وجاہت مسعود
شبیر احمد عثمانی نے یکم ستمبر 1947کو اخبار ات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی 20روز قبل 1947کو دستور سازاسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا جواب تھا۔ چند جملے ملا حظہ ہوں۔ ‘‘میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان ) مسلمانوں کے ضبط ونظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتا د طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دوقوموں کے نظریے کی بنیا د بھی مذہب ہے۔اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کرسکتی تھی۔ تاہم علمائے دین او رمسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور نصب العین پر متفق ہوگئے ۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکسا ن کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیو نکہ موجود ہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن پرستی چھا جائے گی’’۔
قائد اعظم اپنی تقریر میں فرما چکےتھے کہ ‘‘وقت گزرنے کے ساتھ (پاکستان میں) ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ،مسلمان نہیں رہے گا۔مذہبی حوالے سے نہیں کیو نکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں ،ریاست کے شہری کے طور پر ’’۔ چنانچہ سیاست کے غیر جمہوریت پسند حلقوں کے مہرے کے طور پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے یہ گرہ لگا نا بھی ضروری سمجھا کہ‘‘ میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو’’۔
یکم فروری 1948کو امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے صراحت سےکہا ‘‘ بہر صورت میں امر واضح ہے کہ پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاؤں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سے شہری غیر مسلم ہیں مثلاً ہندو، مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہونگے جو دیگر شہریوں کو دیئے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت میں اپنا کما حقہ کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا’’۔19فروری 1948کو آسٹریلیا کے عوام کے نام نشر یاتی تقریر میں قائد اعظم نے واضح طور پر اعلان کیا کہ پاکستان کی ریاست میں ملائیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
اب دیکھئے کہ بانی پاکستان تو کہتے ہیں کہ ‘‘ملاؤں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا’’ لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد 12مارچ 1949کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم لیاقت علی خان فرماتے ہیں کہ ‘‘ ریاست کو ایسے غیر جانب دار مبصر کا کردار نہیں کرنا چاہئے جہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب کا اقرار کرنے اور اس پر کار بندر ہنے کی محض آزادی حاصل ہوگی۔ کیو نکہ ریاست کی طرف سے ایسا طرز عمل بجائے خود ان تصورات کی نفی ہوگا جن کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا۔’’
ریاست کا‘ مذہبی امور میں غیر جانب دار ہونا’ ہی سیکولر او رجمہوری رویہ ہے ۔ ریاست مذہب کے نفاذ کی ذمہ داری اٹھالے تو مذہبی پیشوائیت کا غلبہ ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ اب یہاں ایک سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ آخر پاکستان کا مطالبہ کن تصورات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اس کا جواب دو مختلف زاویوں سے مملو ہے۔ مطالبہ پاکستان کا ایک تصور تو خالص سیاسی اور آئینی تھا۔سیاسی قیادت اسے بخوبی سمجھتی تھی لیکن اس سیاسی مطالبے کو جس مذہبی لغت میں لپیٹ کر عام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا جارہا تھا ، سیاسی قیادت نے اس کی تصحیح کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ گزشتہ ساٹھ برس سے قوم کو بار بار سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر تعلیم اصغر سودائی کی ایک نظم کا مصرع ‘‘پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ ’’ اس طرح پیش کیا گیا ہے گویا یہ مسلم لیگ کی پالیسی تھی۔
آئیے اس ضمن میں ملک غلام بنی (سابق وزیر تعلیم پنجاب) سے گواہی لیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ملک غلام بنی قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کونسل کے رکن رہے ۔ اپنی کتاب ‘‘قصہ ایک صدی کا’’ کے صفحہ 106پر لکھتے ہیں۔
‘‘پاکستان میں پہلی آل پاکستان مسلم لیگ کونسل کا اجلاس 14ستمبر 1947کو قائد اعظم کی صدارت میں خالق دینا ہال کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ایک چھدری داڑی والے صاحب نے قائد اعظم سے استفسار کیا کہ ‘قائد اعظم ہم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ ...’ ا س پر قائد اعظم نے فرمایا ۔‘‘ تشریف رکھیئے ۔نہ تو میں نے اور نہ ہی روکنگ کمیٹی یا آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے ایسی کوئی قرار داد پاس کی ہے جس میں ‘پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا للہ ’ کو اپنایا گیا ہو۔ ہاں البتہ آپ نے چند ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسا نعرہ لگایا ہوگا’’۔
قائد اعظم یہاں اپنے دیرینہ مؤقف سےکوئی انحراف نہیں کررہے تھے کیو نکہ ان کے ذہن میں پاکستان کے نظام حکومت کا نقشہ ایک سیکولر جمہوری حکومت کا تھا۔ انہو ں نے 1946میں رائٹر ز کی نمائند ے ڈول کیمبل کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ ‘‘نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ (حاکمیت اعلیٰ) عوام ہوں گے۔ نئی قوم کا ہر شہری مذہب ، ذات یا عقیدے کے بنا پر کسی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق رکھے گا۔’’
اسی ضمن میں مولانا غلام رسول مہر سے گواہی لیتے ہیں۔ مولانا متبحر عالم، محقق او رصحافی تھے۔ روزنامہ انقلاب کے مدیر تھے۔ گول میز کانفرنس کے مندوب تھے قیام پاکستان کے بعد عاشق حسین بٹالوی کے نام 13فروری 1954کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں ۔
‘‘ میرے نزدیک دوقوموں کے نظریے سے قائد اعظم مرحوم کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر علاقے میں اکثر یت کو اقتدار کا حق حاصل ہے۔یعنی مطالبہ یہ نہ تھا کہ تمام مسلمان بلا استثنیٰ بالکل الگ کردیے جائیں۔اگر یہ مقصد ہوتا تو وہ تمام مسلمانوں کو مختلف مقامات سے منتقل کرا کے پاکستان میں لانے پر مجبور ہوتے ۔ سیاست میں بعض اوقات مختلف امور کی اہمیت واضح کرنے کےلیے انہیں مبالغہ آمیز صورت دی جاتی ہے۔ جن معنوں میں دوقوموں کے نظریے کو پاکستان کے عام لوگ یا عام لیڈرسمجھتے اور استعمال کرتے رہے، میرے نزدیک قائد اعظم کبھی بھی ان معنوں کے قائل نہ ہوئے ۔ البتہ قائد اعظم کے بعد پاکستان کے قائد ین مسلسل ژولید گی فکر اور مبالغہ آرائی میں مبتلا رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے...’’ (جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-iii/d/2635