وائل سلیم
28 جون، 2013
( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)
"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے "(قرآن 4:135)
اسلامی قانون کے تحت غیر مسلم کا حصول انصاف ہمہ جہت ہے۔ اسلام خود انتظام کردہ عدالتوں کے سامنے کھڑے ہونے کے اقلیتوں کے حق فراہم کرتا ہے، لیکن اگر وہ ایک اسلامی عدالت میں اپنا مسئلہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اسلام ان کے برابر انصاف کی بھی ضمانت دیتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے :
" اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ کر دینا یا اعراض کرنا اور اگر ان سے اعراض کرو گے تو وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ "(قرآن 5:42)
مثال کے طور پر، اگر ایک مسلمان کسی غیر مسلم سے چوری کر لے تو وہ اسی سزا کا حق دار ہو گا جس کا کوئی غیر مسلم مسلمان سے چوری کرنے کی صورت میں ہوتا ۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی مرد یا عورت پر تہمت لگاتاہے تو وہ بھی ہتک عزت کی سزا کا حق دار ہے ، جو کہ اس میثاق میں محفوظ ہے۔
قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے : " (اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔ اور خدا سے بخشش مانگنا بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا کیونکہ خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا۔ یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپتے حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا ان کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور خدا ان کے (تمام) کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے بحث کر لیتے ہو قیامت کو ان کی طرف سے خدا کے ساتھ کون جھگڑے گا اور کون ان کا وکیل بنے گا؟ "(قرآن 109 - 4:105)
قرآن مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ خوش اخلاقی ، رحم دلی اور سخاوت کے جذبے کے ساتھ سلوک کرنے کی ہدایت دیتا ہے :
"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ "(القرآن 60:8)
غیر مسلموں کے ساتھ مناسب سلوک کے سلسلے میں ان الہی احکام کو مسلمانوں کے ذریعہ سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے ۔ ظاہر ہے کہ ان آیات کا نزول محض تلاوت کے لئے نہیں ہوا ہے ، بلکہ یہ مرضی الٰہی کی عکاسی کرتے ہیں جن پر عمل کیا جا نا چاہئے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس سلسلے میں ایک مثالی شخصیت ہیں جو کہ ایسے سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے ان الہی احکام کو اسلامی معاشرے میں رائج کیا ۔انہوں نے بعد کے خلفاء اور اسلامی سلطنت کے حکمرانوں کے لئے ایک مثال قائم کی اور مومنوں کی عام آبادی کے لئے ایک مثال قائم کی ۔
حیات نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تاریخی حوالے ہمیں ابتدائی دور کے مسلم معاشرے اور غیر مسلموں کے درمیان احسان اور بقائے باہم کے رویوں کی بصیرت پیش کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہمیں یہ بتا یا گیا ہے کہ نے نبی صلی اللہ علیہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے تھے ۔ حوالوں کی ایک بڑی تعداد ان کے تئیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فراخ دلی کے بارے میں بتا تی ہے، انہوں نے کس طرح دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کے لئے ان کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کیا ۔ جب وہ بیمار ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جایا کرتے تھے اور ان کے ساتھ تجارت کرتے ۔ ایک حوالہ ہمیں اس غریب یہودی خاندان کے بارے میں بتاتا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ صدقہ دیا کرتے تھے ۔ ان کے وصال کے بعد، مسلم کمیونٹی نے ان کے تئیں خیراتی کام کو جاری رکھا ۔
جب ایتھوپیا کے گرجا گھروں سے ایک عیسائی وفد مدینہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ نے ان کے قیام کے لئے اپنی مسجد کے دروازے کھول دیئے،دل کھول کر ان کی میزبانی کی اور خود سے انہیں کھانا کھلایا ۔ ان کے بارے میں یہ کہنا نقل کیا گیا ہے کہ ،"وہ ہمارے اصحاب کے تئیں فراخ دل تھے لہٰذا میں ذاتی طور پر ان کے لئے فراخ دل ہونا چاہتا ہوں ۔" اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں ایتھوپیا کے عیسائیوں نے ایک بڑی تعداد میں ابتدائی دور میں نبی کے صحابہ اور پیروکاروں کو پناہ فراہم کی تھی جو عرب میں ظلم و ستم کی وجہ سے فرار ہو گئے اور حبشہ میں پناہ گزیں ہوئے ۔
تاریخی طور پر ہم اس اہم اسلامی اقدار کے ساتھ مسلم حکمرانوں کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ یہودیوں کی حکمرانی کے حوالے سے مراکش کے سلطان، محمد بن عبداللہ نے ، 5فروری، 1864 کو عیسوی مندرجہ ذیل فرمان جاری کیا:
' ہمارے سرکاری ملازمین اور ایجنٹوں کے لئے جو ہمارے علاقوں میں بااختیار نمائندوں کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ، ہم مندرجہ ذیل حکم جاری کرتے ہیں کہ ‘‘ انہیں خدا کے ذریعہ قائم کردہ انصاف کے معیار کے مطابق ہمارے علاقے کی یہودی باشندوں کے ساتھ پیش آنا ضروری ہے یہودیوں سے دوسروں کے ساتھ یکسانیت پر مبنی قانون سے نمٹا جانا ضروری ہے تاکہ کسی کے ساتھ ادنیٰ درجے کی بھی ناانصافی، جبر یا برے برتاؤ کا معاملہ پیش نہ آئے ۔ "
رینالٹ جیسے مغربی مورخین نے غیر مسلم اقلیتوں کے تئیں مسلمانوں کے عدل و انصاف کو تسلیم کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 'اسلامی سپین کے شہروں میں مسلمانوں نے ممکنہ حد تک غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک معاملہ کیا ہے ۔ بدلے میں غیر مسلموں نے مسلمانوں کے احساسات کے احترام کا مظاہرہ کیا اور ان کے اپنے بچوں کا ختنہ کروایا اور سور کا گوشت کھانے سے باز رکھا ۔ '
یہ اسلامی روایت کی مناسب تعمیل کی صرف چند مثالیں ہیں۔ آج مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کو جاری رکھنا اور انسانی سماج میں محبت، احترام، احسان، اور بقائے باہم کے ان الٰہی احکام کی تعمیل ضروری ہے جو اس نے قرآن میں نازل کیا ہے ۔
ماخذ: http://213.158.162.45/~egyptian/index.php?action=news&id=29311&title=The%20rights%20of%(20non-Muslims%20in%20Islam%20(Part%20III
URL for English article Part-2
http://www.newageislam.com/islamic-ideology/the-rights-of-non-muslims-in-islam-(part-ii)/d/12265
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-rights-non-muslims-islam-part-iii/d/12373
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-rights-non-muslims-islam-part-iii/d/13143