وجاہت مسعود
برادرم آصف محمود نے کچھ روز قبل ایک کالم میں کچھ سوالات اٹھائے تھے۔ سوال کیا اٹھاتے ہیں ،قیامت ڈھاتے ہیں۔ یمین ویسار میں کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جاتے ہیں۔ سیاسی خط تنصیف کے اس پار سے تو کوئی جواب ابھی موصول نہیں ہوا ۔بھلے آدمی نے ستم یہ کیا ہے کہ ہماری طرف والوں میں سے استعارہ ان ‘‘بابالوگ’’ کو بنایا ہے جو سرے سے اردو پڑھتے ہی نہیں۔ سو طے پایا کہ ہم استعارہ نہ سہی ،مجاز مرسل بن کر ہی اپنا ردعمل دیں۔ ضمیر کی آواز اگر فرض ہے تو فرض توصف نعلین سےبھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔ سوال میں انہوں نے پاکستان کے آئین کی نصف درجن شقیں گنوا کر پوچھا تھا کہ ‘‘بزعم خود روشن خیال کہلوانے والے’’ کیا ان شقوں کو پاکستان کے آئین کا حصہ سمجھتے ہوئے ان کی بالادستی کے خواہاں ہیں۔ خاکسار نے اس کسی قدر طویل فہرست میں سے شق دو(الف) کا انتخاب کیا ہے۔پاکستان کے آئین کی شق دو کی ذیلی دفعہ الف جنرل ضیا الحق کے خوان آمریت کی دین ہے۔ انہوں نے 1973کے اصل دستور کے دیباچے کو آئین کے متن میں شامل کر کے 12مارچ 1949کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرار داد مقاصد کو آئین کا مؤثر حصہ قرار دے دیا تھا۔
تو صاحب بات یہ ہے کہ ہم 1973کے آئین کو پاکستان کے دفاق کی واحد ضمانت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس دستور میں شق دو (الف) سمیت جو کچھ بھی درج ہے، اسے پاکستان کا دستور تسلیم کرتے ہیں ۔ تاہم جمہوری قانون سازی کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں پاکستان کا دستور ایک قابل ترمیم دستاویز ہے اور دستور میں ترمیم کا طریقہ کار خود اس دستاویز میں طے کردیا گیا ہے۔ ہم پاکستان کے دستور کی شق دو (الف) سے اصولی اختلاف رکھتے ہیں ۔ ہماری سیاسی نصب العین یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی پارلیمنٹ کے لیے دوتہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنا ممکن ہو۔آمر کی ایزا د کردہ اس غیر جمہوری شق کو آئین سے حذف کردینا چاہئے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں آئین کی شق دوالف سےکدکیوں ہے؟ وجہ واضح ہے کہ ہم قرار داد مقاصد ہی کو جمہوری اصولوں کے منافی سمجھتے ہیں ۔ قرار داد مقاصد پاکستان کے بانی کی وفات کے ٹھیک چھ ماہ بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کی تھی۔ ا س پر اسمبلی میں چار روز تک زور دار بحث ہوئی۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے رہنما چٹو پادھیانے اس کی زوردار مخالفت کی تھی اس قرار داد کا مسودہ لیاقت علی خان اور شبیر احمد عثمانی نے مری کی پرسکون وادی میں بیٹھ کر تیار کیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے پہلے اٹھارہ مہینے میں مقنّنہ یا عوامی حلقوں کی طرف سے اس نوع کی قرار داد کا کوئی مطالبہ منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ بلکہ مارچ 1949کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والا دستور ساز اسمبلی کا اجلاس تو سالانہ بجٹ کے ضمن میں بلایا گیا تھا ۔ قرار دادمقاصد مداری کی پٹاری سے نکالا جانے والا وہ کبوتر تھا جس کا مقصد جسد اجتماعی کی توجہ اس خوبصورت پرندے سے ہٹانا تھا، جسے جمہوریت کہتے ہیں۔
جملہ معترضہ سہی لیکن بتاتے چلیں کہ شبیر احمد عثمانی مسلم اقلیتی ریاست حیدر آباد دکن کے گمنام پیش امام تھے جو مسلم رجواڑوں میں وراثتی تنازعات پر حسب فرمائش فتاویٰ دینے کی شہرت رکھتے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آئے اور شیخ الاسلام کا لقب اختیار کرلیا۔شبیر احمد عثمانی اگست 1947ہی میں پاکستان چلے آئے تھے۔ حالانکہ میر عثمان علی کی حکومت حیدر آباد میں 12ستمبر 1948تک قائم رہی ۔ پاکستان کی مسلم اکثریتی ریاست کواسلامی مملکت کے خدوخال بخشنے کے علاوہ ان کی ایک اہم مصروفیت ریاست خیر پور (سندھ) ریاست بہاولپور (پنجاب ) ریاست قلالت وخاران (بلوچستان) کے حکمرانوں کی شرعی مشکلات دور کرنا تھا ۔ ہمارے مذہب پسند دوست ہمیں اکثر یاد دلاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی پرچم کشائی شبیر احمد عثمانی نے کی تھی۔ لیکن وہ یہ نشاندہی کرنا بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ، جس میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی موجود تھے، تلاوت قرآن کے بغیر شروع ہوا تھا۔ پاکستان کے موعودہ سیاسی خدوخال پر لیاقت علی خان اور محمد علی جناح کے نقطہ نظر میں اختلاف اب تاریخ کا حصہ ہے ۔ جناح کا نصب العین ایک جدید جمہوری ریاست تھی لیکن لیاقت علی خان کا سیاسی مزاج جمہوری بندشوں سے گریز پا تھا۔
قرارداد مقاصد کےمتن پرغور وفکر کر کے اس کے مضمرات کی نشاندہی سے پہلے اس اہم دستاویز پر بھی توجہ دینا ضروری ہے ، جو مطالبہ پاکستان ،تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بنیاد بنی یعنی 24مارچ 1940میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں منظور ہونے والی قرار داد لاہور جس کے بنیادی نکات دوہیں ۔ پہلے نکتے میں ہندوستان کے آئینی سوال کو ایک ایسے جغرافیائی بندوبست سے مشروط کیا گیا ہے جس کی مدد سے ہندوستان کے مشرق اور شمال مغرب میں واقع مسلم اکثر یتی منطقوں کو علیحدہ ریاستوں کی شکل دی جاسکے۔ قرار داد کے دوسرے حصے میں اس طرح کے جغرافیائی رد وبدل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے ‘‘مناسب ، مؤثر اور لازمی ’’ تحفظات کا مطالبہ کیا گیا ۔ یہ امر واضح تھا کہ یہ تحفظات غیر مسلم اکثر یتی بھارت کے مسلمانوں اور مسلم اکثر یتی پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم باشندوں کے لیے یکساں طور پر مانگے جارہے تھے ۔قرار داد لاہور میں کہیں پر بھی ‘اسلامی حکومت ’ یا ‘شرعی نظام’ یا ‘اسلامی نظام’ کالفظ تک استعمال نہیں کیا گیا۔
1946میں آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب پارلیمانی نمائندوں نے قرار داد میں ترمیم کر کے ‘ریاستوں’ کی بجائے ‘ریاست’ کا لفظ اختیار کیا لیکن تحریک پاکستان کے اس تکمیلی مرحلے میں بھی ‘اسلامی نظام’ یا ملائیت جیسے تصورات کو مسلم لیگ کے اصولی نصب العین میں شریک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 11اپریل 1946کو مسلم لیگ کنونشن دہلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ ‘‘ ہم کس چیز کے لیے لڑرہے ہیں۔ ہمارا مقصد تھیو کریسی نہیں ہے اور نہ ہی ہم تھیو کریٹک سٹیٹ چاہتے ہیں ۔ مذہب کے وجود سے کون انکار کرسکتا ہے اور مذہب ہمیں عزیز بھی ہے۔ لیکن اور چیز بھی ہیں جو زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔مثلاً ہماری معاشرتی زندگی ، ہماری معاشی زندگی اور بغیر سیاسی اقتدار کے آپ اپنے عقیدے یا معاشی زندگی کی حفاظت کیسے کرسکیں گے۔’’ یہاں واضح طور پر قائد اعظم مذہب اور سیاست میں تفریق کررہے تھے۔ یہ بات تو سبھی کے علم میں ہے کہ 1938میں مسلم لیگ کے لکھنو سیشن میں قائد اعظم محمد علی جناح نے عورتوں کو اجتماعی زندگی میں حصہ لینے کی جو تلقین کی تھی، ملاؤں کی طرف سے قائد اعظم کے خلاف کفر کے فتوے اسی تقریر کے ردِ عمل میں دیے گئے تھے۔(جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-i/d/2627