ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
18 اکتوبر 2024
نوجوانوںسے مخاطب ہونے سے قبل ایک بات واضح کردوں کہ میں شدت پسندی، انتہا پسندی، دہشت گردی، ہر طرح کے جنون و جذباتیت کا سخت مخالف ہوں۔ اسی طرح ہر کلام وسلام، دوستی و مخالفت آئین کے حدود، قیود اور دائرے کے اندر ہو، اس کا سختی سے قائل ہوں۔ ہاں اپنے نوجوانوں کو بیزاری سے بیداری کی طرف لے جانا اب میری تحریروں کا محور رہوگا۔ سابقہ مضمون میں نوجوانوں کے کردار پر خصوصی اشاریہ تھا۔
نوجوان کسی بھی قوم، ملک و معاشرے کا بازو ہوا کرتے ہیں، مضبوط بازو قوم کے وقار، ناموس، بقا و سلامتی کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔ وطن عزیز کے اقتدار اعلیٰ، سالمیت، یکجہتی اور خود مختاری کی پہچان، معاشرے کی شہ رگ ہوا کرتا ہے۔ نوجوان عزم جواں سے غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرنے کا جنون رکھتا ہے، تو کہیںملی عظمت و حرمت پر مٹنے کا عزم رکھن والا رضاکار، دشمنوں کے خیمے میں نشتر اندازی کا ماہر اور فتح مبین کے قطعی حصول کا دیوانہ، زوال کا ابدی اور ازلی دشمن تو کہیں جہدی اساس کا پیکر، یہ جہاں مضبوط قلعوں کی تعمیر کرتا ہے، وہیں جب یہ قلعے اپنی روح سے خالی بیجان کھنڈر بننے کے مستحق ہو جاتے ہیں تو انھیں ریت کا ڈھیر بنانے کا کام بھی خودہی انجام دیتا ہے۔ وہ سرحد کا نگہبان ہوتا ہے اور ایثار و قربانی کی زندہ مثال، یہ ہے نوجوان کی طاقت اور دلیرانہ شجاعت جس کو جگانا اپنی ملی ذمہ داری سمجھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔
آج جن حالات سے مسلمانان ہند بالعموم اور نوجوانان ملت بالخصوص گزر رہے ہیں وہ اب زیادہ وقت پرانی نسل کو نہ دے پائیں گے ۔ ۹۰؍ کی دہائی میں مسلم نفسیات کو مجروح اور پست کرنے کی جو گردان شروع ہوئی تھی اور اس سےایک مخصوص طبقے کو جو سیاسی و سماجی نتائج بر آمد ہوئے ہیں ان کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے۔ تنگ دامنی، تنگ نظری اور تنگ دستی نے جس طرح اپنی گرفت سخت کی ہے۔ اس سے کوئی شعبۂ زندگی متاثر ہونے سے نہ بچ جائے اس کو یقینی بنایا جارہا ہے۔
عبادات، روز مرہ کے معاملات، نقل و حمل و حرکت، سرکاری و غیر سرکاری متعصبانہ رویے و رجحانات، مذہبی جذبات پر انگشت نمائی، کھلا جارحانہ بے لگام طرز اخلاق و عمل، اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جانا، مدارس و مساجد کو انتہا پروری کے مراکز قرار دیا جانا، شرعی شبیہ پر سوال، یہاں وہاں زدو کوب، لعن طعن، اخلاقیات سے گری زبان کا بر ملا میڈیا میں استعمال، غدار ایسے کہہ دینا جیسے کوئی بات ہی نہیں، مسلم اداروں، تنظیموں، تحریکوں کی مثبت و تعمیری سرگرمیاں تک سوالات کی گرفت میں، ان کی عام کردار کشی، شہریت کے نئے زاویے بالآخر اسلام اور مسلمان سے تعلق اب ایک جرم کی شکل میں دیکھا جانا اور کیا کیا؟ یہ وہ صورتحال ہے جس سے آج پوری ملت دست و گریباں ہے۔
دقیانوسی و روایتی قیادت جو تقریر زور دار کرتی ہے، کسی صحافی سے اچھا بیان لکھوا اور چھپوا لیتی ہے، مگر مکالمے، مباحثے، مفاہمت اور معاملہ فہمی کے ہر امتحان میں میز پر اے نوجوان تجھے پسپائی کے سوا کچھ دے نہیں پا رہی ہے۔ مسائل بڑھ رہے ہیں، زمین تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے۔ سیاست اور سیاسیات دونوں میں گزرتے وقت کے ساتھ پستی آتی جارہی ہے، جس کو زیر کرنا چاہتے ہو وہ زبر ہوتا جارہا ہے۔ جس کے لیے ایسا کر رہے ہو وہ نظر انداز کرتا چلا جا رہا ہے۔ آخر جس کے ساتھ آپ کھڑے ہیں اس پر آپ اثر انداز کیوں نہیں ہو پا رہے ہیں؟ یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔
جمہوریت اور وہ بھی جس کا محور سیکولرزم ہو اس میں ۲۵؍ کروڑ کی تعداد نہ مفلوج ہوسکتی ہے، نہ معذور، نہ معدوم و مکروہ قرار دی جا سکتی ہے اور نہ ہی وہ ہمیشہ کے لیے محروم و مرحوم کے زمرے میں ڈالی جاسکتی ہے۔ وقتی معروضہ پسپائی کی مستحکم دلیل اور منطق ہر گز نہیں ہوسکتی۔
ہم مسلمانان ہند ایک زندہ قوم ہیں۔ ہمارے پاس آج نہ علم کی کمی نہ علمیت کی، نہ حکمت کی نہ مصلحت کی، نہ سیاسی فہم کی کمی اور نہ ادراک عمل میں مہارت کی، نہ گفت وشنید کے اندازو اخلاق کی، تاریخ، تہذیب، تمدن، روایات و اقدار، وراثت اور نہ ہی کسی اور چیز کی۔ پھر ایسا کیا ہے کہ ایک عجب ہو کا عالم ہے، سوالات چو طرفہ ہیں جواب ہو کر بھی نہیں، وجہ موروثیت کو اپنی آماجگاہ بنا لیا ہے۔ ملک میں جمہوریت اور ہمارے ہر نظم ونظام میں ملوکیت و موروثیت کا دور دورہ ہے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایوانوں کے اندر کے کمروں کی گفتگو، نجی ملاقاتوں میں ذاتی مسائل اور ذاتی فوائد کی قواعد قائدین کے اس طرز عمل سےاہل معاملہ بخوبی واقف ہیں کہ میاں جی اپنے معاملے کے حل کے لیے ملی معاملے کے کور میں وقت مانگتے ہیں اور ایسے میں وقت مل بھی جاتا ہے۔ قائدین کے تمام مسائل حل مگر قوم کے بس اللہ ہی اللہ!
غور کریں اپنے گرد و نواح میں ذرا نظر دوڑائیں کہ کیا سیاست، تنظیم یا کسی ملی ادارے سے جڑے شخص کی ذاتی زندگی، اس کی اقتصادیات، رہائش کا معیار، معاملات زندگی کی چمک دمک، اولاد کو حاصل آسائشیں ان میں کہیں کوئی کمی دکھائی دے رہی ہو تو بتائیں۔ قوم گڑھے میں اور قائدین بلند وبالا رہائشوں، عمارتوں میں جبکہ ملت گندی بستیوں، نالوں اور تنگ گلیوں میں۔
نوجوانو! یہ دور تمہارا ہے، اس کی صعوبتیں اور چیلنجز تمہارے ہیں۔ اس کے خطرات و محرکات تمہارے ہیں، اس کی آزمائشیں تمہاری ہیں۔ لہٰذا اٹھو! خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ، کمر بستہ ہو ایک ایسی جد جہد کے لیے جس کا تقاضہ تمہارے حالات اب تم سے کر رہے ہیں۔ تمہارا نشانہ صرف اور صرف ملت کے اندر موجود دیمک کی طرح چاٹ رہا فرضی نظام ہے جس نے ہمارا یہ حال کر دیا ہے۔ کیا ذلت و رسوائی ہمارا ہی مقدر ہے؟ کیا خوشحال و خوش باش معاشرہ ہماری منزل نہیں؟ کیا خوداری پر ہمارا حق نہیں؟ کیاملی وقار کی ہمیں ضرورت نہیں؟ کیا ترقی کے مواقع ہمارے لیے نہیں؟ کیا سیاسی، سماجی، اقتصادی استحصال ہی ہمارا نصب العین ہے؟ کیا انتشار، تفرقہ، گروہ بندی، آپسی خلفشار اور رنجش ہی ہمارا مقدر ہے؟ کیا اتحاد بین المسلمین اور باہم اشتراک عمل ہمارا ہدف نہیں ہوسکتا۔ کیا مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ملی تشخص کا دفاع ہمارا ہدف نہیں ہوسکتا۔ کیا مستقبل کی تعمیر و آئندہ نسلوں کے لیے ایک محفوظ معاشرہ ہمارا ہدف نہیں ہوسکتا۔ یقیناً ہوسکتا ہے اور ہونا ہی چاہئے، بشرطیکہ نوجوان تو اپنی صف بندی کرلے اور صف آرا ہو جا ہر اس باطل قوت کے خلاف جو تجھے راہ حق سے دور کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک روشن، تابناک، محفوظ، با وقار اور خود کفیل مستقبل تیرا انتظار کر رہا ہے۔
مستقبل کے حوالے سے ایک بات بالکل صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ اس تمام کوشش کا مقصد نوجوان کے ضمیر کو جھنجوڑنا بھی ہے، جگانا بھی ہے، بیدار بھی کرنا ہے اور اس کی غیرت و ملی حمیت کو للکارنا بھی ہے کہ آخر ملت کی سوداگری کا یہ تماشہ کب تک یوں ہی چلتا رہے گا۔ کیا تم اپنی ملی ذمہ داریوں کا کبھی احساس نہ کروگے۔
نوجوانو!یاد رکھو کہ تم ایک ایسی روشن اور سنہری روایت کے امین ہو جو صداقت، شجاعت، حکمت و مصلحت، دلیرانہ عزم، مجاہدانہ روش اور باطل قوتوں کو زمین بوس کرنے اور حق و انصاف قائم کرنے کی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آؤ ماضی کی روشنی سے حال کے اندھیروں کو چاک کریں اور مستقبل کے لیے ایک ایسی شمع روشن کریں۔ جس کا چراغ نہ آندھیوں میں گل ہو نہ طوفانوں میں، بلکہ ہمیشہ اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ روشن رہے ! آگے بڑھو اور اپنے فرائض کی بر وقت انجام دہی کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ۔
جب تک ہر بستی، محلے، گاؤں، تحصیل و ضلعی سطح پر مسلم نوجوان اصلاح معاشرہ کی تحریک کا پر چم بلند نہیں کرے گا جو اپنے اپنے حلقہ اثر کے ہر ملی و قومی فیصلے کرنے اوران پر عمل کروانے کا اپنے کو متحمل نہیں بنائے گا حالات نہیں بد لیں گے۔ ہر تکلیف زدہ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، ہندو مسلم کی آگ کو ٹھنڈا کرنا پڑے گا، ماحول کو پر امن بنانے اور امن پسند قوتوں سے حوصلہ لیتے ہوئے ان کو اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرنی ہوں گی تاکہ مثبت فکر اور تعمیری سوچ رکھنے والے قومی اثاثے مضبوط بنائے جاسکیں۔ جو لوگ کام کر رہے ہیں انھیں کرنے دیں، مگر اب باگ ڈور آپ کومقامی سطح پر خود ہاتھ میں لینی ہوگی صرف یہی راستہ ہے ۔
جذباتی تقریریں، بیانیے، فیصلے اور پس پشت سودے بازیاں بہت ہوئیں جس دن میری قوم سر گرم عناصر کی مالیات پر نظر رکھنا شروع کر دے گی۔ میر جعفر اور میر صادق ہاتھ آ جائیں گے۔ دشمن گھر میں ہے۔ ہم اسے پڑوس میں تلاش کر رہے ہیں۔ خود اعتمادی، خود ارادی، خود اختیاری وہ ہتھیار ہیں جو اگر گروی نہ ہوں تو اس وطن عزیز میں ایسا کیا ہےجو ممکن نہیں؟
18 اکتوبر 2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/youth-nation-expectations/d/133484
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism