ظفر آغا
21اکتوبر، ہندوستان کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے افراد میر جعفر اور میر صادق کے ناموں سے بخوبی واقف ہوں گے۔ جعفر اور صادق اس لئے یاد نہیں کئے جاتے کہ انہوں نے کوئی بڑا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان دونوں کا نام تاریخ میں اس لئے مشہور ہے کہ انہوں نے انگریزوں سے مل کر آپنے آقائوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ میر جعفر نے بنگال کے حکمراں نواب سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں سے مل کر اپنے نواب کی تباہی کا سامان کیا تھا، جس کے بعد بنگال میں انگریزوں کی حکمرانی قائم ہو گئی تھی۔
اسی طرح دکن میں میر صادق نے ٹیپو سلطان کو دھوکہ دےکر اپنے حاکم کو میدان جنگ میں انگریزوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ میر جعفر اور میر صادق ہندوستانی تاریخ میں اس قدر بدنام ہوئے کہ آج دونوں دھوکے کی علامت کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان دونوں کے دھوکے سے نہ صرف ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تھا بلکہ ہندوستان سے مسلم حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔یہی سبب ہے کہ ان دونوں کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:
جعفر از بنگال صادق از دکن
تنگ ملت، تنگ دیں، تنگ وطن
لیکن افسوس کی ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میر جعفر اور میر صادق کے دور سے اب تک محض ان ہی جیسے کرداروں سے بھری ہوئی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں بہادر شاہ ظفر جیسی شخصیت کم ملتی ہے، جبکہ میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ بھرے پڑے ہیں۔ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ مولانا آزاد کے بعد آزاد ہندوستان سے مسلم قیادت کا خاتمہ ہو گیا، لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ جب کبھی انتخابات کا موقع آتا ہے تو یکایک مسلم قائد گلی گلی میں پیدا ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کی سوجھ بوجھ کا ٹھیکہ اپنے سر لے لیتے ہیں۔ اس فیرست میں عموما علماء کرام صف اوّل میں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی قائدین میں سے ایک قائد نے ایک بڑے اجلاس میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ کانگریس پارٹی، بی جے پی (یا مودی) کا ڈر بتا کر مسلمانوں کو ووٹ حاصل نہ کریں۔ انہوں نےمسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ کسی کو ناکام بنانے کے بجائے اپنی ترقی کے لئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ مولانا نہ یہ نہیں فرمایا کہ مسلمان اگر اس ملک میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو نریندر مودی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ بھلا کوئی عالم دین یہ بات کھل کر کس طرح کہہ سکتا ہے کہ مودی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں، لیکن جو بات موصوف نے نہیں کہی، وہ ہندوستانی میڈیا کھل کر کہہ رہا ہے۔ مشہور انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے موصوف کے بیان پر ایک خصوصی اداریہ لکھا، جس میں کہا کہ، “مدنی(صاحب) نے مسلمانوں کو اچھا مشورہ دیا ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ان کی ان کہی بات کے بارے میں اظہار خیال کیا۔
حالانکہ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرے مدنی (یعنی مولانا محمود مدنی) نے اپنے بیان میں مودی کا کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن انہوں نے یہ ضرور کہا کہ، سیکولر حکومتیں راجستھان اور اتر پردیش میں فسادات نہیں روک سکیں اس وقت میڈیا میں
ترقی اور بہتر حکمرانی کی علامت نریندر مودی سمجھے جا رہے ہیں۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہر کسی کا آئینی حق ہے کہ وہ ہر معاملے میں نہ صرف اپنی رائے دے سکتا ہے بلکہ سیاسی امور میں دوسروں کو بھی رائے دے سکتا ہے۔ لیکن یہ رائے کہ مسلمان ء اپنی ترقی کے لئے ووٹ دیں اور بالفاظ دیگر مودی کو ووٹ دیں، یہ مشورہ کوئی مسلم قائد ہی دے سکتا ہے، کیونکہ مودی پر ء کی مسلم نسل کشی کا الزام ہے۔صرف الزام ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے سیکولر ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ گجرات میں مسلم نسل کشی مودی ہی نے کرائی تھی۔ واضح رہے کہ اس نسل کشی کے دوران بطن مادر سے بچوں کو نکال کر قتل کیا گیا تھا اور دن دہاڑے مسلم خواتین کی ابرو ریزی کی گئی تھی۔ آج تک تیستا سیتلواد اور ان کے ہم خیال درجنوں ہندو گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف عدالتوں میں جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مسلم قائدین یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ گجرات واقعات کو بھول کر اپنی ترقی کے لئے مودی کو ووٹ دو۔ ایسی صورت میں میر جعفر اور میر صادق کی یاد ضرور تازہ ہو جاتی ہے۔دراصل مسلمانوں کے زوال کا سبب یہی ہے کہ ہماری صفوں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ء کے عام انتخابات تاریخی اعتبار سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئےء کی جنگ آزادی سے کم اہمیت کے حامل نہیں ہوں گے۔ء میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے اقتدار گیا تھا، اسی طرح اگر ء میں ہندوتواطاقتیں کامیاب ہوگئیں، تو یہ ملک باقاعدہ ہندو راشٹر میں تبدیل ہو جائے گا اور پھر گجرات کی طرح سارے ہندوستان میں مسلمان سر اٹھا کر نہیں جی سکیں گے۔ کیا اس کو ترقی کہا جائے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بنگا ل اور دکن میں میر جعفر اور میر صادق نے مسلم حکمرانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپا تھا تو قوم مسلم غلام ہو گئی تھی، تاہم میر جعفر اور میر صادق نے ذاتی طور پر کافی ترقی کی تھی۔ اس طرح اگر مودی ملک کے وزیر اعظم بن گئے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم مسلم تو دوسرے درجے کی شہری بن جائے گی، لیکن مٹھی بھر مسلم قائدین کی ذاتی طور پر بہت ترقی ہوگی۔
ء میں گجرات فسادات کے بعد جب اٹل بہاری واجپائی کو جب یہ خطرہ محسوس ہوا کہ چنائو ہار سکتے ہیں تو اس وقت بھی ایک حمایت کمیٹی قائم ہوئی تھی، جس نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ مسٹر واجپائی کے حق میں ووٹ استعمال کیا جائے اگر ہم دوسرے درجے کے شہری بن گئے تو پھر ترقی ہمارے لئے کیا معنی رکھتی ہے؟
ء تک ہماری صفوں میں بہت سے میر جعفر اور میر صادق نظر آئیں گے۔ ان سے ہوشیار رہنا اور اپنی بقا و دوسرے درجے کا شہری بننے سے بچنے کے لئے ووٹ ڈالنے میں ہماری عافیت اور ترقی ہے۔
https://newageislam.com/urdu-section/after-all-whom-mahmood-madani/d/14072