New Age Islam
Thu Dec 12 2024, 11:35 PM

Urdu Section ( 7 Oct 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Silent Majority Is Dead خاموش اکثریت بے جان ہو گئی ہے

 

یعقوب خان بنگش

23 ستمبر، 2013

پاکستان میں جب بھی کوئی دہشت گردانہ  حملہ ہوتا ہے تو مختلف حلقوں کی جانب سے معمول کے مطابق مذمتوں کا ایک دور شروع ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد لوگ ہمیشہ کی طرح اپنے کاروبار میں لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ اسی طرح کا ایک اور حملہ رونما  ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر وہی مناظر سامنے ہوتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ہوتا ہے پھر بھی کچھ نہیں ہوتا ۔ لوگ اس عمل کی  مذمت کرتے ہیں لیکن پھر  بھی دہشت گرد بار بار ہمارے درمیان جگہ پاتے ہیں ۔ لوگوں کو ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا افسوس ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جلد ہی وہ ان سب باتوں کو بھول جاتے ہیں۔ لوگوں کو  جب  حملوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ  افسردہ خاطر ہو جاتے ہیں ، لیکن بریانی کے اگلے دور میں ہی ہم یہ سب بھول جاتے ہیں ۔

' ماہرین ' سے جب بھی دہشت گردی کی اشاعت  اور پاکستان میں اس کے مہلک نظریے کے بارے میں پوچھاجاتا ہے تو وہ اکثر یہ کہتے ہیں، "لیکن اکثریت ، ' خاموش اکثریت ' انہیں مسترد کرتی ہے  " ۔ لیکن اصل خبر یہ ہے کہ  ' خاموش اکثریت ' بے جان ہو چکی ہے۔ ایک طویل وقت سے  ' خاموش اکثریت ' کی اصطلاح کو زندوں کے علاوہ  مردوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ صرف 1970 ء کی نکسن واٹرگیٹ اسکینڈل کے دوران ہی اس نے ' خاموش اکثریت '  کا حوالہ دیا تھا  جس نے اس کی حمایت کی تھی ظاہر ہے وہ بھی مردہ ہی تھے ۔ ہماری آبادی بھی مردہ ہے جودہشت گردی اور اس کے نظریات کی مخالفت کرتی ہے  ۔ ہماری اجتماعی بے حسی اور سردمہری  ہمارے افعال اور اقوال سے زیادہ پرزور آواز بلند کرتی  ہے ۔ اس لعنت نے حالیہ مہینوں میں ہمارے بے شمار فوجیوں اور شہریوں کی جان لے لی ہے  گزشتہ دہائی یا اس سے زیادہ  کی تو بات ہی چھوڑ دیں، اور ہم اب بھی صرف  بات چیت کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم یہ سوچنے کے لئے ضرور مردہ ہوں گے ۔

اس لعنت کے مضبوط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک اس مصیبت کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اس لعنت سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہے ہیں ۔ ذرا تصور کریں صرف چند ہفتوں  پہلے  کنٹرول لائن پر فائرنگ نے بنیادی طور پر میڈیا کی ایماء پر ، ہندوستان کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کر دیا تھا  لیکن کبھی بھی  طالبان کے خلاف ایسا کوئی ماحول نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ 1947 کے بعد سے ہندوستان نے بہت کم لوگوں کو  مارا ہے ، لیکن ہم ابھی تک ہندوستان  کو اپنا اصل دشمن سمجھتے  ہیں اور ان کے تئیں سختی سے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ عملی طور پر طالبان نے ایک دہائی سے زیادہ تک پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا اور ہماری زندگی کے لئے  سب سے بڑا خطرہ ہیں، لیکن ہم اب بھی اپنی  فوج کے زیادہ تر حصے کو ہندوستانی سرحد پر  ہی تعینات  کرتے ہیں ۔ لہٰذا اگر طالبان کو ہی حقیقی دشمن سمجھا جاتا تو ہم ان کے ساتھ اسی طرح پیش آتے اور انہیں ختم کرنے کا اپنا عز م اور   حوصلہ دکھاتے ۔

طالبان کے تئیں ہماری بے پرواہی  کے وجوہات میں سے  ایک یہ ہے  کہ ہمارا  ملک تیزی کے ساتھ  متعصب اور  عدم روادار  ہوتا جا رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ  ہمارے ملک کی ایک بڑی اکثریت انتہائی متشدد اور متعصب ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی نئی نہیں ہے۔ ابتدائی جدید یورپ میں مذہب کی وجہ سے خون میں  نہانے سے لیکر  برطانوی ہندوستان  میں ' فرقہ وارانہ فسادات ' تک مذہبی متشددین  صدیوں سے  پائے گئے ہیں ، قوموں کو متشددین سے نمٹنا پڑا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جدت پسند بننے کی ایک  نشانی یہ ہے کہ لوگوں نے صرف مذہب کی وجہ سے قتل نہیں کرنا سیکھا ۔ مغرب کو اسے اپنانے میں سینکڑوں برس لگے  اور امید ہے کہ ایک بڑی حد تک اسے حاصل بھی کر لیا ہے ۔ ظاہر ہے جنوبی ایشیا کو ابھی  یہ سنگ میل حاصل کرنا باقی ہے۔ دراصل پاکستان میں ہم تیزی کے ساتھ سمت مخالف میں جا رہے ہیں۔ ہمارے تعصب اور عدم رواداری کی اتنی ساری مثالیں موجود ہیں کہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں، میں جو کہہ سکتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ ہم عدم رواداری کو  برداشت کرتے ہیں  !

کئی سال پہلے میں پرانے  پشاور سے گزر  رہا تھا  تبھی اتفاق سے ایک خوبصورت سفید مسجد کے پاس جا کر رکا  جس کے باہر  فارسی میں کندہ کاری کی گئی تھی ۔ قریب ترین معائنہ کرنے پر میں نے یہ پایا کہ وہ مسجد نہیں بلکہ مسجد کے انداز میں وہ ایک چرچ تھا ۔ معماروں نے اسے اور  زیادہ مقامی نقش و نگار دینے کے لئے اس کے باہری حصے کو پشتو اور فارسی آیات کے ساتھ سجا دیا تھا ۔ میں نے پورے چرچ کا معائنہ کیا  اور اتنی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ کی گئی اس کی تعمیر  سے حیرت زدہ تھا  جو اس دور کی عیسائیت سے منسلک تھا ، اور اکثر جنوبی ایشیا کے گرجا گھروں کا معائنہ کرنے میں جو غیر ملکی احساس پیدا ہوتا ہے وہ ختم ہو گیا ۔ یہ سن کر بڑی تکلیف ہوئی کہ دہشت گردوں نے اتوار کو اس چرچ پر حملہ کر دیا ۔ یہ چرچ پشتون ثقافت کا  عیسائی مذہب میں اور آنے والوں کے ذریعہ  مقامی ثقافت کو تسلیم کرنے واوں کا استقبال کرتا تھا جس ربط کو   دہشت گردوں نے واضح طور پر پارہ پارہ کرنا چاہا ۔

1883 میں، اس چرچ کو  'تمام سنتوں ' کے لئے وقف کر دیا گیا تھا، لیکن  اب اس خونی اتوار کو یہ سفید چرچ یقینا ان نئے شہید سنتوں کے خون سے نہا گیا ۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ نیو ایج اسلام)

یعقوب خان بنگش فورمین کرسچین کالج میں  شعبہ تاریخ کی چیئرپرسن ہیں

ماخذ: http://tribune.com.pk/story/608128/the-silent-majority-is-dead

URL for English article:

https://newageislam.com/islam-sectarianism/the-silent-majority-dead/d/13651

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-silent-majority-dead-/d/13881

 

Loading..

Loading..