By Zafar Agha
Translated from Urdu by Arman Neyazi, NewAgeIslam.com
A chapter of history perhaps ended with Osama bin Laden. In fact it is a lesson which in its background has a 300 hundred years old history of bloodshed between the Islamic World and the West. It will not be an exaggeration to say that it is a history of defeated Islamic World’s anger against the West. Islamic world has been time and again defeated by the West for the last 300 years.
This history of defeat started, in India, in 1757 between Nawab Siraj ud Daula and Lord Clive in 1757 in the war of Plasesy. Then it was Tipu Sultan, Nawab Wajid Ali Shah and lastly the last Mughal King, Bahadur Shah Zafar in 1857. Bahadur Shah Zafar was kept in captivity by the British. One of the most important pillars of Islamic world, India, was taken in to slavery after one hundred years of war from 1757 to 1857.
Turkey a country reigning supreme over the Arab World, Central Asia and other parts of Islamic world came under British threat and finally lost power in 1922. The country from where Prophet Muhammad (pbuh) had aired his message of Islam, Saudi Arabia also directly or indirectly came under Western possession.
In 1949 Britain signed an agreement with the Jews and divided Palestine into two pieces and ultimately by 1970 it completely became a slave of Israel. And this is continuing till date. Anwar Sadat sold Egypt to the West. Then Saudi King allowed America to use its land to kill Saddam Hussain. And 9/11 happened as the last nail in the coffin which declared Islam and Muslims as terrorist. Western countries started their campaign against Islam and the Muslims on a large scale which in front of the whole world. In short the history of blasphemy against Islam and Muslims is so long that it cannot be written in this article.
All these things made Muslims so distressed and angry against the West that hatred against West became part of their ingrained nature and psychology.
Osama bin Laden is a symbol of this very distress and anger. Osama who taught Russia a lesson in terrorism, with the help of America; himself took up the task of teaching the same lesson to America. After 9/11, Muslims thought that the wait for Khilafat has come to an end with the advent of Osama bin Laden. It was wrong to think so and now we all know what America did with him.
Practically speaking Osama’s terrorism proved advantageous to America and brought disrespect and dishonor to Islam and Muslims. Three thousand people were killed in twin tower attack and, according to Pakistan Prime Minister 30,000 people have lost their lives in Pakistan alone following 9/11. In Iraq according to America 3 lakh and as per other analysis at least 10 lakh people have been killed. America has established its army bases all over the Islamic world except Iran, Lebanon and Syria since 9/11. It means after 9/11 if Muslims got anything it was “Death” and that also either in blasts or by American bombs and missiles. Muslims have almost lost countries like Iraq, Afghanistan and now Pakistan. Even if America does not win a war in Afghanistan it can start a civil war and leave.
In short, Osama was a symbol of Muslims anger against the West or America. This anger made Osama a hero of the Muslims. He used his terrorism against America as a strategy. Osama forgot that he was in a Jihad with the help of America for the Afghanis and that he got successful as he was engaged in “Jihad” against the Russians but when he turned against America he became their enemy no. 1. His Jihad turned into terror which turned the whole non-Muslim world against him. His Jihad with America was rejected. If Al Qaeda or Taliban killed 200 – 400 people in their blasts America killed millions of Muslims in Iraq and Afghanistan. Terrorism was the excuse which provided an opportunity to America to reach and establish their Army bases in the Muslim countries.
The problem with Muslims is they are not aware of the ultimate consequence of their anger against the West. They can create a uproar by calling for Jihad but cannot win a war on the basis of anger alone. Anger can create zeal but cannot win a war. This is what is the case with Osama who had lots of courage but no practical strategy. Technology is fine but with just a passion and aggressiveness it cannot win a war. Muslim world will have to acquire the technology along with the acumen America uses. Till the time this happens, Islamic world from Nawab Shuja ud Daula to Osama bin Laden will keep getting defeated.
Zafar Agha is a veteran Muslim journalist and edits an Urdu newspaper Jadeed Mail published from Delhi.
Source: Sahara, 17 May 2011
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-end-era-with-osama/d/4671
ظفر آغا
ایک تاریخ تھی جواسامہ بن
لادن کے ساتھ غالباً ختم ہوئی۔ دراصل یہ تاریخ عالم اسلام اور مغرب کی خونچکاں تصادم
پر مبنی وہ تاریخ ہے جو تقریباً تین سو برسوں کی طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگر یوں
کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ یہ شکست خوردہ عالم اسلام کی مغرب کے خلاف غصے کی
تاریخ ہے۔ تقریباً تین سو برسوں سے عالم اسلام مغرب کے ہاتھوں یکے بعد دیگر شکست کا
شکار رہا ہے ۔ عالم اسلام کی شکست کی داستان دراصل کہیں اور نہیں بلکہ پلاسی کے میدان
میں 1757میں اسی ہندوستان میں نواب سراج الدولہ کی لارڈ کائیو سے ہار کے ساتھ شروع
ہوئی تھی۔پھر کبھی ٹیپو سلطان تو کبھی نواب واجد علی شاہ اور پھر مغلوں کے آخری چشم
وچراغ بہادر شاہ ظفر 1857میں دہلی ہار کر انگریزوں کی قید وبند کا شکار ہوئے۔ اسی طرح
پورے سو برسوں یعنی 1757 سے 1857کے درمیان انگریزوں نے مغل سلطنت کو پارہ پارہ کر کے
میڈویل دور کے عالم اسلام کے ایک اہم ستون ہندوستان کو اپنے قبضے میں کرلیا ۔پھر انگریزوں
نے رخ کیا ترکی خلافت کا جس کا پرچم تقریباً پانچ سو برسوں سے عالم عرب ، سینٹرل ایشیا
اور عالم اسلام کے دیگر حصوں پر لہرارہا تھا۔آخر1922میں ترکی کی خلاف بھی ختم ہوگئے
اور وہ عالم عرب کو جہاں کبھی مکہ مدینہ سے رسول کریمﷺ نےاسلام کا پیغام دنیا کو دیا
تھا، وہ مکہ مدینہ بھی سیدھا نہ سہی بالواسطہ
طریقہ سے انگریزوں کے زیر نگراں ہوگئے۔ 1949میں انگریزوں نے یہودیوں سے معاہدہ کر کے
مسلمانوں کے قبلہ اول یعنی فلسطین کے دوٹکڑے کردیے اور آخر 1970کی دہائی آتے آتے
فلسطین پوری طرح اسرائیل کا غلام ہوگیا ۔ پھر کبھی انور سادات نے مصر کا مغرب کے ہاتھوں
سودا کرلیا تو کبھی سعودی شاہوں نے اپنی سرزمین صدام حسین کو سرکوبی کے لئے امریکی
فوج کے حوالے کردی۔پھر 11/9کا واقعہ ہوا اور اس کے بعد مسلمان اور اسلام دونوں دہشت
گردی کے کٹہرے میں کھڑے کردیئے گئے ۔پوری مغربی دنیاکےدہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمان
اور اسلام کے خلاف اس دور میں جو پرو پیگنڈہ کیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔مسلمان ساری
دنیا میں ذلیل وخوار ہوا اور یسے میں مسلمانوں کی حمیت کی علامت صدام حسین کو ایک بل
سے چوہے کی طرح نکال کر صدر بش نے تختہ دار تک پہنچا دیا۔ الغرض یہ مسلمانوں کی شکست
اور ذلت کی ایک ایسی طویل داستاں ہے کہ جس کواس چھوٹے سے مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے۔
لا متناہی شکست ،گھڑی گھڑی
ذلت وخواری ،پوری قوم کا دہشت گردی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا اور پھر اسلام پر چھینٹا
کشی ، ان تمام باتو ں کامجموعی اثر یہ ہوا کہ مسلمان مغرب سے نہ صرف نالاں ہوگیا، بلکہ
وہ ایک ایسے غصے سے بھر گیا جہاں مغرب سے نفرت اس کی نفسیات ہوگئی۔اسامہ بن لادن عالم
اسلام کی مغرب کے خلاف اسی غصے کی علامت تھے ۔ خود سی آئی اے سے سوویت یونین کو ختم
کرنے کےلئے دہشت گردی کا سبق سیکھنے والے اسامہ نے آخری مغرب کو سبق سکھانے کی ٹھان
لی اور انہوں نے مغرب سے جنگ کا جو راستہ اپنایا
وہ راستہ دہشت گردی کا تھا، جس میں مغرب کی نفرت میں سلگتے نوجوان مسلم ‘جہادی’ اور
خودکش بمبار اسامہ کے لڑاکا سپائی بنے (جن کو وہ مجاہد کہتے تھے) مغرب کے خلاف جہاد
کرتے پھرتے تھے ۔پھر 11/9کا واقعہ رونما ہوگیا بس پھر 2001سے اب تک ساری دنیا میں دہشت
گردی کا ایک ہواکھڑا ہوگیا۔ لیکن غصے میں بھرا مسلمان ایک 11/9کی امریکی پسائی پر یہ
سوچ بیٹھا کہ جس خلافت کا اس کو انتظار تھا وہ خلافت اب مرد مجاہد اسامہ کےہاتھوں تعمیر
ہوا چاہتی ہے مگر اسامہ کا مغرب کے خلاف ‘جہاد’ کا حشر کیا ہوا؟
جذبات سے برطرف حقیقت یہ ہے
کہ اسامہ بن لادن کے جہاد سے فائدہ صرف اور صرف مغرب کو ہوا ، جبکہ مسلمان اور عالم
اسلام سخت خسارے میں رہے ۔آپ تصور کیجئے کہ 11/9کے حملے میں 3000امریکیوں کا خون بہا
محض پاکستان میں اب تک (بقول یوسف رضا گیلانی ) 30,000سے زیادہ مسلمان اپنی زندگی سے
ہاتھ دھو چکے ہیں۔ عراق میں امریکی تخمینے کے مطابق تین لاکھ اور غیر امریکی تخمینے
کے مطابق دس لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ افغانستان اب ایک موت کی گھاٹی
بن کر رہ گیا ہے جہا ں ہلاکتوں کی گنتی کرپانا کسی ایجنسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے
۔پھر 11/9کی ایک غلطی سے امریکہ عراق تیل پر قبضہ ہوچکا ہے، جس پر 11/9تک کسی امریکی
کی راست رسائی نہ تھی ۔ اسی کے ساتھ ساتھ 11/9یعنی 2001سے ایران ،شام اور لبنان کو
چھوڑ کر امریکہ نے تقریباً تمام عالم اسلام پر اپنے فوجی اڈے قائم کرلئے ہیں۔ یعنی
11/9سے ایبٹ آباد تک مسلمان کے ہاتھ اگر کچھ آیا تو وہ تھی موت ،موت تو کبھی افغانستان
میں طالبان کے ہاتھوں موت کو کبھی پاکستانی جہادیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی موت تو کبھی
ڈرون حملوں میں پاکستانی باشندوں کی موت، اسامہ چلے تھے 11/9کرکے امریکہ کو سبق سیکھانے
۔ہاں کوئی تین ہزار امریکی 11/9کےحملوں میں ہلاک تو ہوئے ، لیکن اس کے بدلے انہوں نے
لاکھوں مسلمانوں کا خون بہادیا ۔مسلمانوں کے ہاتھوں سے عراق، افغانستان اور اب پاکستان
جیسے اہم ممالک تقریباً نکل گئے۔ اگر امریکہ افغانستان میں حتمی طور پر ابھی جنگ نہیں
بھی جیتا ہے تو وہ کسی وقت بھی افغانستان کو ایک اور خانہ جنگی کے جہنم میں جھونک کر
نکل سکتا ہے۔ جس کا خمیازہ پھر افغانی عوام برسوں تک اپنی موت کے ذریعہ بھگتتے رہیں
گے۔
الغرض ،اسامہ بن لادن مغرب
کے خلاف صدیوں سے چلی آرہی عالم اسلام کے غصے کی ایک علامت تو تھے اور یہ غصہ تھا
جس نے کسی نہ کسی سطح پر ہر مسلمان کے دل میں ان کے لئے تھوڑی بہت ہمدردی ضرور پیدا
کردی تھی ۔ پھر فلسطین جیسی ناانصافی کو استعمال کر کے اسامہ نے جس جہاد کا پرچم بلند
کیا، اس نے عالم اسلام میں مغرب کے خلاف بھرے
ہوئے غصے میں تیل کا کام کیا۔ یہی سبب ہے کہ اسامہ عالم اسلام کے ہیروبن گئے لیکن وہ
مغرب کے خلاف مسلمانوں کے ایک ایسے غصے کی علامت تو تھے جو مغرب کے خلاف جذبات میں
لڑنے کو تو تیار ہوجاتا ہے ،لیکن اس کو یایہ اندازہ قطعاً نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا
ہو ں گے ۔ انہوں نے اسی دہشت گردی کو امریکہ کے خلاف حکمت عملی بنایا جس کے استعمال
کر کے ان کے جیسے ہزار ہا مجاہدین نے افغانستان میں سوویت یونین کو مزہ چکھایا تھا،
لیکن اسامہ یہ بھول گئے کہ سوویت یونین کے خلا ف دہشت گردی اس لئے کامیاب ہوئی کہ اس
وقت اسامہ سمیت تمام مجاہدین افغانستان میں ‘امریکہ کا جہاد’ لڑرہے تھے ۔ اسی ‘جہاد’
کا رخ جب امریکہ کی جانب ہوگیا تو اب اسامہ امریکہ کے دشمن نمبر ایک ہوگئے اور بس ان
کا جہاد ایک جنگ نہیں ،بلکہ ایک دہشت بن کر رہ گیا ،جس کو تمام غیر مسلم دنیا نے مسترد
کردیا۔
سوویت یونین کے خلاف امریکہ
دہشت گردی کی حکمت عملی کا موجد تھا۔ اسامہ بن لادن سمیت سب کو سی آئی اے اور امریکی
ٹریٹنگ اور امریکی ہتھیاروں کی مدد حاصل تھی۔ جب اسی دہشت گرد حکمت عملی کا استعمال
امریکہ کے خلاف ہوا تو اب امریکہ نے اس کو
اپنی ڈھال بنا کر پورے عالم اسلام اور اسلامی عقیدے کو اپنے حصار میں لے لیا ۔ القاعدہ
اور طالبان اگر ایک دہشت گرد حملے میں دوچار سو لوگوں کو ہلاک کرتے تھے تو مغربی طاقتیں
عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا لیتی تھیں ۔ یہ دہشت گردی کا ہی
بہانا تھا کہ جس نے امریکہ کے قدم ہر مسلم ملک تک پہنچادیے۔ اسامہ بن لادن اور اس کے
ساتھی یہ سمجھتے رہے کہ وہ مغرب کے خلاف مسلم غصے کا استعمال مغرب کے خاتمے کے لئے
کرلیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آخر اسامہ امریکیوں کےہاتھوں خود اپنی خفیہ پناہ گاہ میں
مارے گئے اور اس طرح عالم اسلام کا مغرب کے
خلاف ایک اور جہاد پسپا ہوگیا۔
عالم اسلام کا مسئلہ یہی ہے
کہ مغرب کے خلاف غصے سے تو بھرا ہوا ہے، لیکن اس کو یہ پتہ نہیں کہ کوئی قوم محض غصے
کی بنیاد پر جہاد کا نعرہ بلند کر کے ایک ہنگامہ تو بپا کرسکتی ہے لیکن فاتح نہیں ہوسکتی
ہے۔ تب ہی تو اٹھارہویں صدی سے اسامہ تک مغرب کے خلاف ہر وہ مسلم جہاد ناکام ہورہا
ہے، جس میں جوش تو ہوتا ہے لیکن ہوش ندار دہوتا ہے ۔ تمام جہادیوں کی طرح اسامہ بن
لادن کا بھی المیہ یہی ہے کہ وہ ایک انتہائی نڈر اور پرجوش شخصیت تو تھے ، لیکن اتنے
باہوش نہیں تھے جیسا باہو ش مغرب ہے ۔ وہ دور جدید جس پر مغرب کو قدت ہے اس دور میں
جنگیں جذبات سے نہیں ٹیکنالوجی پر عبور سے جیتی جاتی ہیں ۔ اور یہ ٹیکنا لوجی محض جو
ش نہیں ،بلکہ عقل سے حاصل ہوتی ہے۔ عالم اسلام کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس وہ عقل
نہیں جس عقل سے مغرب نے ٹکنالوجی حاصل کی ہے۔
جب تک عالم اسلام وہ عقل حاصل نہیں کرپاتا ہے ،تب تک نواب شجاع الدولہ سے اسامہ بن
لادن تک اور پھر اس کے بعد ہر اسلام جہاد کا نتیجہ بالآخر شکست ہی ہوگا، اس لئے غصہ
ترک کیجئے اور ہوش کے ناخن لیجئے ۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-end-era-with-osama/d/4671