وید لال کول
26 اپریل،2022
میں ا س الجھن میں ہوں کہ
میں آج آپ کو کس طرح مخاطب کروں! محترم امام صاحب لکھوں۔ مولانا صاحب کہہ کر پکاروں
یا صرف ”مامہ صاحب“ کہہ کر اپنا درد دل سناؤں۔آخر یہی طے پایا کہ مامہ صاحب ہی سے
چند باتیں کروں۔کیونکہ ان دو لفظوں میں ایک تاریخ پنہاں ہے، ایک میٹھی کہانی ہے،
ایک حقیقت ہے جہاں پیار ہے خلوص ہے اور سچے معنوں میں رواداری ہے۔ تو لو! سنئے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں
تھی۔ بلکہ میرا معمول بن چکا تھا کہ نومبر یا اس سے پہلے ہر سال کشمیر سے باہر
بچوں کے پاس جایا کرتا تھا۔پچھلے سال بھی حسب پروگرام دسمبر کے پہلے ہفتے میں وادی
کو چند مہینوں کے لئے خیر باد کہا تھا۔ بد قسمتی کہئے اسے با خوش قسمتی،میرے نکل
جانے کے بعد ہی کشمیر میں ایسا انقلاب آیا جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ خیر!
حالات نے کیا پلٹا کھایا۔ اس الٹ پھیر میں الجھنا نہیں چاہتا۔ہاں یہ لکھنا ضروری
سمجھتا ہوں۔ کہ جب میں بنارس سے کشمیر واپس جانے کے لئے ادھم پور میں رکا۔ تو آگے
جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔مختلف قسم کی باتیں سنا سنا کر شش و پنج میں ڈال دیا،
غرض خوف دہشت دل میں بھر گیا۔ بے سر وپا کی خبریں سن کر حوصلہ ٹوٹتا ہی ہے۔ ہر چند
جانے کے لئے میں اصرار کرتا رہالیکن کچھ پیش نہ چلی۔ دلائل و براہین سے کام لے کر
اپنی معصومیت کا بھی واضح الفاظ میں ذکر کیا، مگر ڈھاک کے وہی تین پات۔اپنی جگہ پر
سوچتا ہوں، آخر لوگ مجھے ماریں گے کیوں؟ میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟ غریبی میں دن
کاٹے، دوست و احباب کا بھروسہ رہا اور قدم بڑھتا گیا میرا قصور کیا ہے؟ بہر حال
جان پیاری ہوتی ہے۔ ضرورت تھی جرت رندانہ کی، خطر پسند ی مول نہ لے سکا لہٰذا ارداہ
بدلنا پڑا، کشمیر نہ لوٹ سکا۔ ادھم پور میں کچھ دن کاٹے او رپھر بنارس آیا۔ اب میں
ہوں اور یہاں کی تپتی ہوئی گلیاں۔
میرے سامنے دو باتیں
ہیں۔ایک آرزو دوسری مالی۔آرزو یہ ہے کہ موت سے پہلے ایک بار اپنے وطن ”کشمیر“کو جی
بھر کو دیکھوں اونچے اونچے پہاڑوں کی مرمریں چوٹیوں او رسرسبزو شاداب گھاٹیوں کی
سیر کروں۔چاندی اگلتے ہوئے جھرنوں اور گنگناتے ندی نالوں کو دیکھ کر آنکھوں کو
ٹھنڈک پہنچاؤں اس کے مخملی میدانوں کو دیکھ کر زاہد کی جنت بھول جانا چاہتا ہوں۔
یہاں کے پیارے لوگوں سے پیار کی باتیں کروں۔ دوست و احباب کی محفلوں میں شریک ہوکر
ان کی دوستی کا دم بھروں۔ خویش و اقارب اور ہمسائیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کچھ باتیں
ہوں۔ کچھ شکوے کچھ گلے ہوں اس طرح ان سابقہ تعلقات کو تازہ کروں جو ممکن ہے وقت
اور فاصلہ کی دوری سے متاثر ہوگئے ہوں۔ آپ سے کہنے کی ضرورت نہیں کہ میرے تعلقات
ہندووں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ زیادہ گہرے اور استوار رہے ہیں۔ میں پیروں،
فاضلیوں، بزرگوں اور بٹوں سے قریب تر تھا۔ خواہ وہ بانڈی پورہ میں ہیں یا ماتریگام
میں ہیں یا اونہگام میں۔ وٹہ پورہ میں ہیں یا پٹوشے میں۔ احیاء کادائرہ بھی وسیع
تھا۔خصوصاً بانڈی پورہ اورواچھیگام کے میر صاحبان سے کون نہیں جانتا تاثر میرا اور
دیگر شعراء کرام سے کتنا نزدیک تھا۔ چاہتاہوں کہ یہ سب باتیں خواب نہ ہوں۔اپنے
گاؤں کا پوچھنا ہی کیا۔ ان کے احسانات سے گردن ہی جھکی ہوئی ہے۔بھلا محمد افضل خان
صاحب، غلام حسن آخون۔بچپن کے غم گسار ساتھی محترم ولی محمد صوفی کو کیا بھولنا
ممکن ہے، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔غرض کس کس کا نام لوں۔ نام لیتے ہی جھڑی لگتی
ہے۔مبالغہ نہ سمجھیں کہ حقیقت میں یہی میری زندگی تھی، یہی تعلقات میرا بے بہا
سرمایہ تھا جو ”وقت“ نے مجھ سے جبراً چھین لیا۔ زمانہ کتنا ظالم ہے۔گھبرا کر آنکھیں
بند کرتا ہوں۔ پردہئ دل پر تصویریں ایک ایک کرکے آتی ہیں، ابھرتی ہیں مٹتی
ہیں۔”وقت“ کی گذرگاہوں سے نکل کر آتا ہوں۔ آنکھیں کھلتی ہیں۔دیر تک گم سم بیٹھا
ہوں۔ چا ر پائی پر لیٹے لیٹے نیلگوں آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے ہی اس کی پنہائیوں
میں کھو جاتا ہوں۔ جب ہوش میں آتاہوں تو رات بہت بیت چکی ہوتی ہے، آواز آتی
ہے۔پاپا جی! کھانا کھائیے، وقت ہوا ہے۔۔۔!
کشمیر کے موجودہ انقلاب
کے سلسلے میں جب بانڈی پورہ کا نام آتا ہے۔تو اس کے ساتھ آپ کے اسم گرامی کا بھی
ذکر سنتا ہوں، وجہ یہ ہے کہ آپ کی رواداری او رسچے مسلمان ہونے کی شہرت وادی کی
حدود کو پھاند کر ملک کے کونے کونے میں بھی پھیل گئی۔ادھم پور میں اکثر محفلوں میں
آپ کا ذکر بار بار سنا۔ بانڈی پورہ میں اقلیت جتنی محفوظ،ہر طرح کی قید و بند سے
آزاد ہی ہے۔ یہ وہاں کے عوام اور آپ کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ہر شخص کو
حقیقت ماننے پر مجبور کرتاہے۔ اس چیز نے مجھے ڈھارس بندھائی، کہ اپنی مشکلیں آپ کے
سامنے رکھتا ہوں۔
میں نے سنا ہے۔ کہ حریت
پسند جسے چاہیں اسے وہاں آنے اور رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بلکہ انہو ں نے ایک
مقررہ تاریخ تک آنے کااعلان بھی کردیا تھا۔مگر مجھے پتہ نہیں چلا۔ میری خواہش
ہے۔کہ میری زندگی کے آخری دن اپنے آبائی گاؤں میں ہی کٹ جائیں۔سچ پوچھئے زندہ رہنے
کی ضمانت چاہتاہوں۔کیا مل سکتی ہے؟
اپنی ساری ذمہ داریوں کو
پورا کرنے کے بعد میری تنگدستی دور ہوگئی۔خدا کے فضل سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ پنشن
کے ساتھ ساتھ بچے بھی خدمت کرتے ہیں۔ وہ اپنا فرض پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھاتے
ہیں۔ جب سے میں وہاں سے آیا۔پنشن برآمدنہ کرسکا۔ اس بڑھاپے میں وہ بھی جب آدمی
غربت میں رہ رہا ہو، پیسے پاس ہونا بہت
ضروری ہے، ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اور عزت بھی برقرار رہ سکتی ہے۔ اس سلسلے
میں عزیز منظور صاحب زرگر، آجر کے رہنے والے جو بنارس یونیورسٹی کے ہونہار طالب
علم ہیں، نے میری مشکل دور کرنے کی اپنی کوششیں بروائے کار لانے کا وعدہ کیا
ہے۔عزیز منظور کے اشکو جی کے ساتھ گہرے مراسم ہیں اورچند دنو ں کے چھٹیاں منانے کے
لئے بانڈی پورہ جارہے ہیں۔ ان کے کہنے پر میں خزانہ بانڈی پورہ سے پیسے برآمد کرنے
کی اتھارٹی آپ کو لکھ کر بھیجتا ہوں او رپاس بک بھی بھیجتا ہوں۔اگر آپ چاہیں گے
توروپیہ نکل سکتا ہے۔منظور صاحب یہاں لوٹیں گے ان کے ذریعے مفصل اطلاع بھیجیں۔
پنڈت تریلو کی ناتھ آجر سے بھی آپ مدد او رمشورہ لے سکتے ہیں۔ یہ میری دوسری مشکل
ہے۔ آپ سے مدد چاہتا ہوں۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ
میں اسے کب پیارا ہوں گا۔آپ کے عزیز القدر بھائیوں کے ساتھ لین دین کے تعلقات رہے
ہیں۔انہیں مودبانہ سلام عرض کریں۔ میری طرف سے مودبانہ گذارش کریں۔ کہ اگر مجھ سے
کبھی کوئی کوتاہییاگستاخی ہوئی ہو تو درگزرکرکے معاف کریں، اگر مناسب سمجھیں تو
بخش بھی دیں۔کون نہیں جانتا کہ میرے آگے بڑھنے میں ان کا کتنا حصہ ہے۔
میری طرف سے بچوں کو پیار
اور دعوت، اپنی محترمہ بیگم صاحب کو سلام
غریب الدیا ر ناچیز
وید لال کول،کلوسہ۔ بانڈی
پورہ
26 اپریل،2022،بشکریہ: روزنامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism