وجاہت مسعود
مسلم دربار میں بہت سے علما کی موجودگی میں شریعت کے منافی اقدامات کیےجاتے تھے نیز ظلم وستم پر مبنی احکامات جاری ہوتے تھے اور معدودے چندر وشن مثالوں کے استثنیٰ کے ساتھ علما کو کبھی مزاحمت کیے توفیق نہ ہوسکی۔ خلافت راشدہ کے بعد سے شروع ہونے والے دور ملوکیت میں مذہبی علما کی دربار میں حیثیت مشیر کی تو رہی کہ وہ بوقت ضرورت فتوے جاری کرنے کے کام آتے تھے (جہاں ضرورت پیش آتی تھی ،جہاد کا اعلان بھی کرتے تھے)لیکن انہیں کبھی اس مطالبے کی جسارت نہیں ہوسکی کہ عنان اقتدار ان کے سپر د ہونی چاہئے تاکہ وہ اسلامی نظام شریعت کے مطابق حکومت چلاسکیں ۔ یہ امر تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمان حکومتوں میں فوج کو مذہبی پیشواؤں کی نسبت ہمیشہ کہیں زیادہ قوت اور رسوخ حاصل رہا۔
قیام پاکستان کے بعد مسلمان مذہبی پیشواؤں کو ‘اسلامی حکومت’ اور ‘اسلامی قوانین’ کے مطالبے کی تحریک دراصل ان خاص واقعات اور حالات سے ہوئی جو تقسیم ہندوستان کے آس پاس محض حادثاتی طور پر پیش آئے اور جن کا کوئی تعلق تقسیم ہند کے اصل منصوبے سے نہیں تھا۔ان واقعات کی تفصیل سے قبل ایک نظر مختلف مذہبی حلقوں کی طرف سے پاکستان کے نظام حکومت کواسلامی بنانے کےضمن میں کیے جانے والے مطالبات پر ڈال لیتے ہیں۔
مولوی شبیر احمد عثمانی نے 27فروری 1948کو دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر کو دوقرار داد یں پیش کرنے کا نوٹس دیا۔ پہلی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ‘‘چونکہ پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں نے اس غرض سے پیش کیا تھا کہ وہ جدا ایک ریاست قائم کرسکیں جہاں وہ اسلامی قوانین اور شریعت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں اور اس نہج پر اپنے تمدن کو ڈھال سکیں اور چونکہ پاکستان کے باشندے ان مقدس مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بہت بے صبر ی کا اظہار کررہے ہیں اور چونکہ اس آئین کی بنیاد شریعت اسلامیہ پررکھی جائے گی اس لیے یہ اسمبلی قرار دیتی ہے کہ معتبر علما اور دوسرے مسلمان مفکرین پر مشتمل ایک مجلس مشاورت قائم کی جائے جو شریعت اسلامیہ کے مطابق آئین ترتیب دینے کےلئے سفارشات پیش کرے’’۔
واضح رہے کہ فروری 1948وہی مہینہ تھا جب قومی زبان کے مسئلے پر مغربی اور مشرقی پاکستان میں اختلاف کھل کر سامنے آچکا تھا نیز یہ کہ فروری کے پہلے ہفتے میں قائد اعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے موقع پر قومی زبان کے حوالے سے ان پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ شبیر احمد عثمانی کی تجویز کردہ قرار داد میں وفاقی اکائیوں ، معیشت ،تعلیم اور خارجہ پالیسی کاذکر ہی نہیں کیا گیا کیو نکہ حیدر آباد دکن کے ایک پیش امام سے ان پیچیدگیوں کا ادراک کرنے کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔تاریخی ریکارڈ صاف رکھنے کے لیے بتاتے چلیں کہ نماز جمعہ کے خطبے میں قائد اعظم کا نام شامل کرنے کی تجویز بھی مولانا شیبر احمد عثمانی کے ذہن رساہی پروار د ہوئی تھی ۔ عثمانی صاحب کی دوسری قرار داد بھی مذہبی پیشواؤں کے براہ راست مفاد سے تعلق رکھتی تھی۔ متن ملا حظہ فرمائیے۔
اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کے لیے باشندگان پاکستان کی خواہش کی تکمیل کی طرف پہلا فوری قدم اٹھانے کے لیے اسمبلی قرار دیتی ہے کہ ایک قانون ساز ادارہ قائم کیا جائے جو اسلامی ،مذہبی اداروں اور اوقات کے انتظام و انصرام ، اسلامی تعلیم کی ترویج و تبلیغ اور دوسرے امور سے متعلق فرائض سر انجام دے’’۔
اس قرار داد میں ‘قانون ساز ادارہ’ کی ترکیب پر توجہ کیجئے ۔لوگ ناحق مولوی ظفر احمد انصاری کے لیے لیتے ہیں ۔مولانا نے یہ وضاحت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ‘باشندگان پاکستان نے اپنی اس خواہش ’ کا اظہار شبیر احمد عثمانی صاحب سے کب او رکہاں کیا تھا۔ آج ناحق نجی ٹیلی ویژن چینلز کو اپنی خواہشات کو عوامی مطالبات بنا کر پیش کرنے پر لتا ڑا جاتا ہے۔
2مارچ 1948کو جامع مسجد بازار کلاں وزیر آباد میں مولوی پیر ز ادہ بہا الحق قاسمی امر تسری (معروف کالم نگار عطا الحق قاسمی کے والد محترم) کی زیر صدارت ایک جلسہ عام میں قرار دادمنظورکی گئی جس میں دستور ساز اسمبلی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سب سے پہلے اس بنیاد ی اصول کو تسلیم کرے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے۔ اس کا سرکاری مذہب اسلام اور اس کا قانون قرآن مجید ہوگا۔
یہ ایک تعجب انگیز مطالبہ تھا۔ عقیدہ تو انسانی شعور اور ضمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ بے جان مظاہر نیز انسانوں کے سواد یگر جاندار عقیدے سے متصف نہیں ہوسکتے ریاست تو ایک اجتماعی بندوبست کا نام ہے اور ریاست کی حدود میں مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے شہری بستے ہیں۔ ریاست کا قیام ایک خاص جغرافیائی حدود میں بسنے والے افراد ،گروہوں اور منطقوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کی مدد سے وجود میں آتا ہے۔ اس عمرانی معاہدے میں مختلف عقائد کے پیرو کار فریق کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ریاست کا سرکاری مذہب ناگز یر طور پر کسی ایک عقیدے کو چھوڑ کر دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
اس میں دوسرا زاویہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام منضبط اور قدیم مذاہب میں عقائد کا داخلی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی سے مختلف فرقے جنم لیتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ اختلاف کو محض فروعی قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ فرقے اسی لیے وجود میں آتے ہیں کہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ کے عقائد کو غلط اور اپنے مذہب کے منافی سمجھتا ہے۔مسیحی تاریخ میں کیتھو لک اور پروٹسٹنٹ صدیوں جنگ وجدل میں ملوث رہے ہیں۔ مسلم تاریخ میں عقائد کے اختلاف مسلمان گروہوں نے پلک جھپکے بغیر ایک دوسرے کا خون بہایا ہے۔ چنانچہ تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ 7مارچ 1948کو لائل پور میں جعفر ی کانفرنس کے زیر اہتمام ایک جلسہ میں مطالبہ کیا گیا کہ ‘‘پاکستان کے لیے آئین سازی کا کام کرتے ہوئے شیعہ فقہ کو پیش نظر رکھا جائے اور دستور ساز ادارے میں دوشیعہ علما کو شامل کیا جائے’’۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما ابو الاعلیٰ مودودی نے بھی اپنے ا س نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنا ضروری سمجھا کہ ‘‘ پاکستان لازماً جمہوری سیکولر سٹیٹ کے نظریے پر بنے گا’’ ۔ان کا خیال تھا کہ مغربی پاکستان سے غیر مسلموں کے انخلا کے بعد یہاں پر ان (مودودی) کے حکومت الٰہیہ کے تصور کے مطابق اسلامی نظام قائم ہوسکتا ہے۔ بعد ازاں 1953میں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی کمیٹی نے ان سے اس سیاسی قلا بازی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا ‘‘ 1946میں مغربی پاکستان کے علاقوں میں غیر مسلموں کی آبادی کا تناسب تقریباً 26فیصد تھا(پنجاب میں یہ تناسب 44فیصد تھا...و۔مسعود) اب یہ غیر مسلم یہاں سے چلے گئے ہیں نیز مشرقی پاکستان میں بھی غیر مسلموں کا تناسب کم ہوا ہے۔ اگر مشرقی پاکستان کی ایک الگ ریاست بنتی تو وہاں خالص اسلامی نظام نافذ کرنے میں مشکلات درپیش آتیں کیو نکہ وہاں غیر مسلم آبادی کا تناسب اب بھی 25فیصد ہے’’۔(جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism—part-viii-/d/2672