یامین انصاری
20 نومبر، 2013
مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ یہ برا المیہ رہا ہے کہ وہ اپنے وجود میں آنے کے بعد سے آج تک داخلی اور خارجی محاذ پر مستحکم نہیں ہو پایا ہے ۔ اسے پاکستان کی بد قسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج تک وہاں نہ تو جمہوریت کی بالادستی قائم ہوسکی اور نہ ہی سماجی اور سیاسی محاذ پر وہ اپنی کوئی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوسکا داخلی انتشار نے کبھی اس ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا ۔ کبھی وہاں حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے ہوتے ہیں تو کبھی فوج اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کی خبریں آتی ہیں ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے تو پاکستان کا شیرازہ ہی بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان میں اب فرقہ وارانہ منافرت کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہوتی جارہی ہیں کہ حالات قابو سے باہر ہورہے ہیں ۔ مسلکی اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کے دہانے پر جارہے پاکستان میں اس وقت حالات انتہائی دھماکہ خیز ہیں ۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہوگا ، جب دھماکے ، خود کش حملے ، ٹارگیٹ کلنگ او رمسلکی تشدد کی خبریں پاکستانی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سرخیاں نہ بنتی ہوں۔ سوشل میڈیا میں بھی خود وہ پاکستانی شہری ، جو امن پسند ہیں او راپنے ملک میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے خواہاں ہیں ، اور انتہائی احساس ندامت او رملامت کا شکار ہیں ۔
مہذب اور امن پسند پاکستانی شہری حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ آخر انہوں نے ایک منتخب حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ آخر انہوں نے ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار سونپا ۔ انہیں امید تھی کہ بھرپور اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے والے نواز شریف ملک میں امن و سکون کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کریں گے ۔ انتہا پسند وں اور معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت اقدام کریں گے، جس سے کہ یہ طاقتیں سرنہ اٹھا سکیں ۔ لیکن اب یہ لوگ مایوسی کا شکار ہیں ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل نیٹو کنگ سائٹ ٹوئٹر پر سرگرم پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف سے ان کے کچھ مداح بڑے مایوسی بھرے انداز میں سوال کررہے ہیں کہ ‘‘ کیا ہم نے اسی دن کے لئے پاکستان مسلم لیگ کی حمایت کی تھی ۔’’ مریم کے پاس اس طرح کے سوالات کا جواب نہیں ہے ۔دراصل عوام میں یہ مایوسی اور ناراضگی راولپنڈی اور لاہور وغیرہ میں یوم عاشورہ کے موقع پر پیش آنے والے نا خوشگوار واقعات کے بعد پیدا ہوئی ہے ۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود راولپنڈی اور دوسرے مقامات پر مسلکی اور فرقہ پرستی کے خطوط پر بانٹنے والی طاقتیں کافی حد تک کامیاب ہوگئیں ۔ جلوس اور مجالس کے دوران ہوئے پر تشدد واقعات میں متعدد جانیں تلف ہوگئیں ۔ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا او رپورے ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا ۔
اس وقت وزیر ستان سے لے کر لاہور تک ، کوئٹہ سے لے کر راولپنڈی اور کراچی تک پاکستان کا اکثر حصہ دہشت گردی ، فرقہ وارانہ تشد د اور قتل و غارت گری کاشکار ہے ۔ دھماکے، خود کش حملے، خونریزی پاکستانیوں کا مقدر بنتے جارہے ہیں ۔ جگہ جگہ ہونے والے دہشت گردانہ واقعات اور بالخصوص مختلف شہروں میں پھیل رہی مسلکی آگ نے ہر خاص و عام پاکستانی کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے ۔ دراصل 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی دہشت گردی مخالف نام نہاد جنگ میں پاکستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کا اہم حلیف رہا ہے ۔ لیکن اس جنگ میں جس طرح امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کو مختلف وجوہ کی بنیاد پر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے، ٹھیک اسی طرح پاکستان کو بھی داخلی سطح پرکوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جڑیں اس قدر مضبوط ہوچکی ہیں کہ انہیں اکھاڑ نا آسان کام نہیں ہے۔
پچھلے دنوں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا ۔حکیم اللہ محسود پرلاتعداد دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے کے علاوہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں شامل ہونے کا بھی الزام تھا ۔ یعنی قتل و غارتگری کا دوسرا نام بن چکا تھا حکیم اللہ محسود ، لیکن اس کی ہلاکت کے بعد پاکستان سے جس طرح کے ردّ عمل سامنے آئے ، وہ حیران کردینے کے علاوہ افسوسناک بھی تھے ۔پاکستان کی کچھ مذہبی تنظیموں نے تو اس کی ہلاکت کی مذمت کی ہی ، وزیر اعظم نواز شریف نے بھی بیان دیا کہ حکیم اللہ کی ہلاکت سے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو دھچکہ پہنچا ہے۔ ادھر مذہبی تنظیموں کی جانب سے جو ردّ عمل سامنے آئے ، ان سے پاکستان میں ایک نئی بحث ہی شروع ہوگئی ۔
کوئی دہشت گرد تنظیم کے سرغنہ کو شہید قرار دے رہاتھا تو کوئی اسے قومی ہیرو کی طرح پیش کررہا تھا ،بات یہاں تک پہنچی کہ فوج کو بھی اس میں مداخلت کرنی پڑی ۔ دراصل حکیم اللہ کو پاکستان کی کچھ بڑی مذہبی تنظیموں نے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کے سبب شہید کا درجہ دیا، لیکن حکیم اللہ اور اس کی تنظیم کو پاکستانی فوج او رمتعدد سیکورٹی اہلکار وں کے قتل کا ذمہ دار مانا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود مذہبی تنظیمیں اسے شہید کا درجہ دینے پر بضد ہیں ۔ اس طرح انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ مملکت خداداد میں حالات کس قدر سنگین ہوچکے ہیں ۔ ملک کی اہم شخصیات اور فوجی جوانوں کے قتل کے ذمہ دار شخص کو آخر کس منہ سے قومی ہیرو کا درجہ دینے پر بضد ہیں ، جن سیکورٹی اہلکاروں اور عام لوگوں کی جانیں دہشت گردی نے لی ہیں ، آخر ان کے لیے کسے ذمہ دار مانا جائے ۔ حکومت اور سرکاری اداروں کے خلاف بر سر پیکار مختلف دہشت گردانہ حملوں میں 2001 کے بعد سے اب تک 12 برسوں کے دوران تقریباً دو ہزار پولیس افسر او راہلکار ہلاک ہوئے ۔ ان حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ہوئی ہیں ۔ یہ تمام پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران ہونے والے حملوں ، بم دھماکوں اور ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنے ۔ اس کے علاوہ لا تعداد دہشت گردانہ حملوں میں مخصوص فرقوں اور جماعتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ، کسی نے دہشت گردی اور انتہا پسند کے خلاف آواز بلند کی تو اسے بھی خاموش کردیا گیا ۔
مذہبی جلسوں ، اجتماعات اور مخصوص فرقوں کے جلوسوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انہیں خوفزدہ کیا گیا ۔ آخر یہ ملک کس سمت جارہا ہے ۔ کیا ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا یہی مقصد تھا ؟ اگر نہیں تو پھر کیسے اس بات پر یقین کیا جائے کہ یہاں محرم کے جلوس بندوقوں کے سائے میں بھی بحفاظت نہیں نکل سکتے ، کیسے اس بات کو مانا جائے کہ بارہ ربیع الاول یا عید میلاد النبی کی تقریبات اور اجتماعات فوج اور سیکورٹی اہلکار وں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتیں ۔ تو آخر یہ ملک ترقی اور خوشحالی کی بات کس منہ سے کرسکتا ہے ۔ پاکستان میں مذہبی منافرت، مذہبی جنون اور فرقہ واریت کے عفریت کو فروغ دینے میں اس ملک کی کچھ حد تک سرکاری پالیسیاں بھی ذمہ دار رہی ہیں ۔اگر واقعی حکومت پاکستان انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور عوام کے تحفظ کی خاطر فرقہ پرستی اور انتہا پسندی پھیلانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے اور اس معاملے میں کسی کے مفادات اور مصلحت کو آڑے نہ آنے دے۔ ورنہ مذہبی منافرت پھیلانے والی یہ تنظیمیں اس مملکت خداداد کو پوری طرح کھوکھلا کر کے رکھ دیں گی۔
20 نومبر، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/ever-increasing-religious-hatred-pakistan/d/34506