خواجہ عبدالمنتقم
30اپریل،2025
دیگر مذاہب کی طرح اسلام بھی امن وسکون اور صلح وآشتی کا پیغام دیتاہے۔ ہم سب جانتے ہیں اور اس بات کو بار بار دوہرایا بھی جاتاہے کہ اسلام وہ مذہب ہے جو ایک انسان کے قاتل کو پوری انسانیت کا قاتل قرار دیتاہے اور ساتھ یہ بھی کہتاہے کہ جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات اور احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں بھی دیگر مذاہب کی طرح تشدد یا دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں خطبہ حجۃ الوداع میں حضور اکرم کا یہ پیغام بھی واضح ہے ”میں تم کو آگاہ کرتا ہوں: ”مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں“۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کا کہناہے کہ دہشت گردی کی ابتدا مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی۔
اس قسم کی بات کرنے والوں کو تین زمروں میں بانٹا جاسکتاہے۔پہلے زمرے میں وہ لوگ آتے ہیں جو نادان ہیں اور سنی سنائی بات پریقین کرلیتے ہیں۔ دوسرے زمرے میں ہولوگ آتے ہیں جو متعصب ہونے کے باعث اس قسم کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں نے قرآن کریم کی 26 /آیتوں کو اس بنیاد پر قرآن سے نکالنے کا حکم صادر کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے روبرو مفادعامہ کی عرضی (PIL) دی تھی کہ بقول عرضی گزار، اسلامی دہشت گردی اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو صحیح ٹھہرانے کے لئے ان آیات کو بنیاد بناتے ہیں او راپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو صحیح مانتے ہیں۔سپریم کورٹ نے اس عرضی کو قطعی بے ہودہ (Frivolous absolutely) قرار دیتے ہوئے خارج کردیا تھا اورعرضی گذار کی سرزنش کرتے ہوئے اس پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کردیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مفاد عامہ کے نام نہاد ٹھیکداروں کے لئے نہ صرف صدمہ رساں تھا ہے، بلکہ آئندہ کے لئے ایک سبق بھی لیکن ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تیسرے وہ لوگ ہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان نہ تو دہشت گرد ہوتے ہیں اور نہ ان کا مذہب دہشت گردی کی اجازت دیتا ہے،تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، یعنی جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نومبر /دسمبر 1934 میں اقوام متحدہ کے پیش رو ادارے لیگ آف نیشنز میں پہلی بار عالمی پیمانے پر ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں بحث ہوئی تھی (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے۔League of Nations Council Debate on International Terrorism, November-December 1934. Speech of M. Laval quoted in R.A. Friedlander, Terrorism-Documents of International and Local Control referred to as Friedlander, vol.1,(1979),P-217) جس کا مضمون نگار نے اپنی کتاب ”To Terrorism Islam's Big No ' یہ وضاحت کرتے ہوئے حوالہ دیا ہے کہ 1934 میں سرزمین فرانس میں یوگو سلاویہ کے بادشاہ، اور فرانس کے وزیر خارجہ،جو دونوں عیسائی مذہب کے پیرو تھے،کے قتل میں کچھ بیرونی طاقتوں جن کا تعلق بھی اسی مذہب سے تھا، کا ہاتھ تھا اوراسی کے نتیجہ میں لیگ آف نیشنز نے 1937 ء میں دہشت گردی سے متعلق Convention for the Prevention and Punishment of Terrorism کے نام سے موسوم ایک کنوینشن کا انعقاد کیا تھا۔ لیگ آف نیشنز میں منعقد اس کانفرنس میں گندر کی (اتر پردیش) سے تعلق رکھنے والے رضا نے 1934ء میں دہشت گردی سے متعلق کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی تھی۔
مگر اس دن ہمیں حیرت ہوئی جب ایک مقبول عام ٹی وی چینل پرایک نام نہاد اہل دانش نے یہ فرمایا کہ دنیا میں دہشت گردی کی شروعات مذہب اسلام کے ماننے والوں نے کی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی معتبر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے محض قیاس آرائی کی بنیاد پر سماج میں انتشار پیداکرتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا انہیں یہ نہیں معلوم کہ غلط کام کرنے والا کسی بھی مذہب کا ہوسکتاہے اور اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہوسکتاہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اندراگاندھی کا قاتل ایک سکھ تھا۔کیا ہم صرف اس بنیاد پر سکھ مذہب کو دہشت گردوں کامذہب قرار دے سکتے ہیں؟ انور سادات کا قاتل یقینی طو ر پر ایک مسلمان تھا۔کیا ہم صرف اس بنیاد پر مسلمان مذہب کودہشت گردوں کامذہب قرار دے سکتے ہیں؟ ہمارے پیارے باپو موہن چندکرم چند گاندھی کا قاتل ہندومذہب کا پیروہی توتھا۔کیا ہم صرف اس بنیاد پر ہندومذہب کو دہشت گردوں کامذہب قرار دے سکتے ہیں؟ ایسی صورت میں کسی بھی مذہب کو دہشت گردی سے منسوب کرنا دماغی اختراع کے سوا کچھ بھی نہیں۔آج ساری دنیا کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا جارہاہے کہ مذہب اسلام کے پیرودہشت گردی کی جانب مائل ہیں۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ آج صرف چند لوگوں کی غلطیوں اور کچھ لوگوں کی غلط سوچ نے ہمارے جیسے پرامن مذہب دہشت گردوں اور ظالموں کا مذہب ہو حالانکہ،جیساکہ ہم نے اوپر قلمبند کیا، ہمارا مذہب تو امن و سکون اور صلح وآشتی کا پیغام دیتاہے۔کیا کوئی یہ بتائے گا کہ کبھی ہندوستانی مسلمانوں نے دہشت گردی کی حمایت میں ایک لفظ بھی کہا ہو او رانہوں نے دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت نہ کی ہو۔کشمیر میں جن بے گناہ سیاحوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا کیا اس پورے ملک میں تمام مذاہب کے ماننے والوں نے ملک کے چپے چپے میں آنسو نہیں بہائے؟ ہمارے وزیراعظم نے بھی 140/کروڑ ہندوستانی شہریوں کے جذبہ اتحاد جن جذباتی الفاظ میں کی ان سے پورے ملک میں مثبت پیغام گیا ہے۔آج حکومت اور اس کی اس ضمن میں تیار کی جانے والی حکمت عملی کو چہار جانب سے حمایت حاصل ہورہی ہے، مگر یاد رہے کہ حکومت عجلت میں جذباتی فیصلے نہیں لیتی۔ وہ ایسا ہر معاملے کے سیاسی، سفارتی، دفاعی، اور اخلاقی پہلوؤں اوربین الاقوامی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر امر پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے، جس سے اسے بعد میں ہزیمت نہ ہو اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث افراد او ران کے آقاؤں کو پوری پوری سزا ملے او رجو کوئی ملک کے اقتدار اعلیٰ، سالمیت و اتحاد کے لیے خطرناک سرگرمیوں، تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردانہ افعال میں ملوث ہو اورحکومت و ملک مخالف سرگرمیوں میں حصہ لے یا ان کی ترغیب د ے اسے ’بھارتیہ نیائے سنہتا‘ کے تحت سخت سے سخت سزا ملے۔اب واحد راستہ، جسے اگر صراط مستقیم کا نام دیاجائے تو غلط نہ ہوگا، وہ یہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان سچے دوست بن کررہیں، مگر جب تک بے گناہ شہریوں کی اس طریقے سے بے دردی کے ساتھ مذہب کے بنیاد پر جان لی جائے تو دوستی کیسے ہو!۔لڑنا سب سے آسان کام ہے، لیکن اس کے سبب پیدا ہونے والی بدگمانی کو ختم کرنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/when-terrorism-begin/d/135400
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism