یو گندر سکند ، نیو ایج اسلام
10 جنوری 2013
(انگریزی سے ترجمہ : نیو ایج اسلام )
کچھ مہینے پہلے، فلسطینی عیسائی عالم کارکن کی طرف سے ایک پبلک لیکچر میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ وہ خاص کر ہندوستانی عیسائیوں کے ایک گروپ کو اس بات کا قائل کرنے کرنے کی کوشش کرنے لئے ہندوستان آئے تھے تو انہوں نے کہا کہ اپنے عیسائی مذہب کا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی مظالم کی مخالفت میں فلسطینی عوام (جس میں عیسائی اور مسلمان دونوں شامل ہیں) کی طرف داری کریں ۔
یہ گفتگو کسی بھی طرح ، بہت سے عیسائی، خاص طور پر بنیاد پرست عیسائی واعظوں سے متاثر اورجذباتی طور پر اسرائیل کے حامیوں کے لئےآسان نہیں تھا ، اس لئے نہیں کہ وہ یہودیوں سے محبت (ان سے جو وہ تاریخی طور پر ذلیل کئے گئے ہیں ) کرتے ہیں ، بلکہ صرف اس لئےکہ انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کر نا ان کے مذہب میں لازمی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی دوسری آمد ، صیہونی نواز بنیاد پرست عیسائی کا یقین ہے کہ، اسرائیلی ریاست کے مسلسل وجود اور ان کے ملک سے فلسطینیوں کے اخراج پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
خاص اسی صحیفے کا مطالبہ کرتے ہوئے جسکا اسرائیل نواز عیسائی داعی ، کرتے ہیں ، فلسطینی مسیحی عالم کارکن نے بالکل مخالف نتائج پر بحث کی۔ یہ ایسا نہیں تھا، جیسا کہ رجعت پسند عیسائی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہے کہ بائبل کا مطالبہ ہے کہ عیسائیوں کو فلسطین میں صیہونی یہودیوں کی حمایت کرنی چاہئے ،نہیں یہ اس سے برعکس نہیں تھا جو وہ کہتے ہیں کہ بائبل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خدا نے فلسطینیوں سے فلسطین ضبط کر لیا تھا اور یہودیوں کو آنے والے وقت کے لئے یہ تحفہ میں دے دیا تھا ۔ نہیں، یہ اس سے مختلف نہیں تھا، جس کا بہت سے دیگر عیسائی کو یقین ہے کہ یہودیوں کی اسرائیل واپسی کا حکم بائبل میں خدا کی طرف سے دیا گیا ہے یا یہ کہ بائبل کا اعلان ہے کہ یہودیوں کو فلسطین واپس لوٹنے کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں واپس آ جائیں گے۔ اس کے برعکس، اس شخص نے اصرار کیا، کیونکہ بائبل سب کے لئے ' اچھی خبر ' تھی وہ فلسطینیوں کے لئے بھی ‘اچھی خبر ’تھی، جسی بھی صورت میں وہ یقیناً فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے اخراج کے لئے حکم نہیں دے سکا ، جیسا کہ صیہونی عیسائی، صیہونی یہودیوں کو پکارتے ہوئے اس کا اصرار کیا۔ بائبل میں کہیں ، اس نے دعوی نہیں کیا، کیا اس نے کہا کہ 'مقدس زمین' ایک تشت میں یہودیوں کو دی جائے گی۔
اگر آپ اس کارکن کی بات سنتے تو آپ کو لگتا کہ وہ اور ان کے قدامت پسند عیسائی مخالفین دو بالکل مختلف، باہمی متضاد صحیفوں پر یقین رکھتے ہیں اور اس سے اقتباس نقل کرتے ہیں ۔ لیکن اس مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ جذباتی طور پر اسی کتاب کتاب کا دعویٰ ، بالکل برعکس نتیجہ بر آمد کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ ہر کوئی آسانی سے کسی پر بھی جھوٹ موٹ صحیفوں کو پڑھنے کا الزام لگا سکتا ہے، ان کو پریشان کرتے ہوئے ، در حقیقت جو وہ بالفرض کرتے ہیں اس کا مخالف مطلب نکالنے کے لئے ۔ ہرکوئی اس کے ارادے کے جھوٹے علم کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسروں پر خدا کے جھوٹے دعوے کی طرف منسوب کرنے کا الزام لگا سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ بھی جو ہو سکاتا ہے کہ اس کو تسلیم نہ کرتے ہوں ، مقدس کتاب کی ، ان کی جدا گانہ تشریح ، عام طور پر جس کا وہ احترام کرتے ہیں بنیادی طور پر ان کے اپنے تعصبات، مفادات اور سیاسی عہدوں کے ذریعہ طے شدہ ہے ۔ وہ اپنے باہمی مخالف سیاسی ایجنڈے کو اسی بائبل میں پڑھتے ہیں ،وہ ان نصوص کی مناسب تشریح پہلے سے طے شدہ اس نتیجہ کو موافق کرنے اور حمایت کرنے کے لئے کر تے ہیں جس کی وہ حمایت کرنا چاہتے ہیں، جس پر وہ خدا کی مرضی کا لیبل لگاتے ہیں۔وہ ششدر ہ جائیں گے اگر آپ ان یہ بتائیں گے کہ جو وہ کر رہے ہیں ، اس کا مطلب اپنے ذاتی آراء کو خدا کی حتمی مرضی کے طور پر تھوپنا ہے ۔
زیر بحث معاملہ بےانتہا پیچیدہ ہو جاتا ہے، اگر آپ کو وہ جھگڑا یاد ہو کہ صرف عیسائی ہی مذہبی یا مذہبی مقدس کتابوں کے دلائل کی ترتیب دینے والے نہیں ہیں ، ایک معاملے میں مختلف سیاسی نقطۂ کی حمایت کرنا اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ اسرائیل اور فلسطین تنازعہ ، یقینا ً بہت سے یہودی، اس بات پر دلیل پیش کرنے کے لئے ان کے صحیفوں کا حوالہ پیش کریں گے کہ خدا چاہتا ہے کہ جسے وہ ‘‘مقدس زمین ’’کہتے ہیں وہ اسرائیلی کے زیر تسلط ہی رہے ، اور تمام عرب کو اس ملک سے نکال دیا جائے۔ لیکن بشمول قدامت پسندوں کے دوسرے ایسے یہودی ہیں، جو واضح طور پر اس کے برعکس بات کرتے ہیں ہےاور انہیں یہودی کتابوں کے مطالعہ کی بنیاد پر ، یہ اصرار کرتے ہیں ، کہ متوقع مسیح کی آمد سے پہلے ایک یہودی ریاست قائم کرنے میں خدا کی مرضی کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیلی ریاست کے لئے کوئی کتابی حکم نہیں ہے، جو اس وقت موجود ہے۔ اس کے بعد، ظاہر ہے، بہت سے مسلمان یہودی ریاست کی تباہی اور فلسطین میں اسلامی حکومت کا قیام کرنا چاہتے ہیں ،اسلامی صحیفوں اور روایات کی مرضی یا فرمان کی طرح کچھ ، لیکن میں کم از کم ایک ایسے مسلمان عالم کو میں جانتا ہوں (حیرت کی بات نہیں، ان کی بہت سے ان کے ہم مذہبوں کے ذریعہ سخت مخالفت کی گئی ) جو انہیں صحیفوں کے اپنے مطالعہ کی بنیاد پر، اسرائیل کا دفاع اور اپنے اسلامی مخالفین کی ملامت کرتے ہیں ۔
ان کے سخت اختلافات کے باوجود، دراصل اس پیچیدہ تنازعہ میں اداکار اتنے مختلف نہیں ہیں جتنا وہ سمجھتے ہیں یا ان کے بارے میں جیسا ہونا فرض کر سکتے ہیں ۔ ہر کسی کو اس با ت کا یقین ہے کہ صرف وہی خدا کی مرضی یا ذہن کو جانتا ہے، اور وہ اسرائیل / فلسطین کے بارے میں سوال پر ایک خاص موقف یہ ہے وہ کہ بالکل مرضی الہی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اب، چونکہ یہ سب موقف باہم متضاد ہیں، اس کی وجہ یہ فرض کرنا ہے کہ خدا موجود ہے (جیسا کہ ان مذہب والوں کا خیال ہے)، یا تو سب یا ان میں سے کوئی ایک غلط ہے یا پھر ہر کوئی ۔ اگر خدا کا کوئی وجود نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ تمام لوگ فریب میں ہیں۔ ایک غیر جانبدار مبصر شاید یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ، ان میں سے ہر ایک شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس میں ملوث ہے ، خود ان کے اپنے صحیفوں کو غور سے پڑھنے میں سیاسی انجام ، کی خواہش کی جاتی ہے یا یہ سمجھا جاتا ہے ، کہ خود کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے، اور پھر اس نتیجے کو مذہبی جواز فراہم کرنے کے لئے یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ یہ اس کی اپنی ذاتی رائے نہیں ہے، بلکہ خدا کی مرضی ہے۔ اس طرح کے تنازعہ میں خدا کو ملوث کرنا ، اور یہ کہنا کہ کسی کی پوزیشن خدا کے منصوبہ بندی کی نمائندگی کرتی ہے حمایت حاصل کرنے اور جواز فراہم کرنے کا ایک با کمال راستہ ہے ۔ مسخ کرنا ایک ایسا ایجنڈا ہے جو کسی کے اپنے مفادات کو ، خدائی حکم کی طرح ،فروغ دیتا ہے ، دوسروں کے ذریعہ نشان زدہ ہونے سے بچنے کے لئے ایک ہوشیار اقدام ہے، یا کسی کے اپنے ضمیر کے خود غرض محرکات کے ذریعے کارفرما ہونے کے طور پر ۔
چونکہ خدا تقریبا ، یقینی طور پر اپنی مرضی کا اعلان کرنے کے لئے عوام میں ظاہر نہیں ہو گا کہ وہ سب پر واضح ہو جائے، وہ اداکار پر شور انداز میں اس بات کا دعویٰ کر سکتے جو وہ اس کے نام پر چاہتے ہیں اور شاید ایک دوسرے کے ساتھ تکرار جاری رکھ سکتے ہیں، ہر ایک اپنی مرضی کی نمائندگی کرنے کا دعوی ، قیامت کی (یہ تسلیم کرنا کہ واقعی ایک ایسی چیز ہے) آخر صبح تک کرتے رہیں گے ۔
میں نے اسرائیل فلسطین اور خدا کے ذہن کو جا نے کا پیچیدہ مسئلہ اٹھایا ، مباحثہ کے مختلف فریقوں نے جس کی وضاحت اور بھی عام نقطہ نظر تک کی : کس طرح پوری تاریخ میں اور آج بھی ، مذہبی لوگوں کی حریف جماعت نے معمولاً خدا کی مرضی کو جاننے کا دعوی کرنے کی اور اس کی ترجمانی اس کے نام پر ، کرنے کی ہمت کی ، ان کے ان وسیع تر ایجنڈے اور منصوبوں کے حصول کے لئے جو انہیں لگتا ہے وہ ان کے مفادات کے لیے موزوں اور بہتریں معاون ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حیوانیت کے تمام طریقے، غلامی، نسل کشی، ستی، خواتین کی محکومی ، فتح، ذات پات پر مبنی ظلم ،استعماریت، ظفریابی کی 'مقدس' جنگیں اور شہنشاہیت وغیرہ، تمام کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جہاں تک میں سوچ سکتا ہوں تقریبا تمام مذہبی روایات میں ایسا ہے ۔
URL for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/all-god’s-name-uses-abuses/d/9941
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-uses-abuses-scripture-/d/13065