ورشا شرما ،نیو ایج اسلام
26 اکتوبر 2013
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ سچا مسلمان کون ہے یہ فرمایا کہ ‘‘سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں’’(صحیح البخاری)۔
ایک‘ سچے مسلمان’ کی یہ تعریف انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اسلام میں حسن اخلاق کی خوبی ظاہر کرتی ہے اور ایک اچھے مسلمان کی شخصیت کو اجاگر کرتی ہے ۔ دراصل تمام اسلامی اصول و معمولات کا لب لباب اور ماحصل ایک عظیم انسانی اخلاق کی تعمیر کے لئے انسانی معمولات اور دل و دماغ میں پاکیزگی اور خلوص پیدا کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی الٰہی انسانوں کے اخلاقی رویوں کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے جیسا کہ اس کا ذکر قرآن میں ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند و بالا اخلاقی کردار ، شاندار خصلت اور عظیم ترین شخصیت سے نوازا گیا تھا جس کی بنا پر آپ نے جزیرہ عرب میں اپنے تمام ہم عصروں کے اخلاقی کردار پر فوقیت اور سبقت حاصل کر لی ۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے قرآن کا فرمان عالیشان ہے :‘‘ اور (اے بنی) تمہارے اخلاق بہت (عالی شان) ہیں’’ (68:4)۔ قرآن تمام مسلمانوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض قرار دیتا ہے ۔ اب ہم احادیث نبوی میں مذکور ایک مثالی مسلمان کی شخصیت کے ارفع و اعلیٰ پہلو پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :‘‘تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاقی کردار بہترین ہیں ’’ (صحیح البخاری)۔
انہوں فرمایا کہ ‘‘قیامت کے دن مجھ سے سب سے قریب وہ ہوگا جس کے اخلاقی کردار تم میں سب سے بہتر ہوں گے اور تم میں سے سب سے برا اورمجھ سے دور وہ شخص ہوگا جس میں ریاکاری، زیادہ بات کرنے اور تکبر کرنے کی خصلت ہوگی ۔ ’’(ترمذی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘قیامت کے دن مومن کے میزان عمل پر اچھے اخلاق سے زیادہ بھاری کچھ بھی نہیں ہوگا ، اللہ اس انسان سے نفرت فرماتا ہے جو خراب اور گندی زبان استعمال کرتا ہے ’’ (ترمذی)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ‘‘ جس انسان کے اخلاق اچھے ہیں وہ ان جیسا مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے جو اپنی راتیں عبادت و ریاضت میں گزارتے ہیں’’(صحیح البخاری)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ ان باتوں کی تعلیم دی بلکہ انہوں نے اپنے تمام اقوال کو اپنے اعلیٰ اخلاقی کردار کے ذریعہ عملی شکل عطا کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ ‘‘میں نے دس سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی لیکن میں نے جب بھی کوئی غلطی کی تو انہوں نے مجھے کبھی اف تک نہیں فرمایا، اگر میں کوئی کام نہ کر سکا تو انہوں نے مجھ سے اس کے بارے میں کبھی نہیں کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا اور اگر کبھی مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی تو انہوں نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟’’ (صحیح البخاری)۔
کسی بھی مسلمان کو ایک لفظ بھی بیکار بولنے، لغو بات کہنے اور چغلی کھانے کی اجازت نہیں ہے اس لئے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے ۔ وہ لوگوں پر نظر رکھتا ہے اور ان کے اعمال اور اقوال کا حساب و کتاب رکھتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے :
‘‘کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے’’(50:18)
ایک مسلمان کو دوسروں کے ساتھ نرم مزاجی، نرم دلی ، انکساری ، صبر ، محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آنا چاہئے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔اللہ ان سے محبت نہیں فرماتا ہے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بدکلامی کرتا ہے اور ان کے تئیں جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے ۔ لہٰذا اللہ کا فرمان ہے :‘‘ اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔’’ (6:108)
مذکورہ آیت کی وضاحت کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ‘‘اللہ ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ نہیں فرمائے گا جو دوسروں کے ساتھ مہربان نہیں کرتے ’’۔(صحیح البخاری )
ایسی اور بھی بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں جنہیں بدقسمتی سے آج اکثر مسلم معاشرے میں فراموش کر دیا گیا ہے ۔
آج بہت سارے مسلم بھائی مسلمانوں کی حالت زار پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خلوص کے ساتھ خدمت کرنے کی باری آتی ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بہت دور نظر آتے ہیں ۔ وہ اسلام اور سائنس، اسلام اور سیاست، اسلامی قوانین، اسلام اور عورتوں کے حقوق، اسلام اور دہشت گردی وغیرہ جیسے اھم مسائل پر بحث و مباحثہ تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی روزمرہ عملی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ان کی زندگی بدعملی سے بھری ہوئی اور حقیقی اسلامی روح سے خالی نظر آتی ہے ۔ اور ان کی زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم سے بہت دور نظر آتی ہے کہ :
‘‘تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کے اخلاق و کردار سب سے اچھے ہیں ’’۔(صحیح البخاری )
اس موضوع پر گہما گہمی پیداکرنے سے کہ آج مسلم کمیونٹی تعلیمی، سائنسی، اقتصادی اور سماجی پسماندگی سے دوچار کیوں ہے، اس وقت تک کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا جب تک کہ مسلمان اپنے اخلاقی زوال کا صحیح ادراک نہ کرلیں اور اس سے نجات حاصل نہ کر لیں۔ جب تک مسلمان اسلام کی اخلاقی اور معنوی بنیادیں قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتے اس وقت تک وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں کسی نمایاں کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/prophet-muhammad’s-noble-character-muslims/d/14165
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/prophet-muhammad’s-noble-character-muslims/d/14316