یوگیندر ایس. سکند ، نیو ایج اسلام
06 اکتوبر 2017
تمہیں کس لئے پیدا کیا گیا اور تمہیں اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد کیا ہے؟
(سری گرو گرنتھ صاحب 970)
************
یہ انسانی جسم تمہیں عطا کیا گیا ہے۔
اور یہ خالق کائنات تک رسائی حاصل کرنے کا ایک موقع ہے۔
کچھ کام نہیں آئے گا۔
مقدس صحبت اختیار کرو؛ الٰہ العالمین کے نام پر مراقبہ کرو۔
دنیا کے اس خوفناک سمندر کو عبور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرو۔
مایا (مال و اولاد اور دنیاوی عزت و شہرت) کی محبت میں تم اپنی اس زندگی کو بیکار گنواں رہے ہو۔
(سری گرو گرنتھ صاحب 12)
صبح جب ہم پیدار ہوتے ہیں اس وقت سے لیکر رات سونے کے وقت تک اپنے تمام کاموں کو ایک مخصوص مقصد کے تحت انجام دیتے ہیں۔ ہم صبح سویرے بستر سے باہر آتے ہیں اس لئے کہ ہم دفتر سے غیر حاضر ہونا یا اسکول چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ہم اپنے دانتوں کو برش کرتے ہیں اس لئے کہ انہیں اچھی شکل میں رکھنا چاہتے ہیں اور ہمیں بدبودار سانسیں پسند نہیں ہیں۔ ہم ناشتہ کرتے ہیں کیونکہ ہمیں کام کرنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم بھوک محسوس نہیں کرنا چاہتے۔ ہم ایک دوست کو دیکھ کر مسکراتے ہیں کیونکہ ہم اس کے لئے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے مالک کے سامنے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اس لئے کہ ہم ان کے محبوب نظر بننا چاہتے ہیں یا انہیں دیکھ کر ہمیں واقعی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کبھی ہم کسی کے سامنے تلخی کے ساتھ بات کرتے ہیں کیونکہ ہم اس کے ساتھ اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم امتحان کے لئے تیاری کرتے ہیں تاکہ ہم اچھے نمبرات سے امتحان میں کامیاب ہوں تاکہ ہم کسی اچھے کالج میں داخلہ لے سکیں۔ اسی طرح صبح سے رات تک، ہم میں سے ہر ایک شخص مصروفِ عمل ہے، ہر ایک لمحے وہ کسی نہ کسی مقصد کے ساتھ کسی نہ کسی کام میں ضرور مشغول ہے۔ یہاں تک کہ 'کچھ نہیں کرنا'- بستر میں لیٹنا اور چھت کو دیکھنا بھی ایک طرح کا کام ہی ہے اور اس کا بھی ایک خاص مقصد ہے: آرام کرنا اور مزاج میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے چند لمحات کے لئے تمام قسم کی مشغولیات سے دور رہنا۔
لہٰذا ، ہماری روزمرہ کی زندگی کو سرگرمیوں یا مشغولیات کا ایک وسیع ترین مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے جن میں ہم ہر لمحے مشغول رہتے ہیں اور ان سب کا کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوتا ہے۔ ہم ان مقاصد کو 'فوری مقاصد' کا نام دے سکتے ہیں۔ ان بے شمار مشغولیات کے مقاصد کو سمجھنے میں ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ہے جن سے ہماری روز مرہ کی زندگی بھری ہوئی ہے۔ اکثر ہم بعض کاموں میں ان کے مقاصد سے مکمل طور پر واقف ہوتے ہوئے جن میں ہم مشغول ہوتے ہیں۔ اگر کبھی ہم کسی خاص مشغولیت کے مقصد سے واقف نہیں ہوتے ہیں تو چند لمحات غور و فکر کرنے کے بعد ہم اس کے مقصد سے واضح واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔ اور بعض اوقات جب ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس کے مقصد کو سمجھنا ہماری قدرت و استطاعت سے باہر ہوتا ہے تو نفسیاتی مشاورت سے ہم اس کی بنیادی وجوہات سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
لیکن ہماری روزمرہ کی مشغولیات کا ان فوری مقاصد کے علاوہ ہماری زندگی کا اس سے بڑا اور جامع مقصد ہے۔ عام طور پر ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی کی کسی خاص مشغولیت کے مقصد سے آگاہ ہوتے ہیں (مثال کے طور پر، علم حاصل کرنے کے لئے کتاب پڑھتے ہیں یا وہ صرف اپنی دل جوئی کے لئے کتابیں پڑھتے ہیں)، ہم میں سے کچھ لوگوں کو بالعموم انسانی زندگی کے اس عظیم مقصد کا اور بالخصوص اپنی زندگی کے مقصد کا ایک واضح علم ہوتا ہے۔ لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ہماری اس مختصر سی زندگی کا سب سے بڑا مقصد کیا ہے ، خاص طور پر یہ حقیقت ان کے سامنے ہوتی ہے کہ ہمیں ایک دن مرنا ہے (مستقبل کے بارے میں صرف یہی ایک ایسی چیز ہے جس کا ہم پختہ یقین کر سکتے ہیں)۔
انسانی زندگی کے مقصد کا یہ مسئلہ (جو کہ اگر ہماری موت کی ناگزیریت کے تناظر میں دیکھا جائے تو اور بھی واضح ہو جاتا ہے)، یقیناً ہماری زندگی کا ایک سب سے اہم سوال ہے جو ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی کے فوری مقاصد میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہمارا ذہن کبھی اس سوال کی طرف جاتا ہی نہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ، ناگوار اور پرخطر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی زندگی کا حتمی مقصود کے سوال کا کوئی جواب ہی ممکن نہیں لہٰذا اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی زندگی کو فوری مقاصد کے حصول میں ضائع کرتے رہتے ہیں، جس سے بعض اوقات ان کا مقصد صرف خود کو مصروف رکھنا اور اپنی دماغی حالت کو درست رکھنا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
کتنے والدین ہیں جو کبھی اپنے بچوں کے ساتھ زندگی کے اس عظیم مقصد کے معاملے پر گفتگو کرتے ہیں؟ میرے والدین نے تو کبھی نہیں کیا۔ ہمارے کتنے اساتذہ اپنے شاگردوں کے ساتھ زندگی کے اصل مقصد کے بارے میں بات کرتے ہیں؟ میرے اساتذہ نے تو کبھی نہیں کیا- اور میں نے اس ملک اور بیرون ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے نہیں یاد ہے کہ کبھی میرے بڑے بزرگوں نے اس موضوع پر کوئی بات کی ہو –خواہ وہ میرا گھر ہو ، اسکول ہو یا وہ متعدد یونیورسٹیاں ہوں جہاں میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں ان میں سے اکثر لوگوں کا بھی یہی حال ہے – زندگی کے سب سے اہم سوال پر لوگوں کی خاموشی اتنی گہری ہے۔
کسی خاص عمل میں کامیابی کے ساتھ مشغول ہونے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے انسان اس کے مقصد سے آگاہ ہو جس کے لئے وہ کام کر رہا ہے۔ اور جو اس کام کے مقصد سے آگاہ نہ ہو وہ ضرور کام خراب کرتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے حتمی مقصد سے آگاہ نہیں ہیں تو امکان غالب ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اس کے علاوہ مقاصد میں خرچ کر دیں، خود کو ہر اس کام میں مصروف رکھیں جو ہمیں ہمارے حقیقی مقصد سے دور کر دے، اور آخر کار ہماری زندگی کا خاتمہ ناکامی اور نامرادی کے ساتھ ہو جائے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پڑھنے کے بجائے کتاب کا استعمال مچھروں کو بھگانے اور خود کو ہوا لگانے کے لئے کیا جائے۔ لیکن اگر دوسری طرف ہم انسانی زندگی کے اس حتمی مقصد سے آگاہ ہیں جس کے لئے خدا نے ہمیں زمین پر پیدا کیا ہے اور یہاں ایک مختصر مدت گزارنے کے لئے ہمیں بھیجا ہے ، جس کا علم ہمیں صرف مستند مذہبی صحائف سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ، تبھی ہم اس زندگی کو درست طریقے سے گزار سکتے ہیں ، اور اس طرح ہم اپنی زندگی کے امتحان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ، اور صرف یہی ایک ایسا امتحان ہے جو واقعی ہمارے لئے اہم ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/spiritual-meditations/yoginder-s-sikand,-new-age-islam/living-life--but-for-what-purpose?/d/112789
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism