وحید رضوی
ذہن و ادراک ، احساسات و مشاہدات ، تجسس تحقیق و تجربات سے حاصل کئے ہوئے ہر شعبہ پر محیط منظّم اور منضبط علوم کا نام سائنس ہے جن کا منبع و مظاہر فطرت ،قوانین قدرت اور اقدار ہیں جو اللہ کی تخلیق کردہ کائناتوں کی فضاؤں میں موجود ہر ذرہ شے اور قوت و توانائی او رزمین کی بیرونی سطح پر موجود جمادات ، نباتات و حیوانات اور اس کی اندرونی سطح میں پوشیدہ تمام تر معدنیات ، عناصر اور ان کے مرکبات ہیں ۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی خاص تخلیق یعنی انسان جو کہ خود سراپا کائنات ہے اس میں پنہاں تمام بسیط اور مربوط نظام ہائے زندگی بھی اسی علم کا ایک اہم ترین شعبہ ہیں ۔
دنیا میں جب انسان کا وجود عمل میں آیا اور زمین پر اس نے اپنی آنکھ کھولی تو خود کو خوفناک ترین او ربھیانک ماحول میں گھرا ہوا پایا ۔ چاروں طرف دہشت خیز جنگلات ، وحشی اور خوفناک خونخوار درندے ، سر بفلک پہاڑ، ندی نالے، سمندر اور ان کی طوفان انگیزیاں ، بادلوں کی چمک، کڑک او ر گرج، طغیانیاں ، سیلاب اور زلزلے الغرض یہ ناتوں ، کمزور اور بے سرو سامان انسان ہمیشہ پریشان رہتا ۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہورہا ہے اور اس سے محفوظ رہنے کا کیا طریقہ ہے۔
علت و معلول (Cause & Effect) کے قانون سے نا آشنا ، فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنے کے علم سے ناواقف اور حادثات اور اتفاقات کے ایسے خطرناک ہجوم میں گھر ا ہوا اور کسی مدافعت کے ذرائع و سامان سے محروم انسان خود کو لازمی طور پر مجبور سمجھنے لگا ۔ لیکن قدرت نے تو انسان کو ذہن و ادراک ، سمجھ بوجھ اور اختیار و ارادہ جیسی قوتوں سے نوازا ہے جن کے ذریعہ اسی انسان نے زندگی کے معمولی معمولی تجربوں ، تجسس و تحقیق اور مشاہدات سے رفتہ رفتہ ان فوق الفطرت قوتوں اور خارجی کائنات میں علت و معلول کے رونما ہونے کے راز اور قوانین کا رفتہ رفتہ علم حاصل کرتا گیا اور جو قوانین کا ر گہ عالم میں سر گرم عمل ہیں ان کو مسخر کرنے لگا۔ انسان کو اس راز کا علم ہوگیا کہ وہ مجبور نہیں بلکہ خود اشیا ئے کائنات اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجبور بنائے گئے ہیں ۔ اشیائے کائنات سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اشیا ئے کائنات کو انسان سے خوف کھانے کی ضرورت ہے ۔ کائنات میں موجود تمام اشیاء ، قوتیں اور توانائیاں اس کی خادم اور ساجد ہیں اور خود انسان ان کا مخدوم ہے او رمسجود ہے۔
جن قوانین کے تحت خارجی کائنات میں اشیاء قوتیں اور توانائیاں سر گرم عمل ہیں انہیں قانون علت و معلول ( Cause & Effect) کہا جاتا ہے لیکن انسانی دنیا میں اس کو قانون مکافات عمل کہتے ہیں ۔ جس کا مفہوم ہے کہ انسان کے ہر عمل حتیٰ کہ اس کے دل میں گزر نے والے خیالات تک کا ایک متعین نتیجہ مرتب ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود کو احسن الخالفین کہا ہے یعنی تخلیق کرنے والوں میں سب سے زیادہ حسن و رعنائی او رصحیح ترین توازن کے ساتھ پید ا کرنے والا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی کوئی تخلیق کرنے والا ہے؟ اور یہ ہے انسان جو اس صفت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس نے اپنی الوہیاتی توانائی کا ایک شمہ انسان میں ڈال دیا ہے جس کے تحت اس میں تخلیق کی یہ صلاحیت اجاگر ہوتی ہے ۔ لیکن انسان اللہ جیسی تخلیق نہیں کرسکتا ۔ جس نے ہر شئے ، ہر قوت اور ہر توانائی کو عدم سے وجود بخشا ہے۔
انسان صرف اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ اشیاء قوتوں اور توانائیوں کو ان کے مقرر کردہ قوانین ، فارمولوں اور ضابطوں کے تحت ہی اپنے تخلیقی عمل میں لا سکتا ہے اور اس سے یہ عمل اسی وقت بروئے کار آتا ہے جب وہ فطرت شناس بن جائے ۔ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے ، کان سنتے ہیں ، حس محسوس کرتی ہے سب فواد (Mind) کے رو برو پیش ہوتا ہے ۔ ان مشاہدات و تجربات سے فواد ( Mind) جو نتیجہ اخذ کرے وہ علم کہلاتا ہے ۔ آج کی زبان میں اسی کو سائنس کہتے ہیں ۔ قرآن کریم نے علم کی یہی تعریف کی ہے۔ مظاہر فطرت و قدرت کے مشاہدات ، تحقیق و تجربات کے ذریعہ نتیجہ اخذ کرنے والے ہی عالم اور آج کی زبان میں سائنٹسٹ ( فطرت شناس) کہلاتے ہیں ۔
آج سے ہزاروں سال قبل انسان نے زندگی کے ابتدائی دور میں مشاہدات اور تجربات پر مبنی جو نتیجہ اخذ کیا اسی علم کی بناء پر پہیہ (Wheel) ایجاد ہوا ۔ جس نے معاشرت او رتمدن کی کایا ہی پلٹ دی۔ یہی پہیہ ہے کہ جس کی باعث بری، بحری اور فضائی رسل اور حمل و نقل کے تمام ذرائع اپنےبام عروج پر ہیں ۔ دنیا کی تمام صنعتیں ، زرعی آلات، افزائش ، توانائی ، آلات دفاع و حرب معمولی سے معمولی گھڑی اور فضاؤں میں سفر کرنے والے تمام آلات اور مشینیں اسی پہیہ کی رہین منت ہیں ۔ علاوہ ازیں انسان نے اپنی بصارت، سماعت او رمحسوسات کے ذریعہ جسم انسانی میں پوشیدہ تمام تر نظام ہائے زندگی ، روئے زمین اور سمندر میں جاندار اور بے جان مخلوق اور اشیاء سے متعلق ہر شے کاعلم حاصل کرتا گیا او رکرتا چلا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فضا ئے بسیط کی کائناتی قوتو ں اور توانائیوں کو اسی علم کی بدولت رفتہ رفتہ مسخر کرتا چلا جارہا ہے ۔ اس طرح انسان سائنٹسٹ ( فطرت شناس) بن گیا ہے اور اب وہ کائنات کی فضاؤں میں محو سفر ہے اور اس کی تحقیق اور تجزیوں کےباعث قدرت کے راز ہائے سر بستہ پر پڑے ہوئے پردے اٹھتے جارہے ہیں ۔
انسان کے تجسس ،تحقیق و تجربات اور ان کے نتائج پرمبنی علم کی روشنی میں تخلیق عمل کا دائرہ کوئی ڈیڑھ صدی قبل سے وسیع ہوا اور جنگ عظیم دوئم کے اختتام یعنی 1945 کے بعد اس کی رفتار میں تیزی آگئی ۔ ویسے کئی جہت سے اس کا بول بالا ہوا جنگ عظیم دوئم سے کچھ ہی عرصہ قبل جوہری توانائی کی دریافت ایک بڑا کارنامہ ہے اور عظیم ترین انسانی تخلیق کمپیوٹر کی ایجاد اور اس سے متعلقہ شعبہ جات ہیں۔ مواصلاتی سیاروں کے ذریعہ رسل و رسائل او رپیغامات کی ترسیل کے ایجاد کردہ نظام نے ساری دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔ یہ ساری کامرانیاں اور کامیابیاں ان ہی علوم کی بدولت حاصل ہیں جن کو انسان اپنے مشاہدات ، تجسس اور تحقیق و تجربات کے تنائج سے حاصل کرتا جارہا ہے ۔ انسان کا ذہن رسا اپنی تصوراتی اہلیت و صلاحیت کی وجہ سے نئے نئے نظریے قائم کرتا جاتاہے اور تحقیق و تجربوں اور اس سے حاصل کردہ علم پر مبنی تخلیق کے ذریعہ ایجادات و اختراعات کرتا جاتا ہے ۔ انسان کے اندر قدرت نے خیالات کےابھرنے او رنئے نئے تصورات کی تشکیل اور قیام کی صلاحیت بھی و دیعت کی ہوئی ہے۔
اس کے پیش نظر اس نے عہد ماضی میں ایسے ایسے تصورات کی تشکیل دی اور ان کو ایسی اشکال میں پیش کیا کہ صدیوں بعد انہوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا ۔ الف لیلہ کی کہانیوں کےطلسم جیسے جام جہاں نما، اڑن کھٹولا، کل کا گھوڑا، بولتی چڑیا، گاتی مینا وغیرہ آج ٹیلی ویژن ،ہوائی جہاز، ریڈیو ، راکٹ وغیرہ جیسی ایجادات کے ذریعہ ایک حقیقت بن چکے ہیں ۔ اور زندگی کے ہر قدم پر ایسے کئی طلسم ہو شربا حقیقت کے لباس کے طور پر وجود میں آچکے ہیں اور آتے جارہے ہیں ۔ حالیہ تیار کردہ ایک فلم اسٹار ٹریک ( Star Treck) ٹی وی پر دکھائی جاتی رہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مجسم اور مادی انسان کو توانائی میں تبدیل کر کے پلک جھپکتے دوسرے دور دراز مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے ۔ جہاں وہ پھر مجسم او رمادی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ مادہ اور توانائی کے ایک دوسرے میں تبدیلی کےنظریہ اور تصور کو دنیا کے مشہور او رمایہ ناز سائنس دان آئن سٹائن نے اسی صدی ( بیسوی صدی) میں پیش کیا تھا اور ان ہی تصورات اور نظریہ پر مبنی فلم تیار کی گئی ۔شاید وہ دن دور نہیں کہ یہ تصور و نظریہ بھی حقیقت کا روپ دھارلے۔ انسان جو خود سراپا ایک کائنات ہے، اپنے جسم ، اس کے ظاہر و پوشیدہ اجسام و اعضاء ، حرکات و سکنات ، مہین ترین ذرات و خلیات ، ذہن و شعور و حافظہ ، تمام نظام ہائے زندگی ، نفسیات ، تو ہمات اور وسوسوں کی تجسس و تحقیق میں عرصہ سے منہک ہے اور مزید راز ہائے سربستہ کا علم حاصل کرکے یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ایک مہین ترین پٹری کے ذریعہ دل کی بند ہونے والی مشین کو دوبارہ حرکت پذیر بنا دیا جاتا ہے۔ انسانی ساختہ دل سے قدرتی دل کو تبدیل کرکے زندگی کو برقرار اور بحال کیا جاتا ہے ۔ دوران خون کی رکاوٹ کو بائی پاس ( Bye Pass) آپریشن کے ذریعہ دور کردیا جاتا ہے ۔ اعضاء کی پیوندکاری کے ذریعہ مختلف معذوریوں کو دور کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح زندگی سے متعلق ایسے کار ہائے نمایاں انجام دئے جارہے ہیں کہ خود انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے ۔ زندگی کے ابتدائی دور اوربچپن کے حالات کےنفوش انسانی حافظہ پر مرتسم ہوجاتےہیں جو عمر کے اگلے مراحل میں اس کے سلوک و برتاؤ اور اندرونی احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کے باعث وہ بعض اوقات ذہنی عدم توازن اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتاہے ۔ ان امراض اور عدم توازن کا تحلیل نفسی ( Psychonalysis) کے ذریعہ پتہ چلا یا جاتا ہے۔ اسی کو علم نفسیات ( Psychology) کہا جاتا ہے ۔ ان امراض و عدم تواز کے علاج و معالجوں میں روز افزوں ترقی ہوتی جارہی ہے۔
ابتداء ہی سے انسان کی ساری جد و جہد اور تحقیق و تجربات سے حاصل کردہ علوم سے نت نئی اختراعات و ایجادات کا مقصود خود اپنی دنیا کی تعمیر و ترقی کررہا ہے ۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ کے ساتھ ساتھ اپنی رہائش او ران کی زیب و زینت کی راہیں بھی ان ہی ذرائع سے دریافت اور ایجاد کیں ۔ فن تعمیر اور انجینئرنگ کے اصول ، نئے نئے ڈیزائن او رنمونے ، لوہے، لکڑی، سیمنٹ وغیرہ کی نئی نئی ترکیبوں اور بناوٹوں کے استعمال سے آج دنیا کے تعمیراتی عجائبات نے جنم لیا۔ ساتھ ہی ساتھ تجربات سے حاصل کردہ علوم پر مبنی طبقات الارض ، نباتاتی اور زراعتی ترقیات اپنے بام عروج پر پہنچ چکی ہیں۔
انسان نےموجودہ دور میں اپنے تجسس ، تحقیقات وغیرہ کے دائرہ کو بے حد وسیع کرلیا ہے۔ قانون فطرت کے تحت انسان کی پیدائش سے متعلق دنیابھر خصوصاً یورپ او رامریکہ میں بڑی ریسرچ ہورہی ہے۔ قانون الہٰی کےمطابق رحم مادر میں جنین کو جو شکل عطا ء ہوتی ہے اسی کے تحت نر اور مادہ کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ تجربات کے ذریعہ ان عناصر میں ایسی تبدیلی کی کوشش ہورہی ہے کہ جن کی رو سے جنین کی جنسی ترکیب میں تبدیلی آجائے اور اس طرح اپنی مرضی کے مطابق لڑکا یا لڑکی پیدا کی جاسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں تمام اشیائے فطرت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہے اور جب وہ ان کا علم حاصل کرلے تو انہی قوانین کے مطابق تخلیقی ترکیبات کے ذریعہ حسب منشاء نئی شکلیں بھی دے سکتا ہے ۔ چنانچہ نباتات اور حیوانات میں انسان نے اس طرح کی کافی تبدیلیاں پیدا کرلی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا تخلیقی قانون غیر متبدل ہے لیکن اسی قسم کی تبدیلیاں اسی قانون کا علم حاصل کرنے سے ممکن ہیں اور انسان اس سائنس یعنی علم کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے او رکامیابی حاصل کرتا جارہا ہے۔
پسماندہ او ر ترقی پذیر ممالک میں جدید طبی سہولتوں کے فقدان اور ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے باعث بیشتر بیمار اور حادثات سے دو چار افراد ہلاکت کاشکار ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے اکثر متمول اور صاحب حیثیت لوگ بعض مشکل اور پیچیدہ آپریشن کے لئے یورپ اور امریکہ کا رخ کرتے ہیں ۔ اب انسان نے تجسس ، تحقیق اور تجربوں سے قدرت کی تخلیق کردہ قوتوں ،توانائیوں اور فارمولوں کو مسخر کر کے ان مشکلایت کا حل تلاش کرلیا ہے اور اس سمت بے پناہ صلاحیتیں حاصل کرتا جارہا ہے ۔ سیٹیلائٹ کمیونی کیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور روبوٹ ٹیکس (Robot Tecks) کی مدد سے اس خواب کو حقیقت بنا رہا ہے ۔ امریکہ یا یورپ کے کسی شہر میں مقیم ماہر امراض وہیں بیٹھے بیٹھے اس مسترکہ نظام کی مدد سے بعید ترین فاصلے پر موجود کسی مریض کا روبوٹ کے ذریعہ کامیاب آپریشن انجام دے سکتاہے ۔ اس مشترکہ نظام کی ٹیکنالوجی کو قدرت کی توانائیوں سے حاصل کردہ علم کے تحت رفتہ رفتہ مربوط اور کامیاب بنایا جارہا ہے ۔ اس آپریشن کو ریمورٹ کنٹرول سرجری کا نام دیا گیا ہے ۔ اس آپریشن کو کنٹرول کرنے والا سرجن سرپر ایک مشینی ہیلمٹ اور ہاتھوں میں کمپیوٹر سے مربوط دستانے پہن کر مقام آپریشن پر موجود روبوٹ کو حرکت دے سکے گا جس سے اس کے بازوؤں کی حرکت ایک انچ کے دس لاکھ حصے تک درست ہوگی۔
متذکرہ بالا تحریر سے اس امر کااظہار مقصود ہے کہ علوم مظاہر فطرت یعنی سائنس بذات خود کوئی علیحدہ شعبہ نہیں ہے۔ یہ ایک بے حد وقیع و بسیط مضمون ہے اور جس قدر بھی ا س پر قلم آزمائی کی جائے کم ہے ۔ خدا کی تخلیق کردہ ہر شئے توانائی اور ہر کائناتی نظام اپنی صفات اور خصوصیات کے لحاظ سے مختلف نوعیت او ر عوامل کے حامل ہوتےہیں ۔ ان کے ہر علم کو سائنس ہی کہا جاتا ہے اور اس طرح ہر نوع کی سائنس ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے ۔ اقوام عالم میں عموماً او رمسلمانوں میں خصوصاً اس علم یعنی سائنس کو بحیثیت مجموعی ایک علیحدہ اور مخصوص شعبہ تصور کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔
مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے نام نہاد روایتی علماء اس علم یعنی سائنس کے حصول اور اس سے مستفید ہونے کو کفر کا درجہ دیتے ہیں۔ بر صغیر ہندو پاک میں ان فرقوں کے قائم کردہ ان گنت دینی مدارس میں ان علوم کو نصاب میں شامل ہی نہیں کیا جاتا او رنہ ہی اس کی بابت تعلیم دی جاتی ہے ۔ نتیجتاً ان درس گاہوں سے فارغ لوگ ان امور سےبے بہرہ ہوتے ہیں ۔ دیگر تمام مدارس اور کالج میں جہاں اس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی صرف نظریاتی ہوتی ہے۔ نتیجتاً آج دنیا کے تمام مسلم ممالک اس ترقی یافتہ زمانے میں دیگر اقوام عالم سے صدیوں پیچھے ہیں ٹیکنالوجی وغیرہ ان کی دسترس سے باہر ہے۔ بدیں وجہ وہ دیگر ترقی یافتہ اقوام کے ہر معاملے میں محتاج ہیں ۔
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-concept-reality-science-/d/100056