یاور حبیب ڈار
26 دسمبر،2021
جہاں تک ظرافت کی تاریخ
کا سوال ہے تو اس کا سیدھا سادا جواب یہی ہوگاکہ جب سے کائینات کو معرض وجود بخشا
گیا تب سے ظرافت کی نشاندھی کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اگر ادب کے حوالے سے یہ سوال
پوچھا جائے تو اس کا جواب شاید کچھ او رہوگا۔ ظرافت کو چونکہ نثر کا ایک پٹ کہا
جاسکتا ہے او راسی نثری پٹ کا ذہن نشیں کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو نثر
میں ظرافت کے ابتدائی نفوش اردو کے قدیم داستانوں میں ملتے ہیں۔ ظرافت ایک طرح
کاانسانی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ظرافت کا ہمیشہ سے ہی مثبت استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔
کسی عزیز کے روٹھے جانے پر ظرافت کو حیط حوالہ بنا کر منانے کی سعی، کسی مایوس کن
انسان کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لئے یہ ظرافت قابل قدر کام سر انجام دیتا ہے۔
ظرافت کااس قدر شدید استعمال کیا گیا کہ یہ نہ صرف عام زندگی تک محدود رہ گئی بلکہ
ادب میں ظرافت کو ایک خاص مقام حاصل ہوا ہے ۔
اس مقالہ کو معرض وجود
بخشنے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ جس ظرافت کو شاید حقیر سمجھا جاتاہے وہی ظرافت کس
قدر عوام الناس کے ساتھ ساتھ شعراء ادباء اور دیگر فنون میں شدت سے استعمال کیا
جارہا ہے۔ خاص کر غالب اورفراق کی ظرافت نگاری نے میرے ہوش وحواس اُڑائے ہیں۔ظرافت
کو ایک ہلکا پھلکا سامان خوشی متصور کیا جاتا ہے۔ لیکن غالب اور فراق جیسے بھاری
بھرکم شخصیات کی یہاں ظرافت کو ایک عام شئے متصور نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ایک خاص
شے بنا کر پیش کرنے کی ایک کامیاب جسارت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو
بطور اشرف المخلوقات پیدا فرمایا ہے جس میں طرح طرح کے فنون کو ازل سے بھر دیا گیا
ہے او ران میں ظرافت بھی ایک فن ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس ظرافت
نگاری پر کس طرح اپنی چھاپ لگا سکتا ہے ۔ جہاں تک مرزا غالب کاتعلق ہے وہ ہر
اُلجھی ہوئی بات کو سہل کرنے کی کوشش کرتے ہیں او رپھر یہ بات لطیف احساس میں گم
ہوجاتی ہے ۔یعنی ایک کا حز پیدا ہوتا ہے ۔ وہ غلط باتوں پر بھی مسکراتے ہیں۔
حالانکہ غلط بات زیادہ اذیت ناک اور ناگوار گزرتی ہے۔ غالب میں بذلہ سنجی کا چھاپ
قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔ ان کی طبیعت رواں ہے۔ یہ ایک طرح کا کرشمہ تھا
مزاح کی اس خصوصیت کاجسے عام طورپر Sense of Humour سے تعبیر کیاجاتا
ہے۔
لطیفہ: ایک دفعہ جب رمضان
گزرچکا تو قلعے میں گئے ۔ بادشاہ نے پوچھا :’’ مرزا ! تم نے کتنے روزے رکھے ؟‘‘
عرض کیا ’’ پیر مرشد! ایک نہیں رکھا‘‘
غالب کی ظرافت کا راز اس
میں چھپا ہے کہ انہوں نے دوسروں کو کم وکاست ہی نشانہ بنایا کیوں کہ ان کے نزدیک
ظرافت کامثبت ہونا ہی باعث فخر ہوتا ہے۔ غالب تمام عمر اپنے آپ پر ہی ہنستے رہے۔
جس کا انہوں نے جابہ جا اپنی غزلیات میںاظہار کیا ہے۔ غزلیات میں شوخی کا راز حسن
بیان سے مملو ہے ۔ عشق و محبت کی جو تفصیل غالب نے پیش کی ہے اس میں بھی شوخی کار
فرما ہے۔ حالی (ماہر غالبیات) ایک جگہ راقم طراز ہیں۔
’’ مرزا کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستارے میں سر
بھرے ہوتے ہیں‘‘۔
لطیفہ: جاڑے کے موسم میں
ایک دن طوطے کا پنجرہ سامنے رکھا تھا۔ طوطا سردی کے سبب پروں میں منہ چھپا ئے
بیٹھا تھا۔ مرزا نے دیکھ کر کہا: میاں مٹھو ! نہ تمہارے جو رو، نہ بچے تم کس فکر
میں یو ں سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہو ڈاکٹر قمر رئیس ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ غالب کی ظرافت ،بازی گری یا رعایت لفظی نہیں بلکہ زندگی کی
بصیرت ہے۔ ان کامقصد ہنسنا ہنسانایا محفوظ کرنا نہیں بلکہ کچھ کہنا ، بتانااور
زندگی کاکوئی نکتہ سمجھانا بھی ہوتا ہے۔ ظرافت ان کے اندر بیاں میں نہیں انداز فکر
و نظر میں ہوتی ہے‘‘۔
مطلب یہ کہ غالب ظرافت کو
محض دل بہلانے کا فن نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک یہ ایک انداز گفتگو ، تکلم کا
ایک انوکھا طریقہ کار گفتنی ہے جس میں ایک مکمل اور پرُ مغزبات ہوتی ہے ۔ گویا وہ
دونوک الفاظ میں سچ بات کہتے ہیں۔
لطیفہ: دہلی میں رتھ کو
بعض مونث اوربعض مذکر بولتے ہیں ۔ کسی نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ ’’حضرت ! رتھ مونث
ہے یا مذکر؟ آپ نے جواب دیا!
جب رتھ میں عورتیں بیٹھی
ہوں تو مونث کہو اور جب مرد بیٹھیں ہوں تو مذکر سمجھو‘‘۔
یعنی کم الفاظ میں حالی
کا قول صحیح اور صادق ہے کہ غالب کو اگر ’’ حیوان ناظق کے بجائے حیوانِ ظریف کہا
جائے تو بجا ہوگا‘‘۔
ظرافت نگاری کے میدان میں
غالب اور فراق گورکھپوری کو ایک ہی سکے کے دو رخ کہے جاسکتے ہیں ۔یعنی یہاں نہ صرف
ایک کا پایہ ہی بھاری محسوس ہوتاہے کہ بلکہ فراق بھی مرزا کے شانہ بہ شانہ چلتے
دکھائی دیتے ہیں۔
لطیفہ: علی گڑھ کے ایک
مشاعرے میں جب فراق صاحب مائک پر آنے لگے تو لڑکیوں نے نعرہ بلند کیا ٹوپی پہنو
ٹوپی پہنو فراق صاحب تھوڑی دیر خاموش کھڑے رہے ، جب شور تھما تو انہوں نے بہت
سمجھانے کے انداز میں کہا۔
’’میاں ٹوپی داڑھی جاتی ہے اور جوتہ پہنا جاتا ہے ‘‘
لطیفہ: جس زمانے میں فراق
صاحب کانگریس انڈر سکریٹری تھے اور آنند بھون میں ان کا دفتر تھا، ان کو اچھے نئے
کپڑوں کا شوق ہوگیا، انہوں نے ایک قمیض بنوائی جس میں رنگ برنگے بڑے چھوٹے پھول
پتے بنے ہوئے تھے۔ پہلے ہی دن جب وہ اس قمیض کو پہن کر آنند بھون گئے تو جواہر
لال نے ان کو دیکھتے ہی کہا۔
’’اگر کسی جانور نے دیکھ لیا تو آپ کو چر جائے گا‘‘
لطیفہ : کشمیر کے بوٹ
ہاؤس میں جوش کے ساتھ ساغر بھی تھے۔ ان کو دیکھ کر فراق صاحب نے بگڑ کر کہا ۔’’
یہ کون تھے؟‘‘
’’ساغر‘‘۔۔۔۔ خدا کی شان اس کل کے لونڈے کو بھی یہ گمان ہے کہ وہ
شاعر ہے۔
اس سے اچھا شعر تو میرا
بٹلر کہتا ہے۔
لطیفہ: مجاز ایک بار الہٰ
آباد آئے تو فراق صاحب نے ملنے ان کے گھر گئے ۔فراق صاحب اس دن بڑے موڈ میں تھے
ان کو دیکھتے ہی بولے ۔’’ مجاز تم نے کباب بیچنا کب سے چھوڑ دیا‘‘۔ مجاز کب چوکنے
والے تھے برجستہ بولے ۔
’’جب سے آپ نے گوشت سپلائی کرنابند کردیا‘‘۔
26 دسمبر،2021 ، بشکریہ: روز نامہ چٹان ، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism