وجاہت مسعود
ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی معروف جمہوری عمل سے بے گانگی کی کہانی بہت پیچھے جاتی ہے۔جدید سیاسی مکالمے کی بنیاد ایسی شناختوں پر نہیں رکھی جاتی جنہیں تبدیل نہ کیا جاسکتا ہو۔ مثال کے طور پر شہری اپنی نسلی شناخت ،زبان، ثقافت او ر عام طور پر عقیدہ تبدیل نہیں کرسکتے ۔ اگر ان شناختوں کی بنیاد پر سیاسی عمل کی بنیاد رکھی جائے تو معاشرہ نہ صرف مستقل اکثریت اور مستقل اقلیت میں بٹ کررہ جاتا ہے بلکہ ایسا معاشرہ درتقسیم کے عمل میں الجھ کر شکست و ریخت کاشکار ہو جاتا ہے۔ کیو نکہ ایک ہی شہر بیک وقت ایک سے زیادہ شناختوں کا حامل ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کوئی شہری زبان کے اعتبار سے ریاست میں اکثر یتی گروہ سے تعلق رکھتا ہو لیکن عقیدے کے لحاظ سے اقلیت میں ہو۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہوری عمل شہریوں کی نسلی ،مذہبی ،لسانی یا ثقافتی شناخت کو جھٹلا تا ہے۔ اس کے برعکس ان مختلف شناختوں کو تسلیم کرتے ہوئے اور ان کے تحفظ اور فروغ کو بطور نصب العین قبول کرتے ہوئے سیاسی عمل کی بنیاد معاشی و معاشرتی نظریات اور حکمت عملی پر رکھی جاتی ہے۔ مختلف مستقل شناختوں سے تعلق رکھنے والے شہری ایک ہی سیاسی نقطہ نظر یا سیاسی جماعت کاحصہ ہوسکتے ہیں اور وہ اپنی فہم اور اپنے ضمیر کی روشنی میں اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی خیالات تبدیل کر کے کسی دوسرے جماعت کی حمایت بھی کرسکتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جمہوریت میں مستقل اقلیت یا مستقل اکثریت نام کی چیز نہیں پائی جاتی ۔
1885میں آکٹیوین ہیوم نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد اسی اصول پر رکھی تھی ۔ اس جماعت کے دروازے کسی مذہبی ،لسانی ، نسلی یا ثقافتی گروہ پر بند نہیں کیے گئے تھے۔ تاہم مسلم اشرافیہ کے فکری سانچے ابھی تک 1857سے پہلے کی دنیا سے اخذ کردہ تھے ۔ مسلم اشرافیہ سمجھتی تھی کہ ہندوستان پر ساڑھے آٹھ سو برس تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا کاروبار حکومت میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ سلاطین دہلی سے لے کر مغل سلطنت تک ہندوستان پر معدودے چند مسلمان مسلمان گھرانوں کی حکمرانی تھی جو مٹھی بھر اشرافیہ کی مدد سے حکومت کرتے تھے۔ ان مراعات یافتہ مسلمانوں کی بڑی تعداد شمال وسطی ہندوستان میں آباد تھی۔ معاشی اور سماجی اعتبار سے یہ طبقہ جاگیر دار تھا ،جسے مسلمانوں حکمرانوں کی طرف سے محصولات جمع کرنے نیز لڑائی کی صورت میں افرادی قوت اور اسلحہ فراہم کرنے کے عوض جاگیریں بخشی گئی تھیں۔
انگریز حکمران ہندوستان کے جنوب مشرق سے حملہ آور ہوئے تھے ،جہاں کے باشندوں کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ ہندوستان کے اقتدار میں عدم شرکت کے باعث اس خطے کے عوام کی اکثریت نے نئے حکمرانوں کے خلاف کوئی خاص مزاحمت نہیں کی۔ چنانچہ تعلیم ،تجارت اور معاشرتی ارتقا میں ہندوستان کے جنوب مشرقی علاقے مسلم اکثر یتی آبادی سے قریب ایک سو برس آگے نکل گئے جو ہندوستان کے شمال مغرب میں آباد تھی۔
انیسوی صدی کے آخر ی حصے میں ہندوستان میں جدید سیاسی عمل کے آثار نمودار ہوئے تو شمال وسطی ہندوستان کی مسلم اشرافیہ کو خدشات پیدا ہوئے کہ جمہوری عمل کے نتیجے میں ان کی مراعات جاتی رہیں گی نیز یہ کہ ان کے پچیس فیصد ووٹوں کے مقابلے میں غیر مسلم بالخصوص ہندو ووٹوں کی تعداد پچھتر فیصد ہوگی چنانچہ وہ اپنے مفادات کا کما حقہ تحفظ نہیں کرپائیں گے۔ یہ خدشات بنیادی طور پر غلط سیاسی مفروضات مبنی تھے۔ ان خدشات کا اظہار انیسویں صدی کے مسلمان مصلح سرسید احمد خان کے اس خیال میں بھی ملتا ہے کہ مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس سے الگ رہنا چاہئے ۔1892میں ہندوستان میں پہلی مرتبہ مقامی سطح پر انتخابات منعقد ہوئے تو سر سید نے بڑے تاسف سے اپنے دوست کے نام ایک خط میں لکھا ‘‘صاحب! غضب ہوگیا، ہمارے شہر سے اٹھارہ مسلمان شرفا منتخب ہونے والے تھے، ایک بھی کامیاب نہیں ہوسکا ’’۔اس جملے میں ‘شرفا’ کی ترکیب پر غور فرمائیے اور پھر چند عشر ے بعد اقبال کا وہ گلہ یاد کیجئے جس میں انہوں نے جمہوریت کی ‘خامی’ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس میں بندوں کو تولنے کی بجائے گنا ہوجاتا ہے۔
جمہوریت کا بنیادی اصول ہی شہریوں میں حقوق اور رتبے کے اعتبار سے مساوات ہے۔ اس میں خاص وعوام کی تمیز نہیں کیو نکہ شہری ریاست کے رکن ہونے کی بنیاد پر کاروبار مملکت میں حصہ لیتے ہیں ۔ اپنے حسب نسب وعلم یا دولت کی بناپر انتخابات میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر حصہ نہیں لیتے ۔ انسانی مساوات کے فکری خاکے میں پیدائشی پرتری یا کمتری کا کوئی تصور موجود نہیں ہوسکتا ۔ جمہوریت کی یہ خوبی بدقسمتی سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں نسل درنسل ایک خامی کے طور پر بیان ہوتی ہے آتی ہے۔ کبھی اقبال نے لکھا کہ دوسو گدھوں کے مغز سے ایک انسان کی بو نہیں آسکتی ۔ 1970کے انتخابات ہارنے کے بعد جماعت اسلامی کے حامی شاعر سلیم احمد نے لکھا تھا‘مشرق ہار گیا’ ۔ بات یہ ہے کہ جمہوریت انسانو کو گدھوں اور شرفا میں تقسیم کر کے نہیں دیکھتی ۔کیو نکہ ایسا سمجھنا دراصل انسانو ں میں اونچ نیچ کو مستقل قرار دینا اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی جائز سعی کو لاحاصل قرار دینے کے مترادف ہے۔
10دسمبر 1948کو منظور کیے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی افتتاحی شق میں کہا گیا ہے کہ ‘‘تمام انسان حقوق اور رتبے کے اعتبار سے برابر پیدا ہوتے ہیں۔ تمام انسان عقل وخر د رکھتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ اخوت اور بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہئے’’۔
البتہ ہر ریاست میں کچھ ایسے علاقے ، گروہ اور طبقات موجودہوتے ہیں جو تاریخی ،جغرافیائی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتےہیں۔مثال کے طور پر پاکستان کے شمالی علاقوں میں کیلاش قومیت کے افراد آباد ہیں جو جغرافیائی محل وقوع ،زبان اور ثقافت کے اعتبار سے ایک پچھڑی ہوئی اقلیت ہیں اور انہیں بہت کم معاشی مواقع میسر آتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان میں رہنے والے ہندو ایک چھوٹی سی عددی اقلیت میں بدل گئے جس سے ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی حیثیت پرمنفی اثرات مرتب ہوئے ۔ جمہوری نظام میں مثبت اقدامات ،مراعات اور مختلف ترغیبات کی مدد سے ایسے علاقوں ،گروہوں اور طبقات کو ملک کے سیاسی ، معاشی اور سماجی دھارے سے جوڑ نے کی کوشش کی جاتی ہے جو کسی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں ۔ ایسے اقدامات مستقل نہیں ہوتے بلکہ ان کے لئے ایک خاص مدت کی حد مقرر کی جاتی ہے اور ان کامقصد معاشرے میں موجود تمام گروہوں او ر طبقات کے لیے ہموار سماجی ،ثقافتی ،معاشی اور سیاسی ترقی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ 1916میں لکھنو کے مقام پر قائد اعظم کی کوششوں سےکانگریس اور مسلم لیگ میں طے پانے والا میثاق لکھنؤ دراصل اسی ‘مثبت امتیاز’ کے اصول کی توثیق تھا۔ اسے مستقل طور پر مراعات کی سیاست کا پروانہ سمجھ لینا درست نہیں تھا۔(جاری(
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط10)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط11)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط12)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط13)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط15)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط17)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط18)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط19)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط20)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط21)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط22)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط23)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط24)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/obectives-resolution-secularism-part-24/d/2951