وجاہت مسعود
میجر جنرل (ریٹائرڈ) شاہد حامد نے خوب کہا کہ ان دنوں ‘‘لوگوں کو بالعموم معلوم تھا’’ ۔ صاحب ! لوگوں کو ان دنوں ‘‘ بالعموم یہ بھی معلوم تھا’’ کہ لاہور میں ہونے والی قتل وغارت بالخصوص ایم اے او کالج کے باہر غیر مسلم بچیوں کا برہنہ جلوس نکالنے میں اسی خاتون کا دست معجزہ کا ر دخل انداز تھا جو ‘شاہ نواز’ ہونے کا زعم رکھتی تھی عبدالحمید سالک کی ‘‘ارائیں نظارہ’’ والی پھبتی تو خیر اب کثرت استعمال سے متروک ہوچکی ۔
مارچ 1947میں شمالی پنجاب میں کیا طوفان آیا؟ اور یہ سکھ کون لوگ تھے جن پر یہ قیامت ٹوٹی ؟ یہ سکھ اسی زمین کے بیٹے اور بیٹیاں تھے جنہوں نے سولہویں اور ستر ہویں صدی عیسوی میں سکھ مت قبول کیا۔ ہندو مت میں پائی جانے والی ذات پات کی جکڑ بندیوں کو مسترد کیا۔ زمین سے جڑ ے ہوئے لوگ ،تمباکو نہیں پیتے ،اپنی شناخت کے لیےبال نہیں کٹواتے ۔زندگی سے محبت کرتے تھے۔ کرتے تھے کیا، کروڑوں ہیں اور آج بھی کرتے ہیں ۔ محبت اور دشمنی بلند آواز میں کرتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ہندوستانی سپاہیوں کو جو تمغے ملے، ان میں سے آدھے سے زیادہ سکھ سورماؤں کے حصے میں آئے ۔محنتی ،دیانت دار اور سادہ دل ہیں۔پنجاب کی زمین ،پنجاب کے دریا، پنجاب کے کھیت، پنجاب کے موسم، سکھ مت کے پیروکار وں کی شناخت ہیں ۔ بیسویں صدی میں پنجاب کی خوشحالی سکھ بیٹے اور بیٹیوں کی محنت شاقہ کی مرہون منت تھی۔ سکھوں نے پنجاب کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں تین منزلہ مکان کھڑے کردیے ۔پوری دنیا گھوم جائیے ۔ اپنے سینے میں بے لوث دوستی کی گرمی رکھنے والا سکھ دوست جیسا کوئی اور ڈھنڈ لائیے ۔ دنیا کی کسی مذہبی عبادت گاہ میں ایسا نہیں ہوتا، مگر گرودوارے کی چار وں دیواروں میں دروازہ ہوتا ہے۔ جو چاہے جس سمت سے آئے ، جو چاہے جس سمت کو جائے سکھ دل کشادہ رکھتے ہیں۔
2مارچ 1947کو پنجاب میں خضر حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد مسلم لیگ حکومت بنانے میں ناکام ہوگئی۔ عام تاثر یہ تھا کہ پنڈی اور اس کے گردو نواح میں 4مارچ 1947کو شروع ہونے والے فسادات مسلم لیگ کی طرف سے اپنی سیاسی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش تھی۔مسلم لیگی حلقوں کی طرف سے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کی دفعہ 93کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو جواز بنایا گیا ۔ اگرچہ گورنر کا یہ اقدام کسی بھی طرح پنڈی اور ملتان میں ہونے والے فسادات سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔
4مارچ 1947میں پنڈی ،جہلم، چکوال، ٹیکسلا، واہ اور گوجر خان میں سکھ مت کے پیروکاروں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ انہیں قتل کیا گیا۔زندہ جلایا گیا۔ ان کے بال کاٹے گئے ۔سرعام ان کے ختنہ کیے گئے۔ انہیں تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ سکھ خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ خطہ پوٹھو ہار کے کنوئیں سکھ بچیوں کی لاشوں سے اٹ گئے ۔ صرف کہوٹہ گاؤں میں 2000سکھ زندہ جلائے گئے۔ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دوسری عالمی جنگ دیکھ رکھی تھی۔ جب اس نے مارچ 1947میں شمالی پنجاب کا دورہ کیا تو فوراً فیصلہ کیا کہ بٹوارے کے سوا ہندوستان کے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ پوٹھو ہار پنجاب کے فسادات روکنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی نے مشترکہ اپیل جاری کی تھی ۔ آنکھ کے آنسو او رلہو کے قطرے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ اس میں ہندو، مسلم ، سکھ یا عیسائی کی کوئی تمیز نہیں۔ سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے۔
متحدہ پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد 55فیصد ،ہندوؤں کی تعداد 25فیصد اور سکھوں کی تعداد 20فیصد تھی۔ پنجاب کی تقسیم کے اعلان سے سکھوں کو شدید صدمہ پہنچا ۔ ان کی کل آبادی کا ایک تہائی پنجاب کے مغربی اضلاع میں آباد تھا جب کہ دوتہائی سکھ مشرقی پنجاب کے اضلاع میں آباد تھے۔ تاہم مغربی پنجاب کے اضلاع بالخصوص منٹگمری اور لائل پور میں زر خیز زمین اور قیمتی شہری جائیداد کا بڑا حصہ سکھوں کی ملکیت تھا۔ اگرچہ مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت نے تقسیم ہند کے منصوبہ میں پنجاب کے بارے میں ریڈ کلف ایوارڈ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن سکھ قیادت خود کو اس معاہدے کا پابند نہیں سمجھتی تھی۔ انہیں خدشہ تھا کہ پنجاب کی تقسیم میں ان کی آبادی 33فیصد اور 66فیصد کی نسبت سے دونوں ملکوں میں بٹ کررہ جائے گی۔ اس کے علاوہ سکھ مارچ کے پنڈی فسادات کا بدلہ لینے کے لیے بھی بے چین تھے جو دو سے تین ہفتے تک جاری رہے تھے اور جن میں مرنے والے قریب قریب سوفیصد سکھ تھے۔ ماسٹر تار ا سنگھ ایک جذباتی رہنما تھے جنہوں نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پراپنی کرپان لہرا تے ہوئے نعرہ لگا یا تھا کہ ‘جو پاکستان مانگے گا اسے قبرستان دیا جائے گا’ ۔ مارچ کے فسادات میں ٹیکسلا کے قریب ماسٹر تارا سنگھ کی والدہ ان خواتین میں شامل تھیں جنہیں زندہ جلادیا گیا تھا۔
سکھ قیادت نے پاکستان اور بھارت میں سے بھارت کا انتخاب کیا تھا چنانچہ انہیں خدشہ تھا کہ مغربی پنجاب میں رہ جانے والے سکھوں کا کما حقہ تحفظ نہیں ہوسکے گا ۔ سکھ قیادت کی طرف سے تقسیم پنجاب کے منصوبے کی مخالفت غیر منطقی اور جذباتی تھی۔ پنجاب او ربنگال کی تقسیم کا مطالبہ مسلم لیگ نے نہیں بلکہ کانگریس کی قیادت نے کیا تھا۔اب اس تقسیم کے نتیجے میں سکھ کمیونٹی کا دو حصوں میں بٹ جانا ناگزیز تھا۔ برطانوی حکومت جون 1948کی بجائے اگست 1947ہی میں ہندوستان کو آزادی دینے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ اس موقع پر سکھ رہنماؤں کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کی مخالفت لاحاصل تھی۔ اس مرحلے پر تقسیم ہند یا تقسیم پنجاب کےمنصوبے میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں تھی البتہ اس بارے میں شعلہ بیانی سے فساد برپا ہونا ناگزیر تھا ۔ تاہم سکھ قیادت اپنی سیاسی بے بسی نیز راولپنڈی کے قتل عام کا انتقام لینے کے لیے اوتاولی ہورہی تھی۔ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق سکھ مئی کے مہینے میں جوابی کارروائی کی تیاریاں کرچکے تھے تاہم مئی تک سوال انتظامیہ اور دوسرے ادارے بڑی حدتک فعال تھے چنانچہ قتل او رلوٹ مار کی سازشیں بے نقاب ہوتی رہیں لیکن جولائی کے آخر اور اگست کے ابتدائی ہفتوں میں انتظامیہ فرقہ وارانہ بنیادوں پربری طرح منقسم ہوچکی تھی ۔خفیہ اطلاعات کا انتظام درہم برہم ہوچکا تھا ۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی ہند کی سول سروس میں بھرتیوں کا معیار بھی گرگیا تھا کیو نکہ بہتر صلاحیت رکھنے والے نوجوان فوج میں شامل ہورہے تھے۔ ایک طرف ہندوستان کےمسلم اور غیر مسلم ماتحت سرکاری افسروں کو معلوم ہوچکا تھا کہ برطانوی حکمران بہت جلد رخصت ہونے والے ہیں چنانچہ اب ان سے ترقی ،تعیناتی یا انعامات کی صورت میں فوائد ملنے کی توقع عبث تھی۔ دوسری طرف انگریز حکام کو معلوم تھا کہ ہندوستان میں ان کا قیام چند ہفتوں سے زیادہ باقی نہیں رہا۔ قدرتی طور پر ان کی مستعدی میں فرق آیا۔(جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط10)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط11)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط12)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط13)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-xiii-/d/2719