New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 01:44 PM

Urdu Section ( 23 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims and Christians Can Learn From One Another مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں


وکٹر ایڈون ایس جے، نیو ایج اسلام

21 ستمبر 2014

ودیا جیوتی کالج سے دینیات میں تعلیم حاصل کر رہے سال اول کے طلبہ و طالبات کی ایک جماعت اسلام، مسلم اور خواتین کے بارے اپنی بصیرت افزائی کے لیے محترمہ شیبا اسلم فہمی کےپاس پہنچی۔ محترمہ فہمی اسلامی حقوق نسواں کی علمبردار ایک مصنف اور صحافی ہیں۔ وہ سیاسی ماہانہ ہیڈ لائن پلس اور مشن کی ایڈیٹڑ رہ چکی ہیں اور ایک روزانہ اخبار اور ایک میگزین کی منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ ان کی تحریریں بڑے بڑے اخبارات اور میگزین میں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اسلام میں صنفی مساوات پر مسلسل لکھتی ہیں۔

گفتگو کا آغاز انہیں نکات سے ہوا۔ طالب علموں نے محترمہ فہمی سے اسلام کے بنیادی متقدات کے بارے میں پوچھا۔ محترمہ فہمی نے کہا کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اقرار کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام "ایک متوازن زندگی بسر کرنے کا" حکم دیتا ہے ۔ انہوں کہا کہ سادگی اور فضول خرچی دونوں میں انتہاپسندی سے گریز کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اس بات کو ایک مثال پیش کر کے اس طرح سمجھایا کہ: "ایک مسلمان عید کے دن روزہ نہیں رکھ سکتا۔ روزے رکھنا اچھی بات ہے۔ لیکن کسی مسلمان کو روزہ رکھنے میں شدت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ جب روزہ رکھنے کا حکم دیا جائے یا جب ضروری ہو تو روزہ رکھیں"۔ توازن کے اس نظریہ کی بنیاد قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات پر ہے۔ ان کی رائے میں قرآن وہ تمام ہدایات پیش کرتا ہے جن کی ضرورت زمین پر ایک کامل زندگی بسر کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں کوئی بھی بات پوشیدہ یا غیر واضح نہیں ہے۔ انہوں نے مہمانوں کو بتایا کہ "ہر چیز کا واضح اور مبین و مبرہن ہونا اسلام کا ایک امتیازی وصف ہے"۔

چونکہ میں مسلم مسیحی تعلقات کا ایک طالب علم ہوں اسی لیے میں اکثر اسلام کی ایسی توضیحات سنتا ہوں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ مسلمان اپنے معتقدات کو جس طرح سمجھتے اور وہ جن خطوط پر زندگی گزارتے ہیں انہیں ان کی توضیح دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ میں نے ان کی باتوں کو بڑے احترام کے ساتھ سننا سیکھا ہے۔ میں یہ پاتا ہوں کہ مسلم مسیحی تعلقات میں سب سے اہم مسئلہ کسی تنقیدی مشاہدے کے بغیر مکمل احترام اور صبر و تحمل سے ایک دوسرے کو سننا ہے۔ تنقیدی سوالات اس وقت اٹھاے جانے کی ضرورت ہے جب دونوں کے درمیان تعلقات استوار ہو جائیں۔ میں انہیں معیاری ہدایات پر عمل کرتا ہوں جو میں نے فادر پال جیکسن سے سیکھا ہے کہ : 'بحث مت کرو ۔۔۔ صرف سوالات کرو'۔ سوالات پوچھنے سے مسلمان سے سیکھنے کی تمہاری کھلی ذہنیت کا تعین ہو گا۔ اور ایک معمولی بحث سے بھی اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ تم سننے نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بحث کرنے اور ان کی غلطیاں تلاش کرنے آئے ہو۔ میں نے محترمہ فہمی کے پاس آنے سے پہلے طالب علموں کو اچھی طرح سے ان باتوں کی ہدایت کر دی تھی۔ اب مجھے یہ بات بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ انہوں نے اسلام کے بنیادی اصولوں پر بہت سارے دلچسپ سوالات پوچھے۔

کسی نے ان سے پوچھ کہ عیسائی مسلمانوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں تو اس پر انہوں نےکہا کہ عیسائی مسلمانوں سے مساوات اور بھائی چارےکا نظریہ سیکھ سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ نماز اور روزہ سے مسلمانوں کی وابستگی ہمارے مسیحی ہمسایوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم تمام بندشوں سے آزاد اس گفتگو میں چند مشکل سوالات پیش کیے جانے کی ضرورت تھی، کہ پاکستان سمیت مغربی ایشیا میں فروغ پا رہے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہے۔ پاکستان میں شیعہ اور احمدی فرقے کی مسجدوں پر انتہا پسند مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ اس پر محترمہ فہمی نے جواب دیا کہ "اگر چہ فرقہ وارانہ دشمنی کی آڑ میں تشدد کا ارتکاب کیا جا رہاہے لیکن یہ خالصتا اقتدار کے لئے ایک جدوجہد"۔ خاص طور پر مشرق وسطی میں اس کی وجہ قدرتی وسائل کی کثرت اور جن لوگوں کا اس پر قبضہ ہے۔ یہ پٹرولیم پر کنٹرول حاصل کرنے کی ایک جنگ ہے۔ ملائیشیا اور ترکی جیسے دیگر مسلم ممالک بھی ہیں جہاں اسلام کے دیگر تمام فرقے بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن وہاں سے فرقے کے نام پر کسی بھی تشدد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملے گی"۔

محترمہ فہمی سے پوچھا گیا کہ: مسلمان عیسائیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں ؟ اس پر انہوں نے کسی بھی تردد کے بغیر کہا کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے بے لوث خدمت کرنےکا ہنر سیکھنا چاہئے۔ تعلیم، صحت اور سماجی شعبوں میں خدمات پیش کرنے والے اداروں نے قومی تعمیر میں ایک بڑا کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ " ذاتی طور پر میں ہسپتال اور نرسنگ اداروں کے قیام میں عیسائی اقدار کی شکرگزار ہوں"۔ "یہ دنیا کو مسیحیت کا سب سے بڑا تعاون ہے اور میں اس کے شکریہ میں اپنا سر جھکاتی ہوں۔ تاہم حقوق نسواں کی ایک علمبردار ہونے کے ناطے انہیں اس بات پر تعجب ہے کہ کیتھولک چرچ الگ ہو چکے جوڑوں کو 'طلاق' کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک طالبہ نے جو the diocesan centre for counselling women in distress due marital conflicts میں ایک لمبے عرضے تک اپنی خدمات انجام دے چکی تھی زیادہ تفصیل کے ساتھ شادی کے بارے میں کیتھولک چرچ کی تعلیمات پر گفتگو کی اور یہ بتایا کہ چرچ میں کس طرح ازدواجی تنازعات حل کیے جاتے ہیں۔ مسائل کو واضح کرنا بہت ضروری ہے۔ میں نے بڑی مسرت سے ساتھ ان کی باتیں سنی کہ کس طرح ایک انسان جو اتنی اچھی طرح چرچ کی تعلیمات سے واقف ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں چرچ کی تعلیمات اور معمولات کو واضح انداز میں پیش کرنے پر مہارت رکھتا ہے۔

ایک طالب علم نے پوچھا کہ: اسلام کا کون سا ایسا پہلو ہے جس کے تعلق سے خود مسلمان غلط فہمی کا شکار ہیں؟ اس پرمحترمہ فہمی نے کہا کہ اسلام عبادات اور معاملات دونوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبادت خدا سے ربط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور معاملات اللہ کے بندوں کے ساتھ جڑنے کا راستہ ہے۔ محترمہ فہمی نے کہا کہ مسلمان عبادات پر بہت زور دیتےہیں اور معاملات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ان کا ماننا ہےکہ اگر امت معاملات (انسانی طرز عمل) کو اسی طرح نظر انداز کرتی رہے تو پھر عبادت سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان اکثر پیغمبر اسلام کی سنتوں اور ان کی تعلیمات کی اہمیت کو بھول جاتے ہیں اور وہ اس عمل کی روح سے غافل رہ کر صرف اس کی نقل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ روزہ کھولنے کے لیے کچھ کھجور اور پانی رکھتے تھے۔ صحرائے عرب میں کھجور بہت آسانی سے دستیاب تھے۔ اب جاپان یا کینیڈا میں بیٹھے ہوئے مسلمان روزہ افطار کرنے کے لیے کھجور پر اصرار کرتے ہیں اور اسکے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کو بھول جاتے ہیں کہ انسانوں کو دستیاب وسائل کے مطابق ہی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ کچھ لوگو تو اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ کھجور عربی ہی ہونی چاہیے!کیا یہ حد نہیں ہو گئی!

ایک اور دلچسپ سوال یہ تھا کہ: مسلم مبلغین کے ذریعہ پیش کردہ کس اسلامی پہلو کو تسلیم کرنا مشکل ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ "آخرت کی زندگی" کا جو تصور اسلامی مبلغین پیش کرتے ہیں اس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بہت سے اسلامی مبلغین جنت میں جنتی حوروں کے ساتھ جنسی لذت اور شراب کا تصور پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ متعدد خواتین کے ساتھ جنسی طور پر لطف اندوز ہونا اور شراب نوشی کرنا اگر اس دنیا میں ایک حقیر کام سمجھا جاتا ہے تو آخرت کی زندگی میں یہ کام عظیم اور مقدس کیوں کر ہو سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں خواتین کے لیے کیا انعامات ہیں؟ آخر میں انہوں نے اسلام کے مستند نصوص سے رجوع کرنے پر زور دیا اور انہوں نے طالب علموں کو یہ بھی کہاکہ وہ مسلم علماء کی تنقید کو بھی ذہن میں رکھیں جو اسلامی حقوق نسواں کے علمبردار پوری دنیامیں کر رہے ہیں، اور اپنا توازن قائم رکھیں۔

 

URL for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/muslims-christians-learn-one-another/d/99182

URL for this article:https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-christians-learn-one-another/d/100152

Loading..

Loading..