ظفر دارک قاسمی
22 جولائی ، 2012
وطن عزیز میں بہت سے ایسے
عناصر ہیں جو مذہبی منافرت کو فروغ دینے میں کوشاں رہتے جس کی بنا پر اقلیتوں کی گاہ
بگاہ مذہبی دل آزاری کی جاتی ہے انہیں ظلم
وستم کانشانہ بنایا جاتا ہے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، جس
سے ہندوستان کا امن وسکون غارت ہوتا ہے، اور جمہوریت پر بد نما داغ آتا ہے، اس خطرناک
صورت حال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی
ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جو ایک ایک شہری کی عزت نفس، اور حقوق کی تحفظ کا ضامن بن سکے۔
اس پر آشوب دور میں اگر کوئی انسانیت
کی بقاء و تحفظ کا ثبوت فراہم کرسکتا ہے تو وہ مکالمہ بین المذاہب ہے۔ مذاہب کے درمیان
مفاہمت او رمکالمہ کی بات ایک عرصہ سے دنیا بھر میں چل رہی ہے او رمختلف مذاہب اورنظریات
کے حضرات اس پر اظہار خیال کررہے ہیں ۔ عام طور پر اس حوالہ سے یہ کیا جاتا ہے کہ مذاہب
کے ماننے والوں کے درمیان رواداری ،مفاہمت اور مکالمہ و گفتگو کی فضا کو فروغ دینا ہر دور میں ضروری رہا ہے ،مگر اب جبکہ فاصلوں کے
مسلسل سمٹتے چلے جانے کے بعد دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کررہی ہے، اس کی ضرورت
پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے ،تاکہ مختلف مذاہب
اور عقائد و نظریات کے لوگ مل جل کر ایک سوسائٹی میں رہ سکیں اور مذاہب کے حوالہ سے جواختلاف ہیں، وہ کشمکش او
ر تصادم کی صورت اختیار نہ کریں۔
مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان
کشیدگی اور تنازعات کے شدت پسندانہ اظہارکو بھی اس ضرورت کی ایک وجہ قرار دیا جارہاہے
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مختلف مذاہب کے پیروکار وں کے درمیان
تصادم ،محاذ آرائی اور قتل وقتال کا جو سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، اس کا تسلسل آج بھی موجود ہے اور عنوان تبدیل ہونے کے باوجود وہ مذہبی
شدت پسندی اور انتہا پسندی بدستور انسانی معاشرے میں موجود ہے۔
گزشتہ صدیوں میں یہودیوں اور
مسیحیوں کے درمیان جو کچھ ہوا ہے اس کی ایک ہلکی
جھلک ‘‘ہولوکاسٹ’’کے حوالہ سے بیان کی جانے والی تلخ داستان کی صورت میں دیکھی
جاسکتی ہے اور مسیحی مذہب کے کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڑکش فرقوں کے درمیان طویل
خانہ جنگی کی صدائے بازگشت شمالی آئرلینڈ
کی فضاؤں میں اب بھی سنا ئی دیتی ہے ، جب کہ مشرقی یورپ کے ممالک کے کیمونزم کے شکنجے
سے نکل جانے کے بعد وہاں کی مسلم آبادی بالخصوص
بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
الغرض مسلمانوں اور مسیحیوں
،مسیحیوں اور یہودیوں ، فلسطین میں یہودیوں اور مسلمانوں اور مختلف ادوار میں ان مذاہب
کے باقی فرقوں کے درمیان داخلی طور پر خونریزی او رتصادم کی ایک لمبی تاریخ ہے جو مختلف
محاذوں پر اب بھی جاری ہے اور اس صورت حال
کو قابو میں لانے کے لئے اہل مذاہب کے درمیان مکالمہ او رمفاہمت کے فروغ کے لئے مختلف
سطحوں پر کام ہورہا ہے ۔
اس تصادم اور خونریزی کو ختم کرنے کے لئے ایک حل یہ تجویز کیا گیا ہے
جس پر دنیا کے ایک بڑے حصے میں عمل ہورہا ہے کہ سرے سے مذہب کے وجود کی یا کم از کم سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے اس کے
تعلق کی نفی کردی جائے اور مذہب سے انکار یا اسے محض فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر
اس کے معاشرتی کردار کو ختم کردیا جائے، لیکن
یہ سوچ اور طریق کا منفی اور غیر فطری
ہونے کی وجہ سے بالآخر ناکام ہوتا جارہا ہے اور دنیا کے مختلف معاشروں میں مذہب کے
معاشرتی کردار کی واپسی کا عمل دھیرے دھیرے
بڑھتا نظر آرہا ہے ، جس نے دانش کی اعلیٰ سطح کو ا س طرف متوجہ کیا ہے کہ مذہب کی
نفی کرنے کے بجائے مذہب کے کردار وعمل کو باہمی مفاہمت ومکالمہ کے ذریعہ آگے بڑھا
یا جائے او رمختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات ومفاہمت کی فضا پیدا کرنے
کی کوشش کی جاتی یہ حقیقت ایک بار پھر انسانی سوسائٹی میں خود کو تسلیم کراتی دکھائی دے رہی ہے کہ مذہب ایک فرد اور انسان کی بھی ضرورت
ہے اور معاشرہ او رسوسائٹی کی بھی ضرورت ہے ، جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
پھر یہ مفروضہ بھی محض تکالیف
کی حیثیت رکھتاہے کہ چونکہ مذہب کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں اور باہمی تصادم اور
خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوتی ہیں اور اس لئے اس کی نفی کردی جائے، اس لئےمذہب کے
علاوہ اور بھی عوامل موجود ہیں جو انسانی سوسائٹی میں منافرت ،باہمی جنگ وجدل اور قتل وغارت کا باعث بنتے ہیں۔پہلی جنگ
عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے اسباب میں مذہب کاکوئی تذکرہ نہیں ہے اور قومیت ، رنگ ونسل
، علاقائیت ، زبان اور نسلی عصبیت کا انسانوں
کو لڑانے اور خون بہانے میں کردار کسی سے مخفی نہیں ہے ، اس لئے مذہب کو سو سائٹی میں
جنگ وجدال ، انتہا پسندی اور قتل وغارت کا باعث قرار دے کر اس کی نفی کرنے اور سو
سائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کے بے دخل کرنے کا فلسفہ غیر فطری اور غیر حقیقت
پسندانہ ہے اور اسی وجہ سے اسے کامیابی کی طرف بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا ہے۔
مذہبی رواداری کا ایک اور فلسفہ آج کل زیر بحث ہے کہ تمام مذاہب کے مشترکات کو جمع کر کے ایک مشترکہ مذہب
تشکیل دیا جائے اور جن اقدامات وروایات کی سوسائٹی کو ضرورت ہے انہیں ایک ‘‘متحدہ مذہب’’ کی صورت میں فروغ دیا جائے۔اسی فلسفہ کے تحت پانچ
سوسال قبل بر صغیر میں مغل بادشاہ ‘‘جلال الدین اکبر’’نے (دین الٰہی) تشکیل دیا تھا
جوانسانی سوسائٹی کے مزاج اور نفسیات سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے فیل ہوگیا تھا اور
اسی کا ناکام تجربہ آج کل ‘‘یہاں مذہب’’ کی طرف سے ا س طرح کیا جارہا ہے کہ بعض بڑے مراکز میں تمام
مذاہب کی عبادت گاہیں ایک چھت کے نیچے بنا
کر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اتحاد بین المذاہب کی عملی صورت ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ایک چھت کے نیچے
اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرتے ہیں مگر یہ غیر فطری تجربہ بھی ناکامی کے سوا
کچھ حاصل نہیں کرپار ہا اور ایک محدود اور
مخصوص طبقہ کے سوا کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔
‘‘بین المذاہب ’’ مفاہمت کی ایک صورت یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر طبقہ اپنے
اپنے عقیدہ پرقائم رہتے ہوئے اس پرعمل کرے، مگر دوسروں کا وجود تسلیم کر کے ان کا احترام
ملحوظ رکھے اور باہمی احترام اور مفاہمت کی
فضا قائم کی جائے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں
اور جس طرح دور نبوی اور خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں اور اسلام کی راہ میں مزاحمت
نہ کرنے والے غیر مسلموں کے درمیان جس طرح تعلقات رہے ہیں اور خلفاء راشدین نے اسلامی
ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق ومفادات کا جس طرح تحفظ کیا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جب کہ بنو عباس، بنو امیہ ،
بنو عثمان اور اندنس کی مسلمان حکومت کے زمانے میں غیر مسلم جس امن کے ماحول میں اسلامی ریاست میں زندگی بسر
کرتے رہے ہیں، اسے اس رواداری اور برداشت کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ وطن عزیز میں دستور وقانون اور معاشرتی رویہ میں
مسلموں کے لئے رواداری اور مفاہمت کا جو ماحول پایا جاتا ہے ، اس کا بھی جائزہ لینے
کی ضرورت ہے۔ ا سلئے کہ ہندوستان میں رہنے والی اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں جو بنیادی
اور شہری حقوق میں شمار ہوتے ہیں۔
ان گزارشات سے مقصد یہ ہے
کہ بین المذاہب مفاہمت کے فروغ اور مکالمہ بین المذاہب کے لئے جب ہم بات کرتے ہیں تو
اس کے اہداف ہمارے سامنے ہونے چاہئیں اور ابہام کی فضا میں مذہبی شدت پسندی کا عنوان
دے کر مذہبی حلقوں کو خواہ مخواہ ہدف تنقید بنا کر ہمارا کنفیوژن بڑھتا ہے او ر مسائل
حل ہونے کے بجائے مزید الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
بین المذاہب مفاہمت کا سب
سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ ہم سب اس دستور کا احترام اور اس کی حدود کی پابندی کریں جو ہمارے
درمیان سو شل کنٹریکٹ کی حیثیت رکھتا ہے او رہم سب نے اس کی وفا داری کا عہد کر رکھا
ہے۔ دوسرے نمبر پر ضروری ہے کہ باہمی شکایات کا حل ہمیں اپنے ملک کے اندر اور دستور
کے دائرہ میں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے ہندوستان کے بارے میں مخصوص
منفی ایجنڈا رکھنے والے عالمی استعمار کو ملکی معاملات میں داخل اندازی کا موقع دینے
سے گریز کرنا چاہئے کہ یہ ملکی مفاد کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مسائل ومشکلات کے حل
کے لئے بھی کسی صورت میں فائدہ مند نہیں ہے
۔ تیسرے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ مختلف مذاہب
کے مذہبی رہنماؤں کے درمیان وقتاً فوقتاً
بیٹھنے او رمشترکہ مسائل اور مشکلات وشکایات پر غور کرنے او رباہمی مشاورت و اعتماد کے ساتھ ان کا حل تلاش کرنے کا
کوئی ایسا نظام ضروری ہے جو نارمل حالات میں
بھی قائم رہے اور ملاقاتوں اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ اس کے ذریعہ جاری رہے ۔ اس لیے
ضروری ہے کہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعلیمات سے رجوع کیا جائے کیونکہ شدت وانتہا کے ا س دور میں اگر کوئی
مذہب دنیا کو امن و سکون عطاکرسکتا ہے تو وہ
صرف اور صرف مذہب اسلام ہے اس تناظر میں اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت عیا
ہو جاتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اغیار واعداء کے درمیان میں رہتے ہوئے
ان سے جو معاملات ،سلوک و برتاؤ کیا اور انہیں تمام بنیادی حقوق وفرائض عطا کیے گئے
جو اسلامی تاریخ کا درخشاں باب ہے اور وہ اصو
ل اخو ت و محبت ، بھائی چارہ ،قومی
یکجہتی ، انسان دوستی ،مذہبی رواداری ،رحم
دلی، ہمدردی اور غمگساری کا علم بردار ہے۔ اس لیے یہی تعلیمات ہیں جو دنیا ئے انسانیت
کو نجات فراہم کرسکتی ہے او رعالم کو گہوارہ امن بنانے میں معین و مددگار ثابت ہوں
گی۔ مکالمہ بین المذاہب کے لیےبھی اسلام کے
ان اصو ل وضوابط کواختیار کیا جائے تو یقیناً دنیا میں امن وامان کی فضا ہموار ہوگی۔
یہ بھی عرض کردوں کے آج ان
تنظیموں ، سوسائٹیوں پر پابندی عائد کرنی چاہئے جو ہندوستان کی فضا ء کو مسموم و مکدر کرنے کے درپہ
رہتے ہیں ، جنہیں اسلام سے ازلی دشمنی ہے ،
جب تک ان کے منہ میں لگام نہیں لگے گی اور وہ اسی طرح دندناتے پھرتے رہے تو یقیناً
دنیا کو گہو ارہ امن نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اس لئے بین المذاہب گفت وشنید ہو مختلف
ادیان و نظریات کے رہنما ، سرجوڑ
کر بیٹھیں ۔ آپس میں تبالۂ خیالات کریں ان تعلیمات کو فروغ دیں جن سے یہ دنیا امن
وامان کی سانس لے سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں اقلیتوں کی صورت حال تشویشناک حد
تک خراب ہے ۔ او ریہ ان گنت مسائل سے دوچار ہیں۔ اس لئے ایسے آشوب دور میں ہماری ذمہ
داری دو چند ہوجاتی ہے کہ جو عناصر ،مذہبی
تشدد و منافرت کے بیج بورہے ہیں انہیں ان کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔
22 جولائی ، 2012 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، نئی دہلی
---------
مصنف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
کے شعبۂ دینیات سنی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
URL: