ودیا بھوشن راوت، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام )
چونکہ ہندوستان کوانسانیت سکھانے کا سفر کبیرچاؤرا (Kabir Chaura )سے شروع ہوا،یہاں کچھ ایسے پریشان کن سوالات ہیں جو اکثر نظر انداز کئے جا رہے ہیں اور ان پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ وہ کہانی جو ہم نے بچپن کے زمانے میں سنی تھی ،اور اب بھی رائج ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب کبیر کا انتقال ہوا تو ان کی 'مذہبی' شناخت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بہت بڑا اختلاف پھوٹ پڑا تھا۔ مسلمان انہیں دفن کرنا چاہتے تھے اور ہندو انہیں جلانا چاہتے تھے۔ جو ہمیں بتایا گیا وہ ایک بڑا استہزاء ہے کہ جب مسئلہ حل نہ ہو سکا ،تو کبیر کا جسم پھول بن گیا ہندو اور مسلمان دونوں نے اپنے درمیان تقسیم کرلیا اور اپنے عقائد کے مطابق اس کی آخری رسم ادا کی ۔ مگہر Magahar میں کبیر کے مزار کے متولی کا کہناہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک جسم موت کے بعد پھول بن جائے ۔
جبکہ ‘‘ لا مذہب لوگ ’’ مگہر میں کبیر سماد ھی استھل کو ہندوستان کی تکثیریت اور ثقافتی اجتماعیت کےمظہر کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جہاں مسجد اور مندرمکمل ہم آہنگی کے ساتھ قائم ہیں ۔ یہ بات اتنی آسان نہیں ہیں جتنا اسےبنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ اختلاف اس وقت دکھائی دیتا ہے جب آپ کبیر کے ‘‘ہندو سمادھی ’’ پر جا ئیں اور اس ' مزار ' کے ساتھ اس کا موازنہ کریں جو اس کے بغل میں ہے ۔ مؤخر الذکر حکومت اور دوسروں کی عدم حمایت کے باعث متاثر ہورہی ہے۔ در اصل ، ہندوستان کے آثار قدیمہ سروے نے اس کے ایک بڑے حصےکو منہدم کردیا تھا لیکن دونوں کے درمیان امتیاز مکمل ہے۔
کبیر کے بارے میں میرے نزدیک تعجب خیز پہلو اس کی پیدائش اور اس کےپیروؤں کے درمیان اس کی مقبولیت ہے۔ میں اس متولی شبیر حسین کے پاس گیا جو خاموشی سے اس جگہ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے جہاں ان کے مطابق کبیر کو دفن کیا گیا تھا ۔اس کا دعوی ہے کہ اس کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں کبیر رہتے تھے اور ان کے آباؤ اجداد نے ان کے مزار کی بڑے خلوص کے ساتھ خدمت کی ہے ۔ شبیر حسین آج ایک نا امید انسان ہے۔ 'ہم سیکولر ازم ، ہندو مسلم بھائی چارے کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ کہاں ہیں ؟ لوگ اس جگہ کو وہ واجب مقام کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ وہ جانتا ہے کہ ہر سال وہاں جشن ہوتے ہیں اور کبیر مہوتسو منانے کے لئے بھاری رقم آتی ہے لیکن اس مزار کی تعمیر و ترقی پر ایک پائی بھی خرچ نہیں کیا گیا ہے۔
کبیر کی بول چال ہندو ادب ہے اور وہاں ان کے تمام ‘‘ دوہے ’’ ہیں لیکن کبیر کے مزار میں کبیر کی تعلیمات یا اس کا ایک بھی جملہ نہیں لکھا گیا ہے ۔ کچھ چیزیں عربی زبان میں لکھی ہوئی تھیں میں نے شبیر حسین سے پوچھا کہ وہ اس پورے عمل میں اور کبیر کی پرستش کے بارے میں اب کیا سوچتے ہیں ۔ انہیں صرف ایک بات کی ہی فکر تھی کہ حکومت اور عوام ، ا س حقیقت کے باوجود کہ جہاں وہ بیٹھتا ہے وہیں کبیر کو دفن کیا گیا ہے ،اس کا احترام نہیں کرتی ۔ انہوں نے اور ان کے والدنے 'صاحب' کی خدمت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دی ہے ۔میں نے پوچھا کہ ، ہو سکتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ آپ کی شکایت درست ہو لیکن یہاں مسلمان کیوں نہیں آتے اور کبیر کا احترام کیوں نہیں کرتے ۔ اس نے جواب دیا مسلم ‘‘ تواریخ’’ پر یقین رکھتے ہیں '' اور در اصل ہندؤں نے کبیر سے متعلقہ چیزوں میں تحریف کر دی ہے اسی لئے کوئی مسلمان انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ کوئی مسلمان ایک ایسے شخص کو کیوں کر قبول کر سکتا ہے جس کے والدین کا کوئی پتہ نہ ہو ۔ کبھی یہ کہا جا تا ہے کہ ان کی پیدائش ایک‘‘ برہمن بیوہ ’’ سے ہوئی ، اور کبھی کچھ اور ۔ جب ان کی تاریخ کو مسخ کردیا گیا ہے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اس کمیونٹی کا ایک بھی فرد انہیں قبول کرے اور لگتا ہے کہ اسی وجہ سے کبیر اس کا شکار ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے توہم پرستی کے خلاف بات کی ،اور بڑا مذاق یہ ہے کہ انہیں آج کا ایک کراماتی آدمی بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔ سمادھی استھل سے ملحق مسجد میں ان کے متعلق کسی چیز کی تصویر کشی نہیں کی گئی تھی اس لئے کہ اس کے متولی شبیر حسین کے مطابق کبیر ایک سماجی مصلح نہیں تھے بلکہ ایک 'ولی' تھے ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ کبیر کو ایک سماجی مصلح کے طور پر یاد کیا جائے ۔ متولی نے کہا کہ وہ کس طرح اتنی ساری چیزیں لکھ سکتے ہیں جب کہ وہ ان پڑھ تھے ۔ جب میں نے کہا کہ وہ کبیر کے اس مقولہ ‘‘ کنکر پتھر جوڑی کے مسجد لئی بنائے ، تا چڑھی ملاً بنگ دے کیا بھرو ہو کھدائی ’’، کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، شبیراس سے متاثر نہیں ہوا ، اور پوچھا اگر اس نے کہا کہ کیا یہ مندر ‘‘ کنکر اور پتھر سے نہیں بنا ئے گئے ہیں ’’ لیکن میں نے اس کا جواب اس بارے میں دیا جسکے بارے میں ملا بات کرتے ہیں ۔ شبیر حسین کو لگتا ہے کہ یہ سب بعد کی چیزیں ہیں اور کبیر کے نام پر مسخ شدہ شکل ہے ۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اعادہ کیا کہ کبیر ایک ‘‘ ولی’’ تھے اورایسے ‘‘ بزرگ ’’ انسان تھے جن کے پاس کراماتی طاقت تھی ۔
اگرچہ شبیر حسین نے جو کہا ان میں سے بہت سی چیزوں پرمیں نے اتفاق کیا ، میں نے محسوس کیا کہ وہ ہندو سیکولرپسندوں کے درمیان اور اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں ۔ان کی 'پیدائش' اور ‘‘ کھری کھری ’’سے متعلق مسائل کے علاوہ مسلمان اصلاح پسند کبیر کو قبول کرنے کےلئے بالکل تیار نہیں ہیں ۔ میں نے شبیر حسین سے کہا کہ یہ بہت اچھا ہوتا کہ مسلمانوں کو کبیر کے پاس آتا ہوا دیکھا جائے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ وہ ایک جلاہا ، ایک بنکر تھے ، اور اس کمیونٹی میں پیدا ہوئے اور سماجی برئیوں کے خلاف بات کی ،لیکن کمیونٹی نے انہیں قبول نہیں کیا ، کیونکہ انہوں نے شناخت پر زور نہیں دیا ۔کیا کسی شخص کو محترم و معظم ہونے کے لئے اس شخص کی شناخت کے بارے میں جاننا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے؟ جب کبیر نے عالمی بھائی چارے اور تمام قسم کے امتیاز کے خلاف بات کی ہے تب بھی مسلمانوں نے انہیں خود سے کیوں نہیں منسلک کیا ؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان دیوبندی نظریہ فروغ پا رہا ہے ،اورمزار کے نظریہ کو غیر اسلامی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ،اور اس لیے اسے ‘‘نظریہ عملیت کا حامل ’’ہونے میں اور اسلام کا حصہ ہونے میں بھی جدوجہد ہے۔ اس داخلی تحرک نے اسے کبیر کو مصلح بنانے کے بجائے ایک 'ولی' بنانے پر مجبور کیا ، جسے ہر شخص قبول کرنے کے قابل نہیں ہوگا ۔
یہ سچ ہے کہ کبیر کو ہندو بنا کر پیش کرنے کا عمل ایک لمحے میں مکمل ہو گیا ۔ اور وہ اس طرح کہ ، کبیر کی وہ مورتی جس کا سابق وزیر اعلی محترمہ مایاوتی نے افتتاح کیا ، اس کے ماتھے پر ایک سفید ‘‘ٹیکا ’’ مزین کیا گیا ہے۔ اور اب کرشنا کی طرح کبیر کے مختلف مجسموں میں اس کے پیشانی پر مور پنکھ ‘‘morepankh ’’بنا یا گیا ہے ۔ ہندو کبیر استھل میں متعدد مقولات اور ادبیات مندرج ہیں ۔ ہر سال کبیر مہوتسو منعقد کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے، ہندو ؤں کے بارے میں منتخب ہونے کا دعویٰ اور کبیر کی شناخت مسلمانوں سے متعلق ہونے سےانکار کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے ۔ اب ان کے بارے میں بدھسٹ ہونے کا دعوی بھی کیا جا رہا ہے اس لئے کہ ان کی بہت ساری تعلیمات بدھا کے عدم تشدد اور بین الاقوامی بھائی چارے کے نظریات سے بہت قریب ہیں۔ کبیر کا مزار مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کی کی وجہ سے ماندپڑا ہے ، اور سیکولر خیال لوگوں کی وجہ سے بھی جو ان کی موت کو 'سیکولر کرامت ' کا نام دیتے ہیں ۔ یہ ایک استہزا ء ہے کہ آج کے متصادم دور میں جب ہمیں ہر چہار جانب سے نفرت کا سامنا ہے اور جب ہمیں کبیر کی تبلیغ اور جرات مندانہ اقوال کا احترام کرنا چاہئے۔، ان کے 'دعویدار' اسے ایک اساطیری شخصیت میں تبدیل کر کے اس سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے معنی ہے کہ کوئی انہیں ولی سمجھتا ہے ، ایک سماجی مصلح نہیں ۔ شبیر حسین کی باتیں سننے کے لائق ہیں لیکن انہیں بھی اپنا نظریہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کے درمیان کبیر کے عظیم نظریات متعارف کرانے کی ضرورت ہے ۔ آپ اس شخص کو صرف اس وجہ سے رد نہیں کر سکتے کہ اس کا ٹھکانہ پتہ نہیں ہے ۔ ہم کبیر کا احترام اس وجہ سے نہیں کرتے کہ وہ ایک ہندو یا مسلم تھے بلکہ وہ ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے محبت اور پیار کی تبلیغ کی اور ان کے اندر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام اقسام کے جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت تھی۔ ایسا ہونے کے لئے نظریات کی بڑی جرات درکار ہے ، اور کبیر ہندوستان کے انسانی ورثے کی روشن مثال ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کی عظیم میراث کو بحال کریں اور اسے لوگوں میں مشتہر کریں ۔ مسلمان، ہندو، سیکولر، ملحد ، انسانیت پسند ،یہ تمام کبیر کو سمجھ کر فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو تمام قسم کے بنیاد پرستوں کی طرف سے نفرت کا شکار تھے ، لیکن ان کی بالادستی کو چیلنج نہیں کر سکے کیونکہ وہ عوام کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہو کر زمین پر ہی رہے ۔ اس طرح کی مشہور شخصیتوں کی تعریف ان کی پیدائش پر مبنی تنگ شناخت میں محدود ہی نہیں کی جا سکتی ان کے علم اور کام سے انسانیت کو فائدہ پہنچا ہے ۔ یہ بڑی ہی تکلیف کی بات ہے کہ ہم اب بھی کبیر کو ان تنگ حدود میں تقسیم کر رہے ہیں جن کے خلاف انہوں نے اپنی زندگی گزاری ، اور انہیں ایک اساطیری شخصیت میں تبدیل کر رہے ہیں جس کے خلاف وہ پوری زندگی کھڑے رہے ۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہندوستانی لوگ کبیر کو اپنائیں اور ان کی باہمی محبت کی اعلی روایات کی پیروی کریں اور انتہا پسند نظریات کو مسترد کریں ۔
https://newageislam.com/interfaith-dialogue/muslims-ignored-kabir/d/10181
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-ignored-kabir-/d/10461