وی ایم خلیل الرحمٰن
15جون، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
بین الاقوامی سطح پر معروف
اسلامی مدرسہ دارالعلوم، دیوبند اور دیگر اسلامی اداروں نے دہلی ہائی کورٹ کے حالیہ
فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس فیصلے میں عدالت نے ایک 15 سالہ مسلم لڑکی کے شادی شدہ
رہنے کے حق کو برقرار رکھا ہے اور اس کے نابالغ ہونے اور اس کی مرضی کے خلاف اغوا کرنے
کے اس کی ماں کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے لئے پرسنل لاء ہے اور اس کا اطلاق مسلمانوں پر ہوتا ہے۔
اس فیصلے کے خلاف کچھ سرگرم
کارکن جو ہائے توبہ مچا رہے ہیں اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اصل میں مندرجہ بالا فیصلہ
شادی جیسے سلگتے مسئلہ پر معقول نقطہ نظر کی
ایک روشن مثال ہے۔ ہائی کورٹ کے ججوں نے دراصل
شادی اور جوڑے کو بھی بچا لیا۔
پوری دنیا میں بچوں کی شادیاں
ہو رہی ہیں۔ اس کا انحصار سماجی و اقتصادی
حالات پر ہے۔ 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادیاں کرنے کے لئے تمام مذاہب ہندو مت،
عیسائیت، اسلام وغیرہ مخالفت نہیں کر رہے ہیں۔ کئی شنکر آچاریوں نے کہا ہے کہ لڑکیاں
جیسے ہی سن بلوغت کو پہنچے ان کی شادی کر دینی
چاہیئے۔
یونیسیف (UNICEF)کی رپورٹ "دنیا
بھر کے بچوں کی حالت‑ 2009 " بتاتی
ہے کہ ہندوستان میں 20-24 سال عمر کی خواتین کی 47 فیصد آبادی کی
18 سال کی قانونی عمر سے پہلے ہی شادی ہو گئی
تھی۔ امریکہ کے مختلف ریاستوں میں شادی کے بارے میں قوانین مختلف ہیں۔ عام طور پر
16 سال کی لڑکیاں اپنے والدین کی رضامندی سے شادی کر سکتی ہیں، اگرچہ زیادہ تر ریاستوں
میں والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کرنے کے لئے 18 سال کم سے کم عمر ہے۔ رپورٹ یہ
بھی بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کی شادی کا
40 فیصد صرف ہندوستان میں ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2010
میں امریکہ میں جن غیر شادی شدہ عورتوں کو بچے پیدا ہوئے ان میں سے اکثریت نوجوان لڑکیوں کی تھی (99فیصد نوجوان لڑکیوں
کی عمر15 سال سے کم تھی، 88 فیصدد 15 سے 19 سال کی عمر کی تھیں۔ 20 سے 24 سال کی
63 فیصد عورتوں کو ہونے والے بچوں کے مقابلے
میں 25 سے 29 سال کی عورتوں کو ایک تہائی اور
21 فیصد بچے ان عورتوں کو ہوئے جو اپنی عمر کے تیسویں سال یا اس سے زیادہ میں تھیں)۔
ایسے حالات میں ججوں کے پاس
15 سالہ مسلم لڑکی کی شادی کو منظور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس فیصلے نے جوڑے کو راحت کی سانس
پہنچائی ہوگی۔ اسلامی قوانین معاشرے کی بہتری کے لئے ہیں نہ کے اس کو گمراہ
کرنے کے لئے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں
18سال سے پہلے لڑکیاں اپنے طور پر شادی کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس حقیقت کے مدنظر کہ اس لڑکی نے اپنی پسند کے لڑکے
سے شادی کی اور نہ کہ اپنے والدین کی پسند سے اور یہ اشارہ کرتا ہے کہ وہ کافی جرات
مند ہے اور چیزوں کا فیصلہ کرنے کے قابل ہے۔ ایسی بھی لڑکیاں ہو سکتی ہیں جو 25 سال
کی عمر میں بھی سمجھدار نہ ہوں اور اپنی شادی کے بارے میں فیصلہ لینے کے قابل نہ ہوں۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان لڑکیوں کی 18 سال سے پہلے شادی کر دی جانی چاہیئے۔ موجودہ زمانے کی مسلمان لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل
کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان دنوں مسلمانوں کے درمیان بچوں کی شادیاں عام نہیں ہیں۔
چیزیں تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہیں۔ مسلم لڑکیوں کی شادی کی عمر کے بارے میں مسلم
پرسنل لاء میں تبدیلی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے کوئی مقصد حل نہیں ہوگا
بلکہ صرف مسائل پیدا ہوں گے۔
URL
for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/support-right-muslim-girls,-even/d/7633
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/support-right-muslim-girls-choose/d/7673