New Age Islam
Sat Apr 19 2025, 11:21 PM

Urdu Section ( 13 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Usurpation of Minority Places of Worship اقلیتی عباد ت گاہوں پرغاصبانہ قبضے

شاہنواز خان

9دسمبر،2024

ملک کے مسلمانوں کو مشق ستم بنانے کا سلسلہ یوں تو بہت پرانا ہے،لیکن پچھلے دس برسوں میں جو کچھ دیکھا  اور محسوس کیا گیا ہے وہ پوری طرح منفرد اورجداگانہ ہے۔ماب لنچنگ کا باقاعدہ آغاز بھی آج سے تقریباً دس برس پہلے ہی ہوا تھا۔ جس کے پہلے شکار دادری کے اخلاق تھے۔مذہبی جنون پر سواربھیڑ نے پیٹ پیٹ کر اخلاق کا قتل کردیا تھا۔ اب تو معاملہ اس حد تک سنگین ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں، مزارات اور درگاہوں بشمول خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ کو بھی ہندو مندر ثابت کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ باخبر حلقوں کے مطابق چند معاملوں میں تو انتظامیہ سے عدلیہ تک کے مزدور بھی اس سمت تعاون میں ملوث رہے ہیں، جو بہر حال ملک کے سوشلسٹ وسیکولر آئین کی بقاء اور تحفظ کے نقطہئ نگاہ سے نیک شگون نہیں ہے۔ اس موضوع پر گرماضی کی باتیں کریں تو،سابق وزیراعظم نرسمہاراؤ کے دور حکومت اور ان کی شخصیت کاذکر ضروی ہوگا۔ واقعتا پنڈت نرسمہاراؤ انڈین نیشنل کانگریس سے منسلک تھے، لیکن عملی طور پر تاعمر وہ انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں سا کردار ادا کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں بابری مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی۔ آج سے ٹھیک 32سال پہلے یہ 6/ دسمبر 1992 ء کی ایک سروشام تھی۔ سہ پہر میں جب نرسمہاراؤ کومطلع کیا گیا کہ بابری مسجد کو سماج دشمن عناصر نے نرغے میں لے رکھا ہے اور مسجد کا انہدام شروع ہوگیا ہے۔ نرسمہاراؤ نہایت ڈرامائی انداز میں یکلخت گوشہ تنہائی میں چلے گئے او رپوجا شروع کردی۔ وہ تب تک ’پوجا‘ میں مصروف رہے جب کہ ان کومعلومات نہیں فراہم کردی گئی کہ بابری مسجد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ ’پوجا‘ بھی عجیب وغریب شئے ہے، جو اکثر وبیشتر حیرت انگیز کارناموں اور نتائج کا سبب بن جاتی ہے۔ اب ذکر ایک اور ’پوجا‘ یا ’آرتی‘ کا۔ملک کے سابق چیف جسٹس ڈی والی چندر چوڑ نے سبکدوش ہونے سے پہلے اپنے گھر میں ’گنیش  پوجا‘ کاانعقاد کیا تھا۔ یہ اتفاق تھا یا حسن اتفاق۔۔ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑا جارہاہے۔۔ عین اسی وقت وزیراعظم ہند چیف جسٹس آف انڈیا کے گھر پہنچ کر سی جے آئی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ’آرتی‘ میں شامل ہوگئے۔ واقعہ مذکور کے حوالے سے تنقیدیں بھی ہوئیں۔ ایک مبصر کے بقول سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کا نام آئے او ران کے ’بے نظیر‘ فیصلوں کا تدکرہ نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔لہٰذا حاضر ہے قصہ مختصر مقدمہ گیان واپی مسجد کا۔ جسٹس ڈی والی چندر چوڑ کی عدالت میں گیان واپی مسجد کا مقدمہ داخل ہواتھا۔ موصوف نے مسجد کے سروے کے احکامات جاری کردیئے۔ جسٹس چندر چوڑ کے احکامات مذکو ر کے موضوع پر چہار سو چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ تجزیہ نگاروں میں قانون داں بھی تھے اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئرایڈوکیٹ دشنیت دوے و دیگر وکیل صاحبان بھی۔ ایک مشترکہ خیال تھا کہ بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ کرنے والی بنچ میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی والی چندرچوڑ بھی شامل تھے۔ بابری مسجد کے مقدمے کا فیصلہ رقم کرتے وقت واضح کردیا گیا تھا کہ ’عبادت گاہ قانون 1991ء‘ کی شقوں کی رو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر باقی سبھی مساجد اور عبادت گاہوں،جو 1947 ء میں موجود تھیں، کی ہیت میں تبدیلی غیر ممکن ہے۔ سندر ہے کہ گیان واپی مسجد بنارس بھی مسلمانوں کے مسجد کے طور پر سینکڑوں سالوں سے استعمال ہورہی ہے۔ اور 1947 میں بھی موجود تھی۔لہٰذاعبادت گاہ قانون کی شقوں کی بنیاد پر جسٹس چندر چوڑ کو مقدمہ فوراً خارج کردیناچاہئے تھا لیکن ایسا نہ کرکے مسجد کے سروے کے احکامات جاری کرکے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ایک ایسے سیلاب کامنہ کھول دیا جس پرقدغن لگانا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے ہندوستان کے مسلمانوں کے تاریک مسقبل اور ملک کے دستور سے مایوس ہوکر اس وقت رو پڑے تھے جب موصوف ایک اخبار نویس کو انٹر ویو دے رہے تھے۔ ان بیانات کے اہم نکات کے ماحصل حسب ذیل ہیں۔بابری مسجد کا فیصلہ رقم کرتے وقت جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ عدالتی بنچ میں شامل تھے۔ایسی صورت میں عبادت گاہ قانون کے رو سے گیان واپی مسجد کامقدمہ جو جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی عدالت میں پیش ہوا تھا کہ فوراً خارج کردیناچاہئے تھا۔

جہاں تک بابری مسجد کے مقدمے کا تعلق ہے واضح کیا جاتا ہے کہ بابری مسجد کے مقدمے کی نوعیت ’خالص ملکیت‘ کے مقدمے کی تھی جس کو ’مذہبی عقیدت‘ کی بنیاد پر غلط طریقے سے فیصلہ کردیا گیا۔ یہاں یہ بھی واضح کیا جاتاہے کہ بابری مسجد کے موضوع پر ملک میں اب تک متعدد فسادات ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں مسلمانوں ودیگربے گناہ شہریوں کو موت کے گھات اتارا جاچکاہے۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب سابق رکن پارلیمان احسان جعفری حکام سے مدد کی درخواست کررہے تھے اور ماب نے ان کو کھینچ کر جانوروں کی طرح ذبح بھی کیا او رنذرآتش بھی۔ بلقیس بانو جو ایک حاملہ خاتون تھیں کہ ساتھ زنا بالجبر کیا گیا و ہ بھی ان کے جواں سال بچوں کے سامنے۔ انٹرویو کے دوران دشینت دوے نے ملک ے اقلیتوں او رملک کے مستقبل کو غیرتسلی بخش بلکہ غیر محفوظ قرار دیا تھا۔ یہ ان کا دردتھا اور ان کا حسن سلوک۔ انہوں نے خدشات بھی ظاہر کئے تھے کہ جسٹس چندر چوڑ ممکنہ طو رپر وزیراعظم سے رہنمائی حاصل کررہے تھے۔انہوں نے آگے کہا کہ جسٹس چندر چوڑ کاوزیراعظم کے ساتھ ’آرتی‘ کرناکسی صورت میں حق بجانب نہیں کہا جاسکتا کیونکہ انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین ایک مناسب دوری بہر حال ضروری ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ خبر بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ گیان واپی مسجد کے موضوع پرجسٹس چندر چوڑ نے اپنے ہی فیصلے جو انہوں نے بابری مسجد کے مقدمے کو فیصلہ کرتے ہوئے رقم کیا تھا، کو غیر ضروی طورپر نظر انداز کرکے گیان واپی مسجد کے سروے کے احکامات جاری کئے جس کے نتیجے میں اب تک مختلف مسجدوں بشمول سنبھل اوربدایوں مساجد کے موضوع پر تقریباً دس مقدمات ملک کے مختلف ذیلی عدالتوں میں داخل ہوچکے ہیں جو بہرحال ملک کے مستقبل کے لحاظ سے خوش آئند نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک چیدہ مبصر نے ایک اور اہم نکتہ واضح کیا ہے جس کے مطابق ملک میں بیشتر مندر پہلے سے ہی سرکاری زمینوں اور شاہراہوں سے متصل سرکاری مقامات پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے بودھ مذہب کے بہت سے مٹھوں او ربودھ بہاروں پر قبضہ کر ان کو مندروں کی شکل میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ کیا غیر قانونی زمینوں سڑکوں اور شاہراہوں سے متصل مقامات پر تعمیر شدہ مندروں کو اب شفٹ کیا جاسکتا ہے؟ اوربودھوں کے مذہبی ومقدس مقامات کی بازیابی کیا اب ممکن ہے؟

تم ظلم کہاں تک تہ افلاک کروگے

یہ بات نہ بھولو کہ ہمارا بھی خدا ہے

9 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/usurpation-minority-places-worship/d/134010

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..