وحید عبد المغید
28 جنوری 2016
داعش (الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام) کی لعنت جتنی زیادہ وسیع ہوتی جا رہی ہے فوجی اور سیکورٹی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اتنی ترجیح حاصل ہوتی جاری ہے۔ یہ 13 نومبر کو پیرس حملوں کے بعد سے بالکل واضح ہے۔
دہشت گردی کے خلاف کھلی جنگ یا اس کا استعمال بہانے کے طور پر کیا جانا عروج پر ہے اور سیکورٹی نقطہ نظر کو باقی تمام چیزوں پر غلبہ حاصل ہے۔ ایک غیر متعینہ عبوری مدت تک بشار الاسد کی حکومت کو تسلیم کرنے کے تئیں بعض مغربی ممالک کے رجحان میں بھی تبدیلی مزید واضح ہو چکی ہے۔
لہذا، اس کے فروغ کے بعد مزید مقصدیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ اس مفروضے پر بحث و مباحثہ کرنا ایک ایسی ضرورت ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو چکی ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہے، تو جب کوئی چیز ایک خاص لمحے میں زیادہ چمکتی ہے اور خاص طور پر جب کسی خطرے یا خوف کے دباؤ کے تحت ایسا ہوتا ہے تو وہ بھی سونا نہیں ہے۔
فی الحال، ترجیح کا مفروضہ دہشت گردی پیدا کرنے کرنے والے عوامل کے بجائے دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ ہے۔ یقیناً یہ ترجیح الجھن کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے ، جو باہم مربوط حقائق اور عوامل کو جدا کرتے وقت پیدا ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ ایک ناقابل تقسیم فارمولے کی تشکیل کرتے ہیں۔
اعلیٰ سطح کا ظلم و ستم دہشت گردی کی ایک قسم ہے جسے بین الاقوامی قانون میں ریاستی دہشت گردی قرار دیا گیا ہے۔ یہ دہشت گردی "سیاہ" دہشت گردی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے جسے عالمی ایجنڈے میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
یہاں بنیادی عیب یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت دو علیحدہ چیزیں نہیں ہیں کہ جن سے کامیابی کے ساتھ نمٹا جا سکے۔ یہ دعوی کہ پہلے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ضروری ہے ایک پر فریب تجربہ ہےجو اس بات کی طرف غماز ہے کہ ظلم و ستم کا ماحول اس سے کہیں زائد دہشت گرد پیدا کرتا ہے جتنے کسی بھی جنگ میں ہلاک کیے جاتے ہیں یا قید کیے جاتے ہیں۔
ظلم و ستم صرف سیاسی نہیں بلکہ اپنے تمام تر سماجی، اقتصادی اور ثقافتی اثر و رسوخ کے ساتھ "بلیک دہشت گردی" کے انتہائی اہم عوامل میں سے ایک ہے جسے 1960 کے اوئل سے انتہاپسند مذہبی تشریحات میں "دانشور حیلہ" ملتا ہے۔
دہشت گردی اور ظلم کے درمیان تعلق بہت قدیم ہے اور داعش رجحان سے بہت پہلے سے موجود ہے۔
دہشت گردی کے محرکات کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قدامت پسند مارکسی "نظریات" کے زوال کے بعد ایسے کچھ معروضی حالات موجود تھے جس نے نوجوانوں کے گروہوں کو جابر حکومتوں کے خلاف بغاوت کو برانگیختہ کرنے والے نظریہ کی تلاش پر آمادہ کیا۔ انہوں نے انتہا پسند فقہی تصورات میں اپنی کھوئی ہوئی اتھارٹی کو تلاش کیا۔ یہ دہشت گردی حکومت کی جیلوں میں مطلق العنانیت کو عروج بخشنے والے اندھیروں سے ظاہر ہوا۔ اس کے بعد انہیں "مذہبی قانونی" کی تقریب انجام دینے کے لئے انتہا پسند فقہی تشریحات کو دقیانوسی کتابوں سے اخذ کیا گیا۔
یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب ظالم و جابر حکومتوں نے پر امن تبدیلیوں کا دروازہ بند کر دیا۔ جن لوگوں پر یہ دروازے بند کر دیے گئے ان میں سے کچھ لوگوں نے تشدد کا سہارا لیا۔ ظلم و ستم نے ان عوامل کی قیادت کی جو انہیں دہشت گردی تک لے گئے۔ اس کے ابتدائی ایام میں یہ حالات ظلم و ستم، جبر اور ناانصافی کی وجہ سے تھے۔
لہذا، سیاہ بینر برداروں نے شریعت (اسلامی نظام قانون) اور دیگر تصورات کا ان کی سخت ترین تشریحات کا استعمال کرتےہوئے جہاد، وفاداری اور دشمنی جیسے تصورات کا استعمال شروع کر دیا، اور انہوں نے ان کی از سر نو تعبیر و تشریح مسلح تشدد کے تئیں اپنے رویہ کے مطابق پیش کی۔ 1960 میں مصر میں جب مسلح "مذہبی" تنظیمیں قائم کی گئیں تھیں تو یہی ہوا تھا۔
اس پس منظر میں القاعدہ کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری کا تجربہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شخص دو قدیم خاندانوں (الظواہری اور اعظم) کی اولاد ہے، اور یہ میڈیکل سائنس کے ایک ذہین ظالب علم تھا، لیکن اس نے دہشت گردی کی طرف کےجانے والی انتہا پسندی کا راستہ اختیار کر لیا۔
ان کی کتاب (Knights under the Prophet’s Banner) میں مذکور ان کی تبدیلی کی کہانی سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کہ کس طرح 1966ء میں سید قطب کی پھانسی نے ان کی تحریروں سے زیادہ انہیں متاثر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے کہ "میں نے قطب کے الفاظ کو ان کےخون کے ساتھ ملا کر پڑھا ہے۔"
اگر سید قطب کو پھانسی نہیں دی جاتی تو ہوسکتا تھا کہ قطب نے جو لکھا ہے اسے بھلا دیا جائے۔ ان کے مطابق چند مارکسی نظریہ سازوں کے درمیان "عارضی مہرے" کا نظریہ "اعلی درجے کی مہرے" یا ‘‘ادنیٰ درجے کے مہرے’’ سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن ان کی پھانسی نے اس میں ایک "لڑائی" کے ایک معنیٰ کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح، ظالم و جابر حکام کے خلاف برہم اور بھڑکے ہوئے باغیوں نے ان حکام کے خلاف دہشت گردی کو جہاد ثابت کرنے کے لیے "مذہبی جواز" تیار کرنے کی ضرورت کے پیش نظر اس کو از سر نو ترتیب دی۔ انہوں نے ان حکام کو نہ صرف یہ کہ ظالم و جابر سمجھا بلکہ "کافر" انہیں کافر بھی گردانا۔
ظلم و ستم اور کفر و الحاد کے درمیان یہ تعلق اسی دور میں میڈیا میں ‘‘التکفیر و الہجرۃ’’ کے نام سے مشہور ‘‘جماعت المسلمین’’ کے بانی شکری مصطفی کے لیے بھی واضح تھا۔ اسے اس بات پر حیرانی تھی کہ کیا واقعی 1960 کی دہائی میں کچھ مصری جیلوں میں اس قدر سفاکانہ تشدد کا عمل انجام دینے والے واقعی مسلمان تھے۔ اس کا محدود اور سادہ ذہن سوائے اس کے اور کوئی جواب نہ تلاش کر سکا کہ "اس طرح کے ظالم انسان مسلمان نہیں ہو سکتے۔ "ایک ظالم و جابر حکومت کی طرف سے قائم کردہ ایک رجعت پسندانہ تعلیمی نظام نے اس کے ذہن کو بند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دہشت گردی اور ظلم کے درمیان کا یہ گہرا ربط متعدد تجزیاتی تحریروں میں ثابت ہو چکا ہے اور اس موضودع پر شاید سب سے حالیہ کتاب ابراہیم الحیدری کی (Violence and Terrorism Sociology)۔ اس لیے کہ ظلم و ستم پورے معاشرے یا اس کے کچھ حصے کے خلاف تشدد کا نام ہے۔ نتیجۃً تشدد کی ثقافت عام طور پر مظلوم معاشروں میں ہی فروغ پاتی ہے۔ یہ مختلف سطحوں پر گزشتہ دہائیوں کے دوران شام اور دیگر ممالک میں ہوا ہے۔ اگر بم اور میزائل سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوتا تو جب مئی 2003 میں جارج ڈبلیو بش کی یہ بات سچ ہوتی کہ ہمارا "مشن مکمل ہو گیا"۔ اور اس وقت داعش کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
لہٰذا آج ہم پہلے سے کہیں زیادہ پر اعتماد لہجے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ ظلم و ستم کو ختم کر کے ہی کیا جا سکتا ہے، شام میں اس کے ساتھ تعاون یا اس کی مدد کر کے نہیں۔ دراصل اس امداد کی مطلب دہشت گردی کی حمایت کرنا اور اس کے شعبوں میں مزید اضافہ کرنا ہے۔
اس لئے کہ یہ سب کچھ ایک سراب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، یا شام میں شہریت پر مبنی ایک تکثیریت پسند جمہوری حکومت کی تشکیل دینے والی کسی بھی انقلابی سیاسی تبدیلی کو لاگو کیے بغیر اور عراق میں حقیقی اصلاح کے بغیر داعش کے خاتمے کی کوشش کے بھرم کی تجارت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
آزادانہ شرکت داری کے دروازے کو کھول دیا جانا اور اس خطے کے دوسرے ممالک میں بھی نوجوانوں کے اندر ایک بہتر مستقبل کی امید پیدا کرنا ضروری ہے۔
وحید عبد المغید ایک ماہر سیاسیات اور کالم نگار ہیں۔
ماخذ:
english.ahram.org.eg/NewsContentP/4/181312/Opinion/-The-connection-between-terrorism-and-tyranny.aspx
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-connection-between-terrorism-tyranny/d/106202
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-connection-between-terrorism-tyranny/d/106247