وجاہت مسعود
15 جنوری، 2013
وسطی افریقہ کے ملک روانڈا
میں توتسی اور ہو تو نام کے دو قبائل آبا د ہیں ۔ ہوتو اور توتسی میں سیاسی بالادستی کی کشمکش عشروں پرانی ہے۔ قبیلے ، عقیدے ، زبان اور نسل کے گرد گھومنے والی سیاست
تقسیم کرتی ہے اور اس کا ناگزیر نتیجہ جنگ و جدل ہوتا ہے۔ اٹھارہ برس قبل روانڈا میں
ہونے والے ہو لناک قتل عام کے دنوں کی بات
ہے، ہو تو قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک دانشور صورتحال کاتجزیہ کرتے ہوئے تو تسی قبیلے
میں کیڑے ڈال رہا تھا ۔ دنیا میں کوئی ایسی برائی نہیں جو اس نے توتسی قبیلے سے منسوب
نہیں کی او ر تان یہاں توڑی کہ توتسی لوگوں نے روانڈا کو تباہ کردیا ہے۔ سننے والے
نے بات پا جانے کے انداز میں سرہلا یا اور
کہا ہاں توتسی قبیلے نے اور خرگوشوں
نے روانڈا کو تباہ کردیا ہے۔ دانشور نے چونک کر کہا، خرگوش کہا ں آگئے اور انہوں نے کیا کیا ہے ۔ جواب ملا ، وہی
جو توتسی قبیلے نے کیا ہے۔ یہ نیم سیاسی حکایت مجھے برادرم وصی شاہ کی بات سن کر یاد آئی کہ ہم مذہبی انتہا پسندوں او رلبرل انتہا پسندوں
میں پس رہے ہیں ۔ عرض کرنا چاہا کہ مذہبی انتہا پسندوں کو چھوڑئیے وہ تو ہمیں چند در
چند وجوہات کی بنا پر یوں بھی بہت اچھے لگتےہیں ۔ اصل میں یہ کہئے کہ ہم توتسی قبیلے اورلبرل انتہا پسندوں کے گھیرے
میں ہیں۔ کوئی پوچھے کہ یہاں توتسی قبیلہ کہا ں سے آیا، تو جواب یہ ہے کہ صاحب اس
ملک میں تولبرل بھی نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا ۔ یہاں تعلیم یافتہ
شہری طبقے پر لبرل کالیبل لگا کر اسے طعن و تشنیع
کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ معاشرے
میں بد حالی اور قتل و غارت کی ساری ذمہ داری اس گروہ کونہ اٹھانی پڑے جسے ہم چھاؤں
میں رکھنا چاہتے ہیں۔
سیاست کی لغت دو ٹوک نہیں
ہوتی ۔ اس لئے سیاسی رائے عامہ تشکیل دینے والوں کو ضرورت پیش آتی ہے کہ مجرم و اصطلاحات
کو عام فہم صورت بخشی جائے ۔ ایسے معاشروں
میں جہاں ریاست نظریاتی چولا پہن لیتی ہے،
سیاسی مکالمہ زیادتی علامتی صورت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ رائے کے اظہار پر پابندیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر معاشرے میں مقبولیت پسند
سیاست دخل پا جائے تو بھی سیاسی اصطلاحات کا مفہوم گڈ مڈ ہوجاتا ہے ۔آمریت کی مزاحمت کرنے والوں کو اپنی بات زیادہ احتیاط سے کرنا پڑتی
ہے۔ ہم نے پاکستان میں نظریاتی ریاست، مقبولیت پسند سیاست اور طویل آمریتوں کے عذاب
جھیلے ہیں۔ اس سے ہمارے سیاسی بیا نیے پر گہرے
منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں انتہا پسند ، سیکولر او رلبرل کی اصطلاحات نہایت
ڈھیلے ڈھالے انداز میں استعمال کی جاتی ہیں
اور ا ن سے واضح ابلاغ کی بجائے گرد اڑانا مقصود ہوتا ہے۔
انتہا پسندی بذات خود کوئی
سیاسی تصور نہیں بلکہ ایک نسبتی معیار ہے۔
اگر آپ مجھ سے کسی معاملے پر اختلاف کرتے ہیں
اور ہم دونوں کسی سمجھوتے پر پہنچنے
میں ناکام رہتے ہیں تو آپ خیال کریں گے کہ کیسا انتہا پسند آدمی ہے، سامنے کی بات نہیں سمجھتا
لیکن سچ یہ ہے کہ اختلاف رائے انتہا پسندی کا پیمانہ نہیں ۔ بانوقدسیہ نے اپنی کسی
تحریر میں خواتین کے لباس کے تناظر میں انتہا پسند ی کے رنگ گنوائے ہیں ۔ڈبل نقاب اوڑھنے
والی خاتون چادر پہننے والی کو بے پردہ سمجھتی
ہے اور چادر اوڑھنے والی خاتون دو پٹہ گلے میں ڈالنے والی عورت کو بے حجاب سمجھتی ہے۔ دوپٹے کا اہتمام کرنے والی خاتون سمجھتی ہے
کہ پتلون پہن کر شاپنگ کرنے والی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ اگر اس طور پر دیکھا جائے
تو جو بھی ہم سے مختلف ہو، ہم اسے انتہا پسند قرار دے دیں۔ وہی مشتاق احمد یوسفی کے ‘‘ بشارت صاحب’’ کے خسر کا قصہ کہ جو ہم سے ایک
برس چھوٹا ہے وہ لمڈا کہلائے اور جو ایک سال بڑا ہے اس پر بوڑھے کی پھبتی چست کی جائے ۔ نہیں بھائی، انتہا پسندی کی ایک سادہ
تعریف موجود ہے۔ اجتماعی مکالمے میں جو فرد
یا گروہ خود کو صحیح اور دوسروں کو گمراہ قرار
دے کر اختلاف رائے کا راستہ روکے ، وہ انتہا
پسند ہے۔ سیاسی عمل میں جو فرق دلیل کا راستہ چھوڑ کر ہتھیار اٹھالے ، وہ انتہا پسند
ہے۔
ہمارے ہاں سیکولر ازم تو ایسی
گالی ہے کہ ایک دوست اخبار میں کسی عزیز پر سیکولر ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو دوسرے
بھائی مدافعت میں لکھتے ہیں کہ نہیں جناب، آپ نے انہیں سیکولر قرار دے دیا۔ میں انہیں
ذاتی طور پر جانتا ہوں ، وہ تو نہایت دین دار اور شریف انسان ہیں۔ بالواسطہ مفہوم یہ
کہ سیکولر ہونا تو گویا مذہب مخالف ہونے یا
بد باطن ہونےکا اعلان ہے۔نہیں بھائی ، سیکو
لرازم تو ایک سیاسی نظام کا نام ہے جس میں سب عقائد کے یکساں احترام کی ضمانت دی جاتی
ہے ۔ سیکولر نظام میں کسی عقیدے کے ماننے والوں کو غلط یا صحیح قرار دیئے بغیر سب شہریوں کے جان و مال کی حفاظت
کی جاتی ہے ۔ سیکولر حکومت میں اجتماعی فراست
کوبروئے کار لاکر تمام شہریوں کے معیار زندگی
کی ضمانت دیتی ہے ۔ سیکولرازم او رمذہب میں کوئی تصادم نہیں۔سیکولر ازم اور
تھیوکریسی میں تصادم موجود ہے اور یہ تصادم عقیدے سے نہیں ، سیاسی نقطہ نظر سے تعلق
رکھتا ہے ۔ سیکولر مکتب فکر کی رائے ہے کہ نظام حکومت میں کسی ایک عقیدے کو ترجیحی درجہ دینے سے فرقہ واریت او رمذہبی امتیاز کا راستہ
روکنا ممکن نہیں رہتا ۔
لبرل کا خطاب بھی اپنے ہر مخالف کے سر منڈھ دیا جاتا ہے ۔کسی کا لباس پسند
نہیں آئے تو وہ لبرل ۔ کسی کا رہن سہن ناپسندیدہ ہوتو اسے لبرل کے لقب سے متہم کردیا
جاتا ہے اور جو ملک میں غالب سیاسی بیانیے
کی مخالفت کرے وہ لبرل فاشسٹ ۔ صاحب لبرل ازم لباس اور انسانوں کی دیگر شخصی ترجیحات
سے مملو نہیں ۔ لبرل ازم تو زندگی کے امکانات کی دریافت کے لئے درکار حوصلے کا نام
ہے۔ اس کے ڈانڈے اٹھارہویں صدی کی روشن خیالی سےملتے ہیں اور اس کے تین بنیادی نکات
ہیں، علم دوستی، استحصال کی بجائے پیداوار سےشغف اور دوسرے انسانوں کی تکلیف کا احساس
۔ لبرل سوچ معاشرت کے کسی بندھے ٹکے سانچے کا اسیر ہونے کی بجائے انسانوں کے لئے آسانیاں
ڈھونڈنے کا نام ہے۔ ہر عہد میں روایت سے ٹکرا نے والے حریت پسند ہی حقیقی لبرل تھے اور انسانی تاریخ ان کی جرأت اور عزیمت سے عبارت ہے اورفاشسٹ لبرل کی اصطلاح تو ہم عصر
امریکی قدامت پسند جونا گولڈ برگ کی دین ہے۔
1969 ء میں پیدا ہونے والے گولڈ برگ نے 2008 ء میں ‘ لبرل فاشزم’ کے عنوان سے ایک کتاب
لکھی تھی جس میں مسولینی اور ہٹلر پر لبرل ہونےکانام رکھ کر ہم عصر امریکی روشن خیالوں
کی بھداڑانا مقصود تھا۔ سبحان اللہ ! جارج بش اور ڈگ چینی سے ایسا اختلاف اور ان کے فکری گرو گولڈ برگ سے شیفتگی
۔ فسطائیت سے ٹکرانا ہی مقصود ہوتو ہمارے ہاں فسطائی سوچ کے نمونے بہت ہیں۔ فسطائیت
کی پہچان کا حوصلہ تو پیدا کریں۔
15 جنوری، 2013 بشکریہ : روز
نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL: