ظفر دارک قاسمی
26 مارچ، 2013
اہل مغرب کا یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ ہر اچھی چیز کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نعمت ہمارے ذریعہ سے دنیا کو ملی ہے ورنہ دنیا ان چیزوں سے نا آشنا اور جہالت میں مبتلا تھی ۔ اب ذرا سی حقوق انسانی کے سلسلے کو دیکھئے ۔ بڑے دعووں کے ساتھ کہاجاتا ہے کہ ان کا تصور لوگوں کو انگلستان کے میگنا کارٹا ( جس کا نفاذ 1215 میں ہوا ) کے ذریعے سے نصیب ہوا ہے جب کہ ایک ہجری میں میثاق مدینہ کی شکل میں حقوق انسانی پر بہترین دستور اسلام نے دنیا کو دیا۔ جب کہ وہ اسلام کے 600 برس کے بعد کی چیز ہے ۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ستر ہویں صدی کے قانون دانوں سے پہلے کسی کے ذہن میں یہ تصور موجود نہ تھا کہ میگنا کارٹا میں ٹرائل بائی جیوری (Trial by Jury) ہبیس کار پیس (Corpus Habes) اور ٹیکس لگانے کے اختیار ات پر پارلیمنٹ کے کنٹرول کے حقوق بھی شامل ہیں ۔ اگر میگنا کا رٹا کے لکھنے والے اس زمانے میں موجود ہوتے تو ان کو سخت حیرت ہوتی کہ میگنا کارٹا میں یہ چیزیں بھی موجود تھیں۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، ستر ہویں صدی سے پہلے مغرب میں حقوق انسانی اور حقوق شہریت کاکوئی تصور موجو د نہ تھا ۔ سترہویں صدی کے بعد بھی ایک مدت تک فلسفیوں اور قانونی افکار پیش کرنے والے لوگوں نے تو ضرور اس خیال کو پیش کیا تھا ۔ لیکن عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے دستوروں اور اعلانات ہی میں ملتا ہے۔ اس کے بعد مختلف ملکوں کے دستور میں بنیادی حقوق کاذکر ضرور کیا گیا ہے۔ مگر اکثر و پیشتر حالات میں یہی صورت پائی گئی ہے کہ جو حقوق کاغذ پر دیے گیے ہیں انہیں عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا ہے۔
اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت:
دوسری بات جو میں چاہتا ہوں کہ ابتدا ہی میں اچھی طرح واضح ہوجائے ، یہ ہے کہ جب ہم اسلام میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس کے معنی دراصل یہ ہوتے ہیں کہ یہ حقوق خدا کے دیئے ہوئے ہیں ۔ یہ کسی بادشاہ مجلس قانون ساز کے دیے ہوئے نہیں ہیں۔ بادشاہ اور قانون ساز اداروں کے دیے ہوئے حقوق جس طرح دیے جاتے ہیں اسی طرح جب وہ چاہیں واپس بھی لیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن اسلام میں انسان کے جو حقوق ہیں، وہ خدا کے دیے ہوئے ہیں ۔ دنی کی کوئی مجلس قانون ساز اور دنیا کی کوئی حکومت ان کے اندر رد و بدل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ ان کو واپس لینے منسوخ کردینے کاکوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ سب سے پہلے چیز جو اس مسئلے میں ہمیں اسلام کے اندر ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام بجائے خود انسان بحیثیت انسان کے کچھ حقوق مقرر کرتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان خواہ وہ ہمارے اپنے ملک او روطن کاہو یا کسی دوسرے ملک اور وطن کا ، ہماری قوم کا ہو یا کسی دوسری قوم کا ،مومن ہو یا غیر مسلم کسی جنگل کا باشندہ ہو یا کسی صحرامیں پایا جاتا ہو۔ بہر حال محض انسان ہونے کی حیثیت سے ، اس کے کچھ حقوق ہیں جن کو ایک مسلمان لازما ادا کرے گا اور اس کا (دینی ) فرض ہے کہ وہ انہیں ادا کرے۔
زندگی کے بقا کا حق
ان میں اولین چیز زندگی زندہ رہنے کا حق اور انسانی جان کے احترام کا فرض ہے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاھا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ( المائدہ:32)
‘‘جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس سے کسی جان کا بدلہ لینا ہو ، یا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کامجرم ہو، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا’’۔ جہاں تک خون کا بدلہ لینے یا فساد فی الارض پر سزا دینے کا سوال ہے، اس کافیصلہ ایک عدالت ہی کرسکتی ہے یا کسی قوم سےجنگ ہوتو ایک باقاعدہ نظام حکومت ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے ۔ بہر حال کسی فرد کو انفرادی طور پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ قصاص لے یا فساد فی الارض کی سزا دے اس لیے ہر انسان پر یہ واجب ہےکہ قتل انسان کا ہر گز ارتکاب نہ کرے۔ اگر کسی نے ایک انسان کوقتل کیاتو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ اسی مضمون کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں اس طرح دہرا یا گیا ہے کہ
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ( الانعام : 151)
‘‘ کسی جان کو حق (یعنی قصاص یا فساد کی سزا ) کے بغیر قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے’’۔
یہاں بھی حرمت قتل کو ایسے قتل سے مستثنیٰ کیا ہے جو حق کے ساتھ ہو، اور حق کا فیصلہ بہر حال کوئی عدالت مجاز ہی کرے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل نفس کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اکبر الکبائر الاشراک باللہ و قتل النفس۔ ان تمام آیات و احادیث میں مطلقاً نفس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کسی خاص نفس کو مختص نہیں کرتا کہ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اپنی قوم یا اپنے ملک کے شہری یا کسی خاص نسل، رنگ یا وطن یا مذہب کے آدمی کو قتل نہ کیا جائے ۔ حکم تمام انسانوں کے بارے میں ہے اور بجائے خود ہر انسانی جان کو ہلاک کرنا حرام کیا گیا ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ جو لوگ حقوق انسانی کا نام لیتے ہیں انہوں نے اگر اپنے دستوروں میں یا اعلانات میں کہیں حقوق انسانی کا ذکر کیا ہے تو فی الحقیقت اس میں یہ بات مضمر (Implied) ہوتی ہے کہ یہ حقوق یا ان کے شہریوں کے ہیں، یا پھر وہ ان کو سفید نسل والوں کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں ۔ جس طرح آسٹریلیا میں انسانوں کا شکار کر کے سفید نسل والوں کے لیے قدیم باشندوں سےزمین خالی کرائی گئی اور امریکہ میں وہاں کے پرانے باشندوں کی نسل کشی کی گئی اور بقیۃ السلف کو مخصوص علاقوں (Reservations) میں مقید کردیا گیا ، اور افریقہ کے مختلف علاقوں میں گھس کر انسانوں کو جانوروں کی طرح ہلاک کیا گیا، یہ ساری چیزیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ انسانی جان کا بحیثیت ‘انسان کوئی احترام ان کےدل میں نہیں ہے۔ اگر کوئی احترام ہے تو اپنی قوم یا اپنے رنگ یا اپنی نسل کی بنیاد پر ہے۔ لیکن اسلام تمام انسانوں کے لیے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص و حشی قبائل سے تعلق رکھتا ہے تو اس کو اسلام انسان ہی سمجھتا ہے۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیت کے معابعد یہ فرمایا گیا ہے کہ :
وَمَنْ أَحْيَاھا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ( المائدہ:32)
‘‘اور جس نے کسی نفس کو بچایا ، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی’’۔
آدمی کو موت سے بچانے کی بے شمار شکلیں ہیں ایک آدمی بیمار یا زخمی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ کس نسل ، کس قوم یا کس رنگ کاہے، اگر وہ آپ کو بیماری کے حالت میں یا زخمی ہونے کی حالت میں ملا ہے تو آپ کاکام یہ ہے کہ اس کی بیماری یا اس کے زخم کے علاج کی فکر کریں اگر وہ بھوک سے مررہا ہے تو آپ کاکام یہ ہے کہ اس کو کھلائیں تا کہ اس کی جان محفوظ ہوجائے ۔ اگر وہ ڈوب رہاہے یا اور کسی طرح سے اس کی جان خطرے میں ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اس کو بچائیں ۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہودیوں کی مذہبی کتاب ‘ تلمود’ میں بعینہ اس آیت کا مضمون درج ہے مگر اس کی عبارت یہ ہے کہ ‘‘ جس نے اسرائیل کی ایک جان کو ہلاک کیا ، الکتاب (Scripture) کی نگاہ میں اس نے گویا ساری دنیا کو ہلاک کردیا اور جس نے اسرائیل کی ایک جان کو محفوظ رکھا، اس نے گویا ساری دنیا کی حفاظت کی ۔ تلمود میں یہ بھی صاف لکھا ہے کہ اگر کوئی غیر اسرائیلی ڈوب رہا ہو اور تم نے اسے بچانے کی کوشش کی تو گنہگار ہوگے۔ نسل پرستی کا کرشمہ دیکھئے ، ہم ہر انسان کی جان بچانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کیونک قرآن مجید نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ لیکن وہ اگر بچانا ضروری سمجھتے ہیں تو صرف بنی اسرائیل کی جان کو باقی رہے دوسرے انسان تو دین یہود میں وہ انسان سمجھے ہی نہیں جاتے ۔ ان کے ہاں کوئیم کا تصور جس کیلئے انگریزی میں (Gentile) اورعربی میں امی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یہ ہے کہ ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ صرف بنی اسرائیل کے لیے مخصوص ہیں ۔ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ یہودی کہتے ہیں ۔ لیس علینا فی الا مین سبیل ۔یعنی ہمارے اوپر امیوں کے بارے میں (یعنی ان کا مال کھانے میں ) کوئی گرفت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصل شریعت بنی اسرائیل کو عنایت کی تھی، اس میں یہ تمام انسانی حقوق تمام انسانوں ہی کے لیے تھے ۔ تو رات میں اب بھی یہ آیت موجود ہے کہ ‘‘کوئی پردیسی ( غیر قوم کا فرد) تمہارے ساتھ تمہارے ملک میں رہتا ہوتو اس کے ساتھ بد سلوکی نہ کرنا۔ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اس سے دیسی (اسرائیلی ) جیسا برتاؤ کرنا بلکہ تم اس سے اپنے ہی مانند محبت کرنا کیونکہ تم بھی مصر میں پردیسی تھے ۔ (جاری )
26 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/security-non-muslims-islamic-state/d/10934