلم  آبادی ہی سے پیش آتا تھا۔ اس لیے  آیت کا صاف  مطلب یہی ہے کہ مسلمان کے مال پر ہر مدد مانگنے  والے  اور ہر محروم رہ جانے والے انسان کا حق ہے ، قطع  نظر اس سے کہ وہ اپنی قوم یا اپنے  ملک کا ہو یا کسی قوم  ، ملک یا نسل سے  تعلق  رکھتا ہو ۔ آپ  استطاعت  رکھتے ہوں  او رکوئی حاجت مند ہے تو ضرور  اس کی مدد  کریں۔ خدانے آپ پر اس کا یہ حق  قائم کردیا ہے ۔

ہر انسان کا حق آزادی: اسلام میں  کسی آزاد انسان کو پکڑ کر غلام  بنانا اور اسے بیچ ڈالنا قطعی  حرام قرار  دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صاف الفاظ  یہ ہیں کہ تین  قسم کے لوگ ہیں جن کے خلاف قیامت کے روز  میں خود مستغیث ہوں گا۔ ان میں ایک وہ شخص ہے جو کسی آزاد انسان کو پکڑ کر بیچے اور اس کی قیمت  کھائے  رجل باع حرفا کل نمنہ (بخاری  کتاب البیوع)اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی عام ہیں ۔ ان کو کسی قوم یا  نسل یا ملک و وطن  کے انسان  کے ساتھ  مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔ اہل مغرب کو بڑا فخر ہے کہ انہوں نے غلامی کا انسداد  کیا ہے۔ حالانکہ انہیں یہ قدم  اٹھانے کی توفیق  پچھلی  (یعنی انیسویں) صدی کے وسط میں نصیب ہوئی ہے۔ اس سے پہلے جس بڑے پیمانے پر وہ افریقہ  آزاد انسانوں کو پکڑ پکڑ کر اپنی نو آبادیوں  میں لے جاتے رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک  کرتے رہے ہیں ۔ اس کا ذکر ان کی اپنی ہی لکھی ہوئی کتابوں میں موجود ہے ۔ یہ ایک بڑا  اہم حق ہے جو اسلام نےانسان کو بحیثیت  انسان عطا کیاہے ۔ قرآن مجید  میں ارشاد ہوا ہےکہ :

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا (المائدہ :2) ‘‘ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ ( تم انہیں  مسجد الحرام سےروک کر ) تم ناروا زیادتی  کرنے لگو’’

آگے چل کر فرمایا : وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ھوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىوَاتَّقُوا اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدہ :5:8) ‘‘ اور کسی گروہ  کی دشمنی تم  کواتنا  مشتعل  نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہی تقوی سے قریب تر ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم کرتے ہو’’۔ایک اور جگہ فرمایا ہے:

يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شھدَاءَ لِلَّہ (النساء : 135)‘‘ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! انصاف  کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ  بنو’’۔

معلوم ہوا کہ  عام انسان ہی نہیں  دشمنوں  تک سے انصاف کرنا چاہیے ۔ دوسرے الفاظ میں اسلام جس انصاف کی دعوت  دیتا ہے وہ محض اپنے ملک کے باشندوں  کے لیے ،  یا اپنی قوم  کے  لوگوں  کے لیے  یا مسلمانوں  کے لیے  ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سب انسانوں کے لیے  ہے ۔ ہم کسی  سے بے انصافی  نہیں کرتے ۔ ہمارا مستقل شیوہ  یہ ہون چاہیے  کہ کوئی شخص  بھی ہم  سے بے انصافی  کا  اندیشہ  نہ رکھے ۔ (جاری)

27 مارچ، 2013  بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس  ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/security-non-muslims-islamic-state-part-2/d/10988

 

Loading..

Loading..