یاسر پیر زادہ
18جون،2021
تہافتہ الفلاسفہ میں امام
غزالی نے فتویٰ دیا تھا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ عالم قدیم ہے، خدا کو جزئیات کا
علم نہیں اور حشر کے روز معاملہ اجسام سے نہیں ارواح سے پیش آئے گا(حشر اجساد کا
مسئلہ)، وہ تکفیر کا مرتکب ہوگا۔ابن رشد نے جب تہافتہ الفلاسفہ کا جواب لکھنے کا
بیڑا اٹھایا تو ان کے پیش نظر نہ صرف امام غزالی کا علمی وجاہت تھی بلکہ یہ فتویٰ
بھی تھا۔ لیکن ابن رشد نے یہ کام بلاخوف و خطر انجام دیا اور امام غزالی کے بیس
نکات کا ترتیب وار جواب دے کر یہ ’ثابت‘ کیا کہ امام کا یوں کسی پر تکفیر کا الزام
لگانا خود ان کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ابن رشد کی رائے یہ ہے کہ
ان عمیق مسائل میں علما کی تکفیر واجب نہیں اور امام غزالی کی اس تحریر کا حوالہ
دیتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ’فیصل التفرقتہ‘ میں پیش کی ہے جس کے مطابق اس شخص
پر کفر کا اطلاق نہیں ہوسکتا جو وجود کی پانچ سطحوں میں سے کسی ایک سطح کی صداقت
کا اقرار کرلے۔ غزالی کا خیال ہے کہ وجود کے پانچ مراتب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
وجوداتی، حسی، خیالی، عقلی اور شبیہی پانچ مرتبوں کا ہوتا ہے۔ جو شخص رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ان پانچوں طریقوں میں سے کسی طریقہ اعتراف کرلے
وہ رسالت کی تکذیب کرنے والوں میں شامل نہیں ہے۔“(ابن رشد اور ابن خلدون ازڈاکٹر
عبیداللہ فہد فلاحی،صفحہ 164)۔
امام غزالی کی کتاب کا
ردکرتے وقت ابن رشد کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ جس انداز میں غزالی نے فلاسفہ کی
تحقیر کی ہے او رکسی ایک فلسفی کے افکار کا تمام فلاسفہ پر منطبق کرکے شتابی
چھلانگ لگاتے ہوئے علم فلسفہ کی تحقیر کی او رکسی ایک فلسفی کے افکار کو تمام
فلاسفہ پر منطبق کر کے شتابی چھلانگ لگاتے ہوئے علم فلسفہ کو ہی باطل قرار دیا ہے
وہ کسی طور سے قابل قبول نہیں۔غزالی نے زیادہ تر ابن سینا کے افکار میں کمزوریاں
تلاش کرکے ان پر تابڑ توڑ حملے کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ تمام فلاسفہ کے
افکار ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں لہٰذا اس باطل علم کے ذریعے علوم شریعیہ کی
تشریح ممکن نہیں۔ ابن رشد نے جواب میں قرآنی استدلال سے کام لیا اور قرآن کی متعدد
آیات پیش کیں جن میں خدا نے فکر و تدبر کرنے کی دعوت دی ہے اور یوں علم فلسفہ کو
عین خدا کی تعلیمات کے مطابق قرار دیا۔ ابن رشد کہتے ہیں کہ آفاقی اور حتمی سچائی
قرآن میں ہے، ہم اپنے عقل کی بنیاد پر جو علوم حاصل کرتے ہیں وہ قرآن سے متصادم
نہیں ہو سکتے۔ بظاہر اگر کوئی بات ایسی ہو جو قرآن سے متصادم لگے تو وہ محض ظاہری
ہوگی، ایسی صورت میں ہمیں قرآنی آیات کو استعار ے کے طور پر لے کر ان کی تشریح
کرنی چاہئے، او ریہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کیونکہ خدانے ظاہری او رباطنی معانی کی
حامل آیا ت کو ملا کر اپنا کلام نازل کیا ہے تاکہ پڑھنے والے اس پر غور کریں۔ یہاں
ابن رشد ایک اور دلیل بھی دیتے ہیں کہ اگر کسی قرآنی آیت کے معنی کے بارے میں
اجماع امت ہوجائے پھر اس کی کسی مزید تشریح کی گنجائش ہے او رنہ اجازت لیکن جہاں
یہ اجماع امت نہ ہو ا ہو وہاں آیات کی تعداد کم ہے جن پر امت نے اتفاق کرلیا ہو
سولا محالہ باقی آیات کے مطالب و معانی پربحث کی گنجائش موجود رہے گی۔ اس نکتے کو
بنیاد بنا کر ابن رشد کہتے ہیں کہ امام غزالی ان تینوں نکات پر فتویٰ صادر کرنے
میں غلط ہیں کیونکہ یہ تینوں مسائل پر تاحال مسلمانوں کے بحث جاری ہے۔(تاریخ فلسفہ
ازاے سی گریکنگ)۔ یہاں ابن رشد نے اپنی مو قف کی حمایت میں غالباً سورہ آل عمران
کی آیت نمبر 7 سے مدد لی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ ’اس کتاب میں دو طرح کی آیات
ہیں: ایک محکمات،جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسرے متشابہات۔“
عام طور سے سمجھا جاتاہے
کہ ابن رشد نے اپنامقاصد خالص عقلی بنیادوں پر کھڑا کیا جو کہ درست بات ہے مگر
ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ ابن رشد نے اس مقدمے کی بنیاد قرآنی
آیات پر رکھی اور اپنے استدلال کی عمارت ان آیتوں پرکھڑی کی جو علم فلسفہ او رعقل
و شعور کے وظیفہ کا حکم دیتی ہیں۔ یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ اگر امام غزالی
نے بیس میں سے تین نکات پر ہی فلاسفہ کی تکفیر کرنا تھی تو باقی سترہ نکات کی کیا
ضرورت تھی؟
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے
کہ خو دابن رشد کے مطابق دین کی بنیاد تین باتوں پر ہے، وجود باری تعالیٰ، رسالت
اور یوم حشر۔ رسالت کا براہ راست تعلق چونکہ وحی سے ہے لہٰذا اس علاقے میں فلسفہ
اور مذہب ساتھ نہیں چل سکتے تاوقتی کہ عقل ووحی میں باہم کوئی تضاد نہ ہو۔ یہاں
ابن رشد کہتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک اصول کا بھی انکار کرے وہ تکفیر کا
مرتکب مانا جائے۔ ان نکتے پر ابن رشد او رامام غزالی میں کوئی خاص اختلاف دکھائی
نہیں دیتاماسوائے اس بات کے کہ دونوں حکما بعض فلسفیانہ معموں پر اپنی علیحدہ رائے
رکھتے تھے۔ ابن رشد کا تو اس ضمن میں بھی ماننا تھاکہ دقیق فلسفیانہ مسائل کی مبہم
تشریح عوام الناس کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا اس سے اجتناب برتنا چاہئے۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ان مباحث سے نہیں بچاپائے او
رتہافتہ التہافتہ لکھ ماری۔
امام غزالی اور ابن رشد
کے درمیان کا ایک بنیادی نکتہ علت و معلول کے قانون سے متعلق تھا۔ امام غزالی کا
کہنا تھا کہ خدا Cause and Effect جیسے کسی قانون کا پابند نہیں، یہ محض اس کی ’عادت جاریہ‘ ہے جس
میں وہ اپنی مرضی سے تبدیلی بھی کرسکتا (کرتا) ہے اور یہی معجزات کا سبب ہے۔ابن
رشد کا جواب اس ضمن میں یہ ہے کہ ”جو شخص علیت کا انکار کرتاہے اس کو یہ ماننے کی
ضرورت نہیں کہ ہر فعل کسی نہ کسی فاعل سے ہی صادر ہوتاہے باقی یہ بات دوسری ہے کہ
ان سرسری اسباب کو جو ہمارے مشاہدے میں آئے ہیں کافی نہ خیال کیا جائے لیکن اس سے
علیت پر اثر نہیں پڑتا، اصل شبہ یہ ہے کہ چونکہ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جن کے علل
و اسباب کا پتا نہیں چلتا، اس لیے سرے سے علیت ہی کا انکار کیو ں نہ کیا جائے لیکن
یہ ایک بین مغالطہ ہے، ہمارا کام یہ ہے کہ محسوس سے غیر محسوس کو تلاش کریں نہ یہ
کہ غیر محسوس کی وجہ سے خود محسوس کا بھی انکار کردیں۔ علم کی غرض کیاہے؟ صرف یہی
کہ موجودات کے اسباب دریافت کرنا لیکن جب اسباب ہی کا سرے سے انکار کردیا گیا تو
اب باقی کیا رہا! علم منطق کے مطابق ہر مسبب کا ایک سبب ہوتا ہے تو اب اگر علل و
اسباب کا انکار کردیا جائے تو اس کا نتیجہ یا تویہ ہوگا کہ کوئی شے معلوم نہ رے گی
یا یہ کہ کوئی معلوم قطعی نہ رہے گا بلکہ تمام معلومات ظنی ہوجائیں گے تو گویا
’علم قطعی‘ دنیا سے معدم ہو جائے گا“۔ (تہافتہ التہافتہ)۔
ابن رشد کی پیدائش امام
غزالی کی وفات کے بعد ہوئی مگر ان کی کتابیں سامنے رکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ
دونوں حکما ایک ہی وقت میں زندہ تھے۔ ان عظیم فلسفیوں کے درمیان مذہب اور عقل کی
یہ بحث اس قدر دلچسپ ہے کہ بندہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دلائل میں کس کا پلڑابھاری
ہے۔فلسفیوں کے نظریات اس قدر پر پیچ ہوتے ہیں کہ بندہ ان سے اختلاف تو درکنار
اتفاق بھی کر لے تو سو چتا رہ جاتا ہے کہ کہیں میں غلط تو نہیں سمجھا تھا۔ یہ کالم
لکھتے وقت کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا سو ان دو حکما کے افکار کی تعبیر میں اگر
کوئی غلطی ہوگئی ہو تو بندہ پیشگی معذرت چاہتا ہے۔
18جون،2021، بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism