New Age Islam
Mon May 19 2025, 11:08 PM

Urdu Section ( 24 Aug 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Urdu Media and Urdu Literature اردو میڈیا اور اردو ادب

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

24 اگست 2022

پچھلے کچھ عرصے سے ادب اور صحافت کے معیار میں گراوٹ پر صحافتی اور ادبی حلقوں میں فکر مندی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ قومی میڈیا میں گراوٹ تو اس پستی میں چلی گئی ہے جہاں سے اور نیچے کی طرف جانے کی گنجائش ہی نہیں بچی ہے۔ جھوٹی خبروں کی پیش کش, کسی سیاسی پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا اور ایک مذہبی فرقے کے خلاف بالکل کھلے عام نفرت انگیز باتیں کہنا اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب اس پر بحث بھی نہیں ہوتی۔ اتنے پر ہی بس نہیں بلکہ ٹی وی پر ڈیبیٹ کے دوران شرکاء کے ذریعہ ایسی گالیاں دینا جو عموماًسڑک پر سڑک چھاپ لوگ دیتے ہیں اب عام بات ہوگئی ہے۔ جب میڈیا میں اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں تو پھر سوشل میڈیا پر اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ وہاں بھی مخالفین کے خلاف گالیاں دینے اور مذہبی منافرت پر مبنی تبصرے کرنے کا چلن عام ہے۔

قومی پرنٹ میڈیا میں گالی گلوچ تو نہیں ہے مگر اس میں فرقہ وارانہ ذہنیت کا غلبہ نمایاں ہے۔ زیادہ تر اخبارات حکومت کے حلیف بن چکے ہیں اور حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کو ہی اخبارات کے مالک صحافت کا نصب العین سمجھ بیٹھے ہیں۔ میڈیا کے کارپوریٹائزیشن سے صحافت کے معیار میں بلندی کی بجائے اسے زوال آگیا ہے۔ گزشتہ دنوں اب یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہندی کے دو قومی اخباروں کا اداریہ لفظ بہ لفظ ایک تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ادارئیے بھی اوپر سے تیار ہوکر آنے لگے ہیں۔

اردو صحافت کا حال ابھی اتنا برا نہیں ہے اگرچہ اس کی بھی حالت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ کچھ اردو اخبارات کے مالک غیر مسلم ہیں اور وہ بھی حکومت نواز ہیں اس لئے ان کی ادارتی پالیسی میں ایک کشمکش دیکھی جاتی ہے۔ ایسے اخبارات مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے مذہبی موضوعات کو زیادہ نمایاں جگہ دیتے ہیں اور حکومت کی مسلمان مخالف پالیسیوں کو یا تو جگہ ہی نہیں دیتے یا پھر ان پالیسیوں کو مثبت معنی پہنا کر پیش کرتے ہیں۔ انہیں حکومت سے اشتہارات بھی کم ملتے ہیں اس لئے وہ ریاستی اردو اکادمیوں کے اشتہارات پر تکیہ کرتے ہیں ۔مجبوراً وہ اردو اکادمیوں کی بدعنوانی اور ان کے عہدہ داروں کی اقربا پروری کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اردو اخبارات میں قومی مسائل اور موضوعات اور دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی پیش رفت پر بہت کم مواد شائع ہوتا ہے اور مسلمانوں کے مذہبی اور مسلکی معاملوں کو زیادہ جگہ دی جاتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں مہینے بھر اخبارات کے صفحات مذہبی مضامین سے بھرے رہتے ہیں اور دنیا بھر میں پیش آنے والے سیاسی، سائنسی اور اقتصادی واقعات اور تبدیلیوں پر مواد کے لئے بہت کم جگہ بچتی ہے۔ یہی حال بقرعید اور محرم کے موقعوں پر ہوتا ہے جب دو ہفتوں تک اخبارات مذہبی رسالے کی شکل لے لیتے ہیں۔

اردو اخبارات کا اردو ادب کے فروغ میں نمایاں کردار رہا ہے۔ اردو صحافت کے ابتدائی دور سے ہی اردو اخبارات اردو ادب کی اشاعت کے لئے ایک مؤثر پلیٹ فارم کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ اردو کے بڑے شعرا کا کلام اخبارات ہی میں شائع ہوتا تھا۔ مولوی محمد باقر کے اخبار دلی اردو اخبار میں مرزا غالب، ذوق دہلوی اور بہادر شاہ ظفر جیسے عظیم شعرا کا کلام شائع ہوتا تھا۔ لہذا، اخبارات زبان وبیان اور مواد کے معیار کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مولوی محمد باقر اگرچہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے پھر بھی وہ اپنے اخبار میں مسلکی یا مذہبی مواد شائع نہیں کرتے تھے۔ اپنے مذہبی افکار کی تبلیغ و اشاعت کے لئے انہوں نے ایک رسالہ الگ سے جاری کیا تھا۔ جبکہ آج اردو اخبارات کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ چند اخبارات جیسے اودھ نامہ اعلانیہ طور پر مذہبی مواد شائع نہیں کرتے۔

صحافت کو ہنگامی ادب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات کبھی درست تھی لیکن آج اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی زبان و اسلوب کو دیکھتے ہوئے اس قول کی صداقت پر شک ہوتا ہے۔ اخباروں میں زبان کی فاش غلطیوں پر اب سیمیناروں اور سمپوزیوں میں بحث ہونے لگی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اردو صحافتی تحریروں میں ادبی خصوصیات غالب ہوتی تھیں۔ مولانا آزاد کی صحافت کو اس کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مولانا آزاد بیک وقت صحافی و ادیب تھے۔ خواجہ احمد عباس بھی اسی صف کے صحافیوں میں شامل ہیں جن کی تحریروں میں ادبی چاشنی ہوتی تھی۔ انہوں نے جو ادب تخلیق کیا اس میں صحافت کے عناصر ملتے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ ادب میں صحافت کا اسلوب اس کے لئے ایک خامی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں ادب اور صحافت کو اس نقطہء نگاہ سے دیکھنا مقصود ہے کہ ایک اعلی صحافی اچھا ادب پیش کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ سماج کے مسائل سے بہتر طور پر واقف ہوتا ہے۔ اعلی ادبی ذوق رکھنے والا صحافی اپنے قارئین کو باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی وفکری تربیت بھی کرتا ہے اور متنازع معاملوں میں صحیح مؤقف اختیار کرنے اور صحیح فیصلے لینے میں انکی مدد کرتا ہے۔

موجودہ دور میں جس طرح اردو صحافت کے معیار میں گراوٹ آئی ہے اسی طرح اردو ادب کے معیار میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ اردو میں اعلی ادب تخلیق نہیں ہورہا ہے۔ اردو کے شعرا و ادبا سہل پسند ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس سہل پسندی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ کتابیں پڑھنے کا چلن اردو داں طبقے سے تقریباًاٹھ چکا ہے۔ شمع، بیسویں صدی، ھما، شبستاں، مجرم، ھدی جیسے مقبول رسالے بھی اب بند ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے رسالوں نے نہیں لی ہے۔ اس کا ٹھیکرا انٹرنیٹ کے سر پھوڑا جاتا ہے جبکہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب انگریزی کے ناول ہیری پوٹر سیریز نے دنیا بھر میں دھوم مچادی تھی۔ ٹکنالوجی تو ان کے ییاں پہلے آئی تھی۔ جاپان کے لوگ بھی ٹکنالوجی اور سائنس میں ہم سے آگے ہیں مگر ان کے یہاں آج بھی ناول پڑھے جاتے ہیں۔ اس لئے انٹرنیٹ پر الزام دھرنا اپنے فکری کھوکھلے پن پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ جاپان کا ایک اشاعتی ادارہ اوکی یوتو پبلشنگ ہندوستانی زبانوں میں بھی کتابیں شائع کرتا ہے۔ ہندی، بنگلہ ، تمل وغیرہ میں تو یہ ادارہ کتابیں شائع کرتا ہے مگر اردو کتابیں نہیں شائع کرتا جبکہ اردو ہندوستان کی ایک مقبول زبان ہے اور اس کے بولنے والے تقریباً پانچ کروڑ ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اردو آبادی ہونے کے باوجود پبلشروں کو اس زبان میں اشاعتی کیریر فائدہ مند نظر نہیں آتا۔

لہذا, جب اردو میں پڑھنے والے ہی نہیں ہیں تو لکھنے والے کہاں سے پیدا ہوں گے ۔ جو لوگ بچپن سے پڑھتے ہیں وہی بڑے ہو کر لکھتے ہیں۔ اور جب لکھنے والے ہی نہیں ہونگے تو بڑا ادب کیسے تخلیق ہوگا ؟ ادب ہو یا صحافت دونوں کا سرچشمہ ریڈنگ کلچر ہے۔ لہذا، ادب اور صحافت کے معیار کو بلند کرنے کے لیے  اردو داں طبقے میں خواندگی کے چلن کو زندہ کرنا ہوگا۔ اردو والوں میں پڑھنے کا شوق دوبارہ زندہ کرنا ہوگا کیونکہ کتابیں انسانوں کی فکری تربیت کرتی ہیں۔ کتابوں سے دوری انسان کو فکری طور پر مردہ بنا دیتی ہے۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/urdu-media-urdu-literature/d/127786

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..