وجاہت مسعود
اسی برصغیر کے ممتاز محقق اور مؤرخ احمد سلیم نے دو جلدوں میں تقسیم ہند اور بعد ازاں تقسیم پاکستان( بنگلا دیش کی آزادی ) کے انسانی پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ پہلی کتاب کا نام ہے The Land of Two Partitions and Beyond جب کہ دوسری کا عنوان Reconstructing Historyہے ۔تاہم احمد سلیم کی مرتب کردہ دونوں کتب میں شامل مصنفین کا بنیادی زور سیاسی تجزیے اور تاریخی واقعیت کی بجائے مختلف فرقوں میں ہم آہنگی اور رواداری کی روایت نیز آئندہ امن اور بھائی چارے کے امکانات پر ہے۔ یہ پہلو بجائے خود نہایت ارفع ہونے کے باوجود تاریخی معروضیت اور سیاسی تجزیے میں زیادہ مدد گار نہیں ۔
مغربی پنجاب، سندھ اور پختون خوا میں فسادات کے بیان میں عام طور پر سرحد کے دونوں طرف معروضی انداز اختیار نہیں کیا گیا۔ مغربی پنجاب اور سرحد میں فسادات کے بارے میں ایک اہم تصنیف لائل پور خالصہ کالج کے سابق پرنسپل سردار گو ربچن سنگھ طالب نے 1950میں Attacks on Hindus and Sikhs the Punjabکے عنوان سے شائع کی تھی۔ شرومنی گورو دوارہ پر بندھک کمیٹی کے زیر اہتمام شائع ہونے نیز مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو شامل کرنے کی بجائے صرف ہندو اور سکھ متاثرین کو موضوع بنانے کے باعث کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب معروضیت کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتی تاہم اس کتاب میں شامل سرکاری اعداد وشمار او رہم عصر اخباری اقتباسات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔مزید براں اس کتاب کا اہم ترین حصہ وہ ضمیمہ ہے جس میں پولیس ریکارڈ کی مدد سے تشدد کے واقعات کی تاریخ وار فہرست دی گئی ہے ۔دسمبر 1946سے لے کر اواخر اگست 1947تک تقریباً سو صفحات پر مشتمل یہ ضمیمہ ایک قیمتی تاریخی ریکارڈ ہے جس میں واقعات کی تفصیل کے علاوہ حملہ آوروں اور متاثرین کی مذہبی شناخت بھی بیان کی گئی ہے۔ اگر اسی التزام کے ساتھ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کی تفصیل بھی احاطہ تحریر میں لائی جاسکے تو یہ ثابت کرنا مشکل نہیں رہے گا کہ مذہب کے نام پر اس بربریت کے لیے کسی عقیدے کی قید نہیں تھی۔
مسعود کھدر پوش کو پاکستان کے حلقے خاص طور پر بائیں بازوں کا رجحان رکھنے والے اور پنجابی زبان کی سیاست کے علمبردار مسعود بھگوان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بھیل قبیلے کے لیے ان کی خدمات او رہاری کمیٹی رپورٹ پر ان کا اختلافی نوٹ ان کی وجہ شہرت ہیں۔ اگست 1947میں وہ نواب شاہ کے ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ انہیں خبر مل چکی تھی کہ ان کے کچھ افراد خانہ مشرقی پنجاب میں مارے جاچکے ہیں۔ مسعود بھگوان میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ۔فسادات کے ا س پورے سلسلے میں سندھ میں غیر مہاجروں کی صرف ایک ٹرین پر حملہ ہوا، جس میں کوئی مسافر زندہ نہ بچا ۔ یہ حملہ نواب شاہ سکرنڈ ذیلی ریلوے لائن پر کیا گیا تھا اور سرکاری اطلاعات کے مطابق اس حملے کو مقامی ڈپٹی کلکٹر کھدر پوش کی پشت پناہی حاصل تھی۔ سندھ کی معروف مؤرخ حمیدہ کھوڑ و نے اپنے والد او رپاکستان میں سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کی سوانح حیات (Mohammed Ayub Khuhro:a life of courage in politics)میں اس واقعے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔سندھ کے معروف سماجی کارکن روچی رام ابھی حیات ہیں اور ا س واقعے کے رادی ہیں۔ ممتاز مؤرخ احمد سلیم تو اپنے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں 6جنوری 1948کو کراچی میں ہونے والے فسادات کا محرک بھی مسعود کھدر پوش کو قرار دیتے ہیں۔
مشتاق احمد وجدی نے اپنی کتاب ‘‘ہنگاموں میں زندگی’’ میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر قتل وغارت کے دل دوز حقائق بیان کیے ہیں۔
‘‘دفتر سےباہر آتا تو آسمان ہندوؤں کے جلتے ہوئے مکانوں سے سرخ نظر آتا ۔مشرق پنجاب سے مسلمانوں کے قافلے راستے میں مرتے مردوں کو دفناتے تھے بھاگتے چلے آرہے تھے۔ پاکستان پہنچ کر نیم مردہ زمین پر گر پڑتے ۔ادھر ہندوؤں کے قافلے بھاگ رہے تھے ۔دونوں کی راہیں بند تھیں۔ باؤنڈ ری فورس بجائے حفاظت کرنے کے ان پر گولیاں چلاتی تھی۔ اسٹیشن پرفوج تعینات تھی۔ میں خزانے کی دیکھ بھال کے لیے ہر روز وہاں جاتا ۔ صرف ایک دن میں آدھے گھنٹے کے اندر اکتالیس آدمیوں کو سمجھانے کی کوشش کی فکر میں بھاگتے ہوئے گولی کھاتے دیکھا۔ان لاشیں کھینچ کر ایک طرف پھینک دی جاتیں ۔میرا دل تڑپتا کہ ان کو کیسے بچاؤں ۔لیکن بے بس او رلاچار تھا۔ بعض فوجیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ، جان بچانے کے لیے بھاگتے نہتوں پر گولی چلانا مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ میری کون سنتا ۔فوجی افسر نہیں تھا۔ سپاہی مجھ سے بات کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔ بعض کو تڑپتے دیکھا ۔پاس گیا۔ ایک سکھ دھیرے دھیرے پانی مانگ رہا تھا۔ میں بھاگا بھاگا دفتر گیا اور ایک گلاس میں پانی لایا۔قبل اس کے کہ اس کے حلق سے پانی اتر ے ، اس کی آنکھیں پتھر ا گئیں ۔قائد اعظم کا اعلان تھا کہ غیر مسلم پاکستان میں حفاظت سے رہیں گے۔ حساب کے محکمے میں ان کی سخت ضرورت تھی کچھ لوگ میرے وعدوں او رمیری یقین دہانی پر اعتبار کرکے رکے رہے۔ سب عورتوں او ربچوں سمیت قتل ہوئے ۔صرف دو کی جانیں بچانے میں کامیاب ہوا۔’’
اس بیان کے اختتامی پیراگراف میں مشتاق احمد وجدی لکھتے ہیں۔
‘‘ہم نے ہندوؤں کو یقین دلایا تھا کہ وہ بحیثیت ذمہ ہمارے پاس حفاظت سے رہیں گے ۔ لیکن جن لوگوں نے اس وعدہ پر اعتبار کیا وار یہاں رہنا چاہا ان کو مع عورتوں اور بچوں کے قتل کر دیاگیا۔ دلی میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا جواہر لال نہرو پاگلوں کی طرح سڑکو ں پر بھاگےبھاگے پھرتے تھے ۔پاکستان میں ذمیوں کے قتل عام میں ، میں نے کسی مسلم لیگی رہنما کو ان کی حفاظت کی کوشش میں انگلی ہلاتے نہ دیکھا۔’’
فسادات پر جواہر لال نہرو کی تشویش میں کوئی کلام نہیں لیکن یہاں پر مشتاق احمد وجدی سے سہو ہوا ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت میں کم از کم ایک رہنما کے بارے میں بغیر کسی تردید کے خوف کے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں فسادات اور ان میں مذہبی تفریق کے دونوں طرف نظر آنے والی بربریت سے سخت صدمہ ہوا اور انہوں نے فسادات کو روکنے نیز مسلمانو ں اور ان کے ہم وطن ہندو اور سکھ شہریوں میں بنیادی شہری رواداری برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی۔ اس رہنما کا نام قائد اعظم محمد علی جناح تھا۔
مارچ 1947میں شمالی پنجاب کے فسادات کے بعد وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تحریک پر 14اپریل 1947کو مہاتما گاندھی اور قائد اعظم نے اپنے مشتر کہ دستخطوں سے امن کی اپیل جاری کی تھی جسے آل انڈیا ریڈیو سے بار بار نشر کیا گیا۔ اس اپیل پر گاندھی جی نے انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی دستخط کیے تھے ۔ اس اپیل کی کاپیاں بڑی تعداد میں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کی گئیں ۔ اگر چہ یہ اپیل اس قدر تاخیر سے جاری کی گئی تھی کہ اس وقت تک متاثرہ علاقوں میں غیر مسلم آبادی کا قریب قریب مکمل صفایا ہوچکا تھا۔(جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط10)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط11)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط12)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط13)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط15)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-15-/d/2756