وسعت اللہ خان
13 جنوری، 2015
آپ لاکھ وضاحتیں کرتے پھریں یا دل میں سوچتے پھریں یا لا تعلقانہ رویہ اختیار کریں یا بات بات بدلنے کی کوشش کریں کہ چارلی ہیبڈو کے گیارہ صحافی اور کارکنوں کی ہلاکت کا ایک اشتعال انگیز پس منظر ہے۔ یہ بات چند یا ہزار یا لاکھ یا کروڑ مسلمانوں کی سمجھ میں تو آجائے گی مگر اس دنیا میں 75 فی صد غیر مسلم بھی تو ہیں۔ ان میں سے کتنوں کو پکڑ پکڑ کے سمجھائیں گے کہ ایکچولی بات یہ ہے کہ۔۔
ہاں ڈنمارک کے ایک اخبار نے ایسے کارٹوں چھاپے جو کسی بھی مسلمان کے لیے اشتعال انگیز ہیں۔ ہاں چارلی ہیبڈو میں بھی ایسے اشتعال انگیز کارٹون چھپتے رہے ہیں۔ ہاں ایک جرمن اخبار نے بھی ایسا ہی کیا۔ ہاں مغرب میں کوئی بھی ماجھا سا جھا روزنامہ اٹھ کے کوئی نہ کوئی توہین آمیز حرکت کر دیتا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ رہے گا۔
تو اسکا حل کیا ہے۔؟ جو بھی ایس حرکت کرے اسے مار دیں؟ تو کیا آپ کسی غیر مسلم سے بھی مقدس اسلامی شخصیات کے اتنے ہی احترام کی توقع رکھتے ہیں جتنا احترام ایک مسلمان کرتا ہے؟ اور اگر کوئی غیر مسلم یہ نہ کرے تو اسے بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ایک مرتد کے لئے ہے؟
یہی درست رویہ ہے تو پھر میں نبیﷺ کی سنت کہاں رکھوں؟ جن مشرکوں نے آپ ﷺ پر مکہ کی گلیوں میں آوازیں کسیں وہ کیسے زندہ بچ گئے؟ جو عورت آپ پر گلی سے گذرتے ہوئے باقاعدگی سے کوڑا پھینکتی تھی اس کا کیا بنا؟ (آپ تو اس کی عیادت کو بھی جاتے رہے۔ کیوں؟) جنہوں نے آپﷺ پر طائف میں سنگ باری کر کےلہو لہان کر دیا اور اس توہین رسالت پر تو خدا بھی کہے بغیر نہ رہ سکا کہ کہیے تو ان ظالموں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں۔؟ تو پھر کیا دعا کی آپ ﷺ نے ؟ کیا آپ میں سے کوئی ہے جنہیں یو واقعات گھٹی میں نہ پلائے گئے؟ کسی کلاس میں نہ پڑھائے گئے، کسی نمازِ جمعہ سے پہلے لاکھوں بار نہ دھرائے گئے؟ تو کیا سبق لیا سنت نبوی ﷺ پر مر مٹنے والوں نے ان مثالوں سے؟
مگر وہ تو بنی ﷺ تھے اس لئے ان کا صبر بھی نبیوں والا تھا۔ ہم تو انکی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں۔ ہم میں اتنا صبر کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ ہماری غیرت کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ کوئی نبی کی توہین کرے اور ہم بیٹھے رہیں۔ اگر اس جواز کو من و عن قبول کر لیا جائے تو پھر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ مکہ میں آپﷺ پر آوازے کسنے والوں کو اگر آپ ﷺ کے سامنے نہیں تو آپ ﷺ کے وصال کے بعد ہی کوئی صحابی یا خلیفہ راشد چن چن کے مار دیتا۔ کوئی اس غلاظت پھینکنے والی بڑھیا کی قبر کھود ڈالتا، کوئی لشکر طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا بھلے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کیا جوش کی کمی تھی؟ کیا رسول اللہ ﷺ کی ذات سے صحابہ و تابعین کی محبت آج کے مسلمان کی محبت سے کم تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ سوچ کے غصہ پی لیا کہ کہیں ہم سے جانے انجانے سنت نبویﷺ کی توہین نہ ہو جائے؟
مگر یہ مٹھی بھر گمراہ لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ اکثریت کا ان کے افعال سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حالانکہ یہ بات بالکل درست ہے مگر یہ بات اس دنیا کی غیر مسلم اکثریت کو آخر ہضم کیوں نہیں ہوتی۔ اور جو آپ کی یہ وضاحت تسلیم بھی کر لیتے ہیں وہ پھر کیوں کہتے ہیں کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن اکثر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں؟ اور مسلمانوں کی اکثریت ان مٹھی بھروں کے سامنے اتنی بے بس کیوں؟آپ اپنا دین مسخ کرنے والوں کے خلاف ہر ممکن مزاحمت کیوں نہیں کرتے؟ انہیں دائرہِ اسلام سے باضابطہ خارج کیوں نہیں کر دیتے؟ (حالانکہ وہ تو آپ کو کب کا دائرہِ اسلام سے خارج کر چکے ہیں) ۔ پیرس میں تو صرف سترہ افراد کی ہلاکت کےخلاف 30 لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مسلمان ملکوں میں تو سینکڑوں ہزار لوگ مسلمان ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے۔ خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔ کیا کبھی انکے خلاف کسی مسلمان ملک کے کسی شہر مین کسی روز ایک لاکھ لوگ بھی سڑکوں پر نکلے؟ انہیں پناہ دینے والے کیا غیر مسلم ہیں؟ ان سے سمجھوتے کرنے والے کیا خود کو مسلمان نہیں کہتے؟ ان کی اعلانیہ یاد بے لفظوں میں حمایت کرنے والے یا دل میں نرم گوشہ رکھنے والے کیا مسلمان نہیں کہلاتے؟
اگر کوئی ہندو ، عیسائی یا یہودی دہشت گردی کرتے تو کوئی نہیں کہتا کہ یہ مذہبی دہشت گرد ہیں بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ انکا انفرادی فعل ہے۔ لیکن مسلمان نام سنتے ہی گھنٹیاں بج جاتی ہیں دیکھ دیکھ یہ مسلمان ہے۔ یہ اسلامی دہشت گرد ہے۔
ہاں یہی ہو رہا ہے۔ مگر یہ تاثر کیوں بنا؟ نائن الیون کے بعد سے بالخصوص القاعدہ کے سبب دہشت گردی انٹرنیشنلائز ہو گئی، اس لئے یہ تاثر بنا۔ ہاں ہندو دہشت گرد بھی ہیں مگر اب تک کوئی ہندو دہشت گرد مغرب چھوڑ پاکستان میں بھی نہیں پھٹا البتہ بھارت میں ضرور ہندو دہشت گرد پکڑے گئے۔ یہودیوں کی انفرادی دہشت گردی فی الحال اسرائیل اور فلسطین تک محدود ہے۔ اب تک کوئی یہودی دہشت گرد سعودی عرب میں نہیں پکڑا گیا۔ امریکی کرسچن ٹورنٹو میں نہیں اوکلا ہوما میں بم پھاڑ رہا ہے اور سویڈش کرسچن سڈنی میں نہیں سٹاک ہوم کے قریب ایک جزیرے میں ستر لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ کسی ہندو، یہودی اور کرسچن دہشت گرد نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ وہ پوری دنیا کو ہندو، یہودی اور کرسچن بنا کے دم لے گا۔ اگر غیر مسلم دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ سب اسلام کے نام پر ہو رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ازبک اشک آباد کے بجائے اسلام آباد میں پھٹ رہا ہے، الجزائری بغداد میں۔ سعودی نیو یارک میں طیارہ ٹکرا رہا ہے، مراکشی میڈرڈ میں ٹرین اڑا رہا ہے، افغانی شام میں لڑ رہا ہے۔ پاکستانی ممبئی میں فائرنگ کر رہے ہے، بریڈ فورڈ کا نوجوان لندن ٹیون اسٹیشن میں بھی دھماکے کر رہا ہے اور داعش کی طرف سے عراق میں یزیدیوں کو بھی یرغمال بنا رہا ہے۔
جس زمانے میں فلسطینی طیارے اغوا کر رہے تھے، کسی نے کہا کہ یہ مسلمان دہشت گردی ہے۔
آج بھی فلسطینی اسرائیل کی نظر میں مسلمان نہیں فلسطینی دہشت گرد ہیں۔ جب الجزائری فرانس سے لڑ رہے تھے تو انہیں مسلمان دہشت گرد کیوں نہیں کہا گیا، الجزائری حریت پسند کیوں کہتے تھے۔ کشمیر میں لڑنے والے بھارت کے نزدیک بھلے دہشت گرد ہوں لیکن کیا باقی دنیا حریت کانفرنس یا سید علی گیلانی کو اسلامی دہشت گرد کہتی ہے؟ پیرس میں مسلمان دہشت گرد احمد کو لیبائی نے مسلمان پولیس افسر احمد میرابت کو فٹ پاتھ پر مارا۔ کوشر مارکیٹ کے ایک مسلمان ملازم لسان بیتھلی نے یہودی گاہکوں کو کولڈ سٹوریج میں بند کر کے بچایا ۔ پیرس کے مظاہرے میں ان دو مسلمان ہیروز کی تصاویر بھی بیسیوں مظاہرین کے ہاتھوں میں تھیں۔ کیوں تھیں؟
مسلمانوں میں انتہا پسندی اس لئے بڑھ رہی ہے کہ مغرب نے انکے ساتھ شدید تاریخی و اقتصادی ناانصافی کی ہے۔
اگر یہ دلیل ہے تو پھر تو تمام سیاہ فام افریقہ کو بندوقیں لے کے مغرب پر چڑھ دوڑنا چاہیے۔ ان سے زیادہ سیاسی، اقتصادی و جغرافیائی و تاریخی ناانصافی تو کبھی کسی کے ساتھ نہ ہوئی ہے۔ مگر سوائے بوکو حرام اور صومالیہ کے الشہاب کے سب نے بے غیرتی کا کیپسول کھا رکھا ہے۔ پورے لاطینی امریکہ کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کو دھماکوں سے ہلا دینا چاہئے کیونکہ واشنگٹن سے زیادہ کس نے لاطینی امریکہ کا لہو چوسا ہے۔ سینکڑوں بوسنیائی مسلمانوں کو سینے پر بم باندھ کے روس میں ادھم مچا دینا چاہیے۔ کیونکہ سرب قاتلوں کا سب سے بڑا پشتیبان یہ مردود روس ہی تو رہا ہے اور سب چیچنیائی مسلمانوں کو بھی یہی کہنا چاہیے۔
اور جب جب مواقع آتے ہیں خود کو دہشت گردی سے الگ دکھانے کے تو انہیں بے حسی یا بے دردی میں ضائع کر دیا جاتا ہے ۔ مثلا پیرس میں اردن کے شاہ عبداللہ ، فلسطین، مالی ، گیبون، نائجیریا کے صدور اور امیر قطر کے بھائی کی عالمی یکجہتی مظاہرے میں موجودگی اتنی ضروری نہیں تھی جتنی کہ افغان صدر اشرف غنی، عراقی وزیرِ اعظم حیدر العبادی اور پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کی تھی۔ مگر کون سمجھائے، کسے سمجھائے اور کیسے۔
13 جنوری، 205 بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/but-teach-whom-/d/101018