سلطان شاہین، بانی و ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
18 اپریل 2025
پالیس ڈیس نیشنز، جنیوا: 6 مارچ 2025
پیلس ڈیس نیشنز، جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی، موجودہ 58 ویں اجلاس کے دوران، ایک ضمنی تقریب میں شرکت سے، تقریباً 40 سال قبل کی محصور اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے پورے ایک ملک کے دورے کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ، ایک آزاد نامہ نگار کے طور پر، میں الجزائر کی ایک فوجی چوکی تیندوف گیا ہوا تھا، جہاں میں نے مغربی صحارا کے لوگوں کو کیمپوں میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے دیکھا، جو روزمرہ کی ضروریات زندگی سے بھی محروم تھے۔ اُس سال، مغربی صحارا کی ایک مزاحمتی تنظیم، پولیساریو (پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف ساگویا الحمرا اور ریو ڈی اورو (پولیساریو)، جو اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ ہے، اپنی مسلح جدوجہد کی 10ویں سالگرہ منا رہی تھی۔
میں نے 1984 میں ان کیمپوں میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کو دیکھا، کیونکہ مرد یا تو مراکش اور موریطانیہ کے قبضے کے خلاف جنگ میں شہید ہو چکے تھے، یا 1975 میں اسپین کی کالونی سے الگ ہونے کے بعد سرحدوں پر لڑ رہے تھے۔
میں مغربی صحارا کے لوگوں کی بہادری، دوستی اور مہمان نوازی سے کافی متاثر ہوا۔ تب دس سال جلاوطنی میں رہتے ہوئے، میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کے عزم میں ذرا بھی کمزور نہیں پڑے ہیں۔ لیکن میں ان کے مستقبل کے منصوبوں، کامیابی کے عزم اور ارادوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس کی مثال ایک چیز سے کافی آسانی سے دی جا سکتی ہے، جو میں نے وہاں دیکھی تھی۔ وہاں جس چیز کی سب سے زیادہ قلت تھی وہ پانی تھا، یہاں تک کہ وضو یا بیت الخلا کے لیے بھی انہیں پانی دستیاب نہیں تھا۔ لیکن کیمپوں کی سیر کرتے ہوئے میں میٹھے اور شفاف پانی سے بھری ایک جھیل کے پاس پہنچا۔ حیرانی کے عالم میں، میں نے اپنے گائیڈ سے پوچھا، کہ جب پانی کی اتنی قلت ہے تو آپ لوگ اس کا انتظام کیسے اور کیوں کرتے ہیں۔ ان کا جواب مجھے چونکا دینے والا تھا۔ مجھے آج بھی احترام کا وہ احساس یاد ہے، جو میں نے خود ارادیت اور آزادی کے حصول کے لیے ان کے عزم، ان کے تخیل اور مستقبل پر ان کے یقین کے لیے، محسوس کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ آزاد ہوں گے، انھیں بحیرہ روم کے ایک وسیع ساحل کا انتظام و انصرام دیکھنا پڑے گا، اور اس کے لیے انھیں کم از کم کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہوگی جو تیرنا جانتے ہوں۔ اس کے بعد سے اب تک چالیس سال گزر چکے ہیں، پولیساریو نے حال ہی میں اپنی مسلح جدوجہد کی 50 ویں سالگرہ منائی، لیکن ان کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔
مجھے صحارا اوکسیڈینٹل کے زین الدین السعد کی 2008 کی ایک رپورٹ پڑھ کر دکھ ہوا، جس میں کہا گیا تھا: "آج کی تاریخ تک، مغربی صحارا کا زیادہ تر حصہ مراکش کے زیر کنٹرول ہے۔ تقریباً 250,000 صحراوی مہاجرین الجزائر کے صحرا کے اندر ناگفتہ بہ حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 1,700 کلومیٹر لمبی دیوار 130,000 مراکش کے فوجیوں کو پولساریو فورسز سے الگ کرتی ہے، جن کا الجیریا اور موریطانیہ کی سرحد سے متصل زمین کے ایک حصے پر برائے نام ہی کنٹرول ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی آبزرور 1991 کی جنگ بندی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ برسوں کے دوران، مراکش نے مغربی صحارا پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ مراکش کے آباد کار اب آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہیں۔ اس علاقے کے قدرتی وسائل، جنہیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق صرف صحراوی عوام کے فائدے کے لیے ہی استعمال کیا جانا چاہیے تھا، مراکش ان کا استحصال کر رہا ہے۔"
مختصر پس منظر:
1. اسپین نے 1975 تک مغربی صحارا پر اپنا قبضہ رکھا۔
2. مراکش اور موریطانیہ نے 1975 میں اس پر قبضہ کیا۔
3. موریطانیہ 1979 میں مغربی صحارا سے دستبردار ہو گیا۔
4. مراکش نے 1975 سے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔
5. مراکش نے صحراوی لوگوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔
6. اقوام متحدہ نے صحراوی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے۔
مغربی صحارا، جو ایک غریب اور کم آبادی والا شمالی افریقی علاقہ، اور افریقہ کی آخری کالونی ہے، گزشتہ پانچ دہائیوں سے اسلامی ممالک اور مغرب کی سامراجی قوتوں کے، ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال کا شکار بنا ہوا ہے۔ صحراوی عوام کا امریکہ، فرانس، اسپین، موریطانیہ اور مراکش نے قتل عام کیا، انہیں اپنے گھروں سے نکالا، ان کا استحصال کیا اور انہیں جبر و تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ مغربی صحارا کو افریقہ کی آخری کالونی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس پر ابھی تک امریکہ، فرانس اور اسرائیل کی خاموش حمایت سے مراکش کا قبضہ ہے، حالانکہ اقوام متحدہ نے صحراوی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے، اور پولیساریو فرنٹ کو صحراوی عوام کا جائز نمائندہ مانا ہے۔ پولیساریو فرنٹ صحراوی عوام کی خود مختاری کے لیے لڑ رہا ہے، اور انھوں نے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔
مغربی صحارا 1975 تک اسپین کے زیر تسلط تھا۔ 1975 سے 1991 تک مراکش اور موریطانیہ کے قبضے کے خلاف، ایک قوم پرست گروپ پولیساریو فرنٹ نے آزادی کی جنگ لڑی۔ موریطانیہ 1979 میں مغربی صحارا سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوا، لیکن مراکش کا امریکہ اور فرانس کی خاموش حمایت سے اس پر تسلط برقرار رہا۔ مراکش اب بھی اس پر قابض ہے اور اسے اپنا ایک کالونی سمجھتا ہے۔ مراکش کے کچھ لیڈروں نے مغربی صحارا کو اپنے صوبوں میں شامل کر کے، ایک عظیم مراکش کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
تنازعات کے نتیجے میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہوئیں ہیں۔ 1976 میں صحارا کے مہاجر کیمپوں پر نیپلم اور سفید فاسفورس بم گرائے گئے، جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری جاں بحق ہوئے تھے۔
ایک طویل جنگ کے بعد پولیساریو فرنٹ اور مراکش کے درمیان 1991 میں جنگ بندی پر اتفاق ہوا، اور مراکش نے ریفرنڈم پر اتفاق بھی کیا لیکن مراکش نے کبھی بھی ریفرنڈم کا انعقاد نہیں کیا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اپنے پہلے دور حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے، 2020 میں مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے، صحراوی لوگوں کے حق خود ارادیت کے لیے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عمل کو مسترد کر دیا۔ مراکش نے اس حق کے بدلے میں، 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کیا تھا۔ اسرائیل نے 2023 میں مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو بھی تسلیم کیا تھا، یہ وہی سال تھا جب غزہ جنگ نے نسل کشی میں مراکش کی حمایت حاصل کرنا شروع کیا تھا۔
بدقسمتی سے، عرب لیگ اور کچھ اسلامی ممالک نے بھی مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کی حمایت کی ہے، جبکہ پولیساریو فرنٹ کو اقوام متحدہ کے 46 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ مغربی صحارا میں ریفرنڈم کے انعقاد اور مراکش سے اس کی آزادی میں امریکا اور اسرائیل سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔
آج مغربی صحارا کا 30 فیصد حصہ پولیساریو فرنٹ کے قبضے میں ہے اور اس کا انتظام اس کے سیاسی ونگ SADR کے زیر انتظام ہے، اور باقی علاقہ مراکش کے قبضے میں ہے۔
مراکش کا مغربی صحارا پر قبضہ اس لیے نہیں کہ وہ ایک طاقتور ملک ہے، بلکہ ان اسلامی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہے، جو امریکا اور فرانس کے زیر اثر ہیں، اور امریکا بالخصوص صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کھلی حمایت کی وجہ سے بھی۔ چونکہ، ٹرمپ ایک بار پھر امریکہ میں برسراقتدار آ چکے ہیں، مغربی صحارا کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے، جس سے سبب صحراوی عوام مراکش کی بادشاہت اور اس کی فوج کے رحم و کرم پر جی رہی ہے۔ مراکش کی فوج نے صحراوی عوام کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ صحراویوں کی بہت سی اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ مغربی صحارا۔ مراکش کے قبضے کے خلاف احتجاج کرنے اور آزادی کا مطالبہ کرنے پر، بہت سے شہریوں کو ہیلی کاپٹروں سے خلا میں چھوڑ دیا گیا یا زندہ دفن کر دیا گیا۔ مراکش کی فوج صحارا کے 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور کرتی یے۔ جس سے انکار کرنا ایک سنگین جرم مانا جاتا ہے۔
صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو، ہمیشہ حراست میں لے لیا جاتا ہے، مختلف قسم کے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے، اور طویل عرصے تک قید میں رکھا جاتا ہے۔ بہت سے شہری اور کارکن لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے بارے میں اب تک کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ صرف 2010 میں ہی 520 صحراوی شہری لاپتہ ہوئے، اور جبری گمشدگیوں کی کل تعداد 1500 ہو سکتی ہے۔
2005 میں مراکش کی ایک عدالت نے 14 صحراوی افراد کے خلاف ایک بڑے مقدمے کی سماعت کی، اور انہیں قید کی سزا سنائی گئی۔ مراکشی فورسز نے لاپتہ افراد سے لا تعلقی کا اظہار کیا، لیکن 1991 میں جنگ بندی کے تحت انہوں نے 200 لاپتہ افراد کو رہا کیا۔ ان سب کو پولیساریو فرنٹ کی حمایت اور مراکش کے قبضے کی مخالفت کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
صحراوی عوام کی آزادی کی جنگ پولساریو فرنٹ کی قیادت میں جاری ہے، جبکہ مراکش اسے علیحدگی پسند تحریک قرار دیتا ہے۔ آزادی پسندوں، کارکنوں اور صحراوی شہریوں کو مراکش کی سلطنت، جھوٹے الزامات میں پھنسا کر ہراساں کرتی ہے، ان پر تشدد کے پہاڑ توڑتی ہے، اور انہیں جیلوں میں ڈالتی ہے، اور اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
2023 میں ہی، کاسابلانکا کی ایک عدالت نے، کارکن سید بوکیوڈ کو اسرائیل کے ساتھ حکومت کے تعلقات پر تنقید کرنے والی فیس بک پوسٹ کے لیے، تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔ ایک اور انسانی حقوق کی محافظ ردا بینوٹمانے کو، حکومت پر مبینہ تنقید، مغویوں کی رہائی کے مطالبے، اور آزادی اظہار رائے کے دبائے جانے کے خلاف احتجاج کرنے پر، 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
صحافی عمر رادی، سلیمان رئیسونی اور توفیق بوچرین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور قبضے کے خلاف احتجاج کرنے پر قید میں ڈالا گیا۔ آزادی کے لیے لڑنے والوں کے خلاف الزامات عائد کرنے کا ایک پیٹرن دیکھا گیا ہے۔ کارکنوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں پر جنسی جرائم کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے، درجنوں صحافیوں اور سوشل میڈیا کارکنوں کے کیس کو بھی دستاویزی شکل دی ہے، جنہیں مراکش کی عدالتوں نے توہین، جھوٹی خبریں پھیلانے، مقامی حکام، ریاستی اداروں اور غیر ملکی سربراہان مملکت کو بدنام کرنے، اور سلطنت کے اداروں کے لیے خطرہ پیدا کرنے کے الزام میں سزا سنائی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اکتوبر 2023 میں مراکش کے انفورسمنٹ افسران نے، صحراوی انسانی حقوق کی تنظیم CODESA کو لیون میں اپنی پہلی کانفرنس منعقد کرنے سے روک دیا تھا۔
ابھی تک، مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کا کوئی خاتمہ تو نظر نہیں آتا، حالانکہ اقوام متحدہ نے مغربی صحارا کے حق خودارادیت کو تسلیم کر لیا ہے، کیونکہ پوری دنیا کے انسانی حقوق کا خود ساختہ چیمپئن امریکہ، صحراوی عوام کی زندگی کا سودا کر کے، صرف اس لیے مراکش کا دفاع کر رہا ہے، کہ مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ دوسری بات یہ ہے، کہ امریکہ اور فرانس کی نظریں خطے میں سونے اور دیگر معدنی وسائل کے وسیع ذخائر پر ہیں۔ مغربی صحارا میں امریکی مفادات کی کلید مراکش کے پاس ہے۔ اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے پیشرو براک اوباما نے، اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے خطے میں لڑائی اور خانہ جنگی کو ہوا دی۔ 2014 میں، اوباما انتظامیہ نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے، 5 بلین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افریقی ممالک میں فوجی اڈے قائم کیے۔
آج تقریباً پورا افریقہ خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا ہے، اور زیادہ تر عسکریت پسند مسلم گروپوں کو بالواسطہ طور پر امریکہ سے فنڈ اور اسلحہ کی فراہمی ہوتی ہے۔ آئی ایس آئی ایس، القاعدہ، بوکو حرام اور دیگر مسلم عسکریت پسند گروہ، امریکہ اور نیٹو کے سیاسی اور فوجی مفادات کو پورا کرتے ہیں۔ لہٰذا، مغربی صحارا یا دیگر جگہوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، جب تک کہ اس کے مفادات کو جابر حکومتوں کا تحفظ حاصل ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر، انٹرنیشنل ریڈ کراس، یو این ہائی کمیشن آف ہیومن رائٹس، ڈیفنڈ انٹرنیشنل، عربیک نیٹ ورک آف ہیومن رائٹس انفارمیشن، ان سب نے مراکش کی جانب سے مغربی صحارا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کی ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ نے، پوری بے شرمی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے اور اس کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا صرف اس لیے دفاع کیا ہے، کہ مراکش اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لے آیا ہے، اور اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
لہٰذا اقوام متحدہ کو مغربی صحارا میں ریفرنڈم کے انعقاد کو تیز کرنا چاہیے، اور صحراوی عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ کو جلد از جلد یقینی بنانا چاہیے۔
------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism