وجاہت مسعود
مولانا نے اس تاریخی بیان میں مزید فرمایا‘‘ اگر ہم پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کرلیں تو مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا ہندوستان میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے۔ ان پر منو کے قوانین کااطلاق کیا جائے۔ انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دیے جائیں۔’’
یہاں مولانا مودودی نے سب سے پہلے تو یہ تسلیم کیا کہ پاکستان میں ان کی طرف سے اسلامی نظام کے مطالبے کی وجہ یہ ہے کہ اب یہاں سے غیر مسلم جاچکے ہیں لہٰذا اب یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کاجواز پیدا ہوگیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آبادی کا تبادلہ یا پاکستان سے ہندو او رسکھ شہریوں کا انخلا تو تقسیم کےمنصوبے کا حصہ نہیں تھا۔ یہ لوگ تو فسادات کے باعث ترک مکانی پر مجبور ہوئے ۔ ایسی صورت میں یا تو علامہ شبیر عثمانی درست ہوسکتے ہیں جنہوں نے فرمایا کہ پاکستان شریعت کے نفاذ کے لیے بنا تھا یا مولانا مودودی درست ہوسکتے ہیں جنہوں نے کہا کہ غیر مسلموں کے انخلا کے باعث اسلامی نظام کے نفاذ کا جواز پیدا ہوگیا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں مولانا مودودی پورے پاکستان کی بجائے صرف مغربی پاکستان کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیو نکہ اگر 26فیصد غیر مسلم آبادی والے مغربی پاکستان اسلامی نظام کا نفاذ مشکل تھا تو 25فیصد غیر مسلم آبادی مشرقی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کیا جواز تھا۔ مولانا مودودی کے ارشادات سےتیسرا زاویہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد کسی جگہ پر اتنی بڑھ جائے کہ وہ زبرستی اپنا ترجیحی نظام مسلط کرسکیں تو انہیں ایسا کرگزرناچاہئے ۔ ایسی صورت میں مولانا مودودی کس اصول کے تحت متحدہ ہندوستان میں حکومت الہٰیہ کی ترویج کرتے تھے کیو نکہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی صرف 25فیصد تھی۔ واضح رہے کہ مولانا مودودی نے پاکستان پہنچنے کے فوراً بعد اپنے جریدے میں قیام پاکستان کو ‘درندے کی پیدائش’ سے تشبیہ دی تھی۔ مولانا مودودی کے مداح الطاف گوہر کویہ تشبیہ بھول گئی اور وہ فیض احمد فیض کی نظم آزادی کے مصرعے ‘‘ یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر’’ پر گوہر افشانیاں کرتے رہے۔
پاکستان کے مذہبی پیشواؤں کا خود ساختہ تصور جمہوریت اپنی جگہ تاہم معروف معنوں میں جمہوریت کا بنیادی اصول شہریوں کی برابری اور نظام حکومت میں حصہ لینے کا یکساں حق ہے۔ شہریوں کی مساوات کا بنیادی تقاضا ہے کہ ان میں جنس ،عقیدے ، زبان ،ثقافت یا مفروضہ ذات پات کی بنا پر کوئی امتیاز نہ کیا جائے۔یہ امر کہ ریاست میں مذہب کو سیاسی عمل اور انتظامی بندوبست میں بنیادی عامل قرار دینے سے شہریوں کے ساتھ امتیاز ی سلوک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد یہ مطالبہ کیا کہ ‘حکومت کے کلیدی عہدے صرف مسلمانوں کو دیے جائیں ’۔ یہی مطالبہ چند برس بعد وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کی برطرفی کے مطالبے پر منتج ہوا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا اور دسمبر 1947میں ظفر اللہ خان کو پاکستان کا وزیر خارجہ مقررکیا۔ قائد اعظم کی زندگی میں کسی مولوی کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ عقیدے کی بنیاد پر جوگندر ناتھ منڈل یا ظفر اللہ خان کی برطرفی کا مطالبہ کرے۔اس دلچسپ پہلو پر بھی نظر رکھیے کہ علما کا یہ مؤقف تھا کہ پاکستان میں قانون سازی کی بنیاد شریعت پررکھی جائے اور محمد علی جناح پاکستان کا وزیر قانون ایک ہندو کو مقرر کررہے تھے۔
1940سےلے کر 1947تک مسلم لیگ کا مؤقف یہ تھا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت پاکستان کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے کیا جائے گا۔ مسلم لیگ او رمولانا مودودی کی جماعت اسلامی کے مؤقف میں مفروضہ ہم آہنگی کا اندازہ مولانا کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے کہ سردار شوکت حیات کے بھیجے ہوئے سرکاری فوجی ٹرکوں پر سوار ہوکر لاہور پہنچتے ہی مولانا مودودی کو ہندوستان کے مسلمانوں کی یاد ایسی بھولی کہ انہیں اس امر کی پروا بھی نہیں نہ رہی کہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ شودروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے یا انہیں ملیچھ سمجھا جاتا ہے۔
تبادلہ آبادی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی مسلم اور غیر مسلم آبادی کے تناسب میں پیدا ہونے والی تبدیلی نے ملا کو موقع فراہم کردیا کہ وہ مسلم اکثریتی ریاست کو اسلامی ریاست بنانے گویا پورے کاروبار مملکت کو یرغمالی بنانے کا مطالبہ کریں۔ تقسیم ہند کا منصوبہ طے پانے کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ضمن میں مسلم لیگ کے مؤقف میں تبدیلی کے بارے میں کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
مشتاق احمد وجدی قیام پاکستان کے وقت ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے ۔ بعد ازاں پاکستان کے آڈیٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ اپنی کتاب ‘ہنگاموں میں زندگی’ کے صفحہ 148پر لکھتے ہیں۔
‘‘30مئی 1947کو شجاعت علی حسنی نے دلی میں متعین تمام مسلمان افسروں کو چائے کی دعوت دی۔ تاکید تھی کہ حاضری ضروری ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کیوں ؟ حاضر ہونے پر علم ہوا کہ قائد اعظم ،لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر او ر چند ر یگر بھی تشریف فرماہیں۔ چائے ختم ہوئی تو اعلان ہوا کہ قائد اعظم تقریر فرمائیں گے ۔ تقریر کے بعد ایک سوال کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا ‘‘ہندوستان کے مسلمانوں کی آئندہ سے ہندوستانی قومیت ہوگی۔ ان کو پاکستان سے کوئی واسطہ نہ ہو گا’’۔یہ سن کر مجھ پر سناٹا چھا گیا۔ پانچ کروڑ مسلمان اس فیصلہ سے ہندوستانی ہوں گے۔ کل تک ان سے وعدے کیے گئے تھے کہ ان کے لیے نیا ملک بنے گا جو جائے سکون ہوگا۔ اسی وعدے پر ان سے قربانیاں طلب کی جاتی تھیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے جان اور مال قربان کیا۔ آج ان کو دولفظوں سے تباہی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ دوقومیت کے نظریہ کو کیا ہوا۔ پھر خیال ہوا کہ آخر قائد اعظم ،لیاقت علی خان اور دوسرے رہنما بھی ہندوستان کے باشندے ہیں۔ یقیناً یہ ٹھہر یں گے اور ان کو سنبھا لیں گے۔ (تاہم ) یہ امید پوری نہ ہوئی ’’۔
چوہدری خلیق الزماں اپنی کتاب Pathway to Pakistanمیں لکھتے ہیں۔ ‘‘اب مسٹر جناح کو تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو درپیش شدید خطرات سمجھ آرہے تھے ۔ کراچی رخصت ہونے سے قبل یکم اگست 1947کو مسٹر جناح نے ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے مسلمان ممبروں کو مدعو کیا کہ ان سے رخصت ہولیں۔ مسٹر رضوان اللہ نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی حیثیت اور مستقبل کے متعلق مسٹر جناح سے چند ناگوار سوالات کیے۔ میں نے مسٹر جناح کو اس طرح لاجواب یا سٹپٹا یا ہوا کبھی نہیں دیکھا تھا کیو نکہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ جو ہونے والا تھا ، ان کی سمجھ میں صاف صاف آرہا تھا۔ یہ ناخوشگوار صورت حال دیکھ کر میں نے اپنے رفقا ئے کار سے کہا کہ یہ بحث بند کردیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس الوداعی گفتگو کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسٹر جناح نے بحیثیت نامزد گورنر جنرل اور صدر دستور ساز اسمبلی پہلا موقع ملتے ہی 11اگست 1947کو دوقومی نظریے کو خیر باد کہہ دیا’’۔(جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism—ix-/d/2682