New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 05:51 PM

Urdu Section ( 17 Feb 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Javed Habib: From public life to loneliness جاوید حبیب : ہجوم سے تنہائی تک

 

روز نامہ جدید خبر

15 فروری، 2015

اگر آپ سے ایک ایسی شخصیت کے بارے میں پوچھا جائے جس کی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی ہو، بعد میں وہ ایک بے باک اور بے لوث قائد اور بے خوف مقرر اور صحافی  کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہو، اس نے اپنا اخبار نکالا اور اور پھر بند کرنا پڑا ہو اور اس کی ذاتی زندگی  مشکلات کاشکار ہو تو یقیناً  آپ کے ذہن میں مولانا محمد علی جوہر یا حسرت موہانی کا نام آئے گا۔

ان دونوں شخصیات کو آج بھلے ہی اُس طرح اور اُس پیمانے پر یاد نہ کیا جاتاہو جس کے وہ مستحق  ہیں مگر ملک کے حالات اور مسلمانوں  کے خلاف نفرت اور اس کوشش کے کےباوجود کہ جنگ آزادی  میں مسلمانوں کی قربانیوں  کو تاریخ سے مٹا دیا جائے، کسی متعصب ترین مورخ کیلئےبھی ممکن نہیں  کہ انہیں نظر انداز کرسکے۔ مگر میں جس شخصیت کا یہاں پر ذکر کررہا ہوں وہ جنگ آزادی کا سپاہی تو نہیں تھا البتہ آزاد  ہندوستان میں مسلمانوں کی بقاء و سلامتی  اور ان کے دینی اور ملی تشخص کو زندہ رکھنے  کے لیے کی جانے والی مسلسل جد و جہد کا ایک جری سپاہی تھا ۔اس  کے مثالی اخلاص ،بے لوث قربانیوں اور انتھک کاوشوں اور خدمات کے باوجود یقین سے نہیں  کہا جاسکتا کہ آئندہ چند سال بعد اسے یاد بھی رکھا جائے گا یا نہیں ۔

جی ہاں میری مراد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا  یونین کے سابق صدر،بابری مسجد ایکشن کنوینشن کے کوآرڈینیٹر ، آل انڈیا مسلم یوتھ کنوینشن کے بانی اور ہفت روزہ  ہجوم کے مدیر د مرحوم جاوید حبیب صاحب ( پیدائش مئی 1948 متوفی 11 اکتوبر 2012) سے ہے۔ میں جاوید حبیب  کا موازنہ مولانا محمد  علی جوہر یا حسرت موہانی سے کرنے کی حماقت اور جسارت نہیں کررہا ہوں ۔ البتہ یہ ایک اتفاق  ہے کہ معصوم مراد آبادی  کی کتاب ‘‘ جاوید حبیب ہجوم سے تنہائی تک’’ مجھ تک پہنچنے سے چند روز قبل ہی میں مولانا ماجد دریا بادی کی کتاب محمد علی : ذاتی ڈائری کے چند اوراق ’’ پڑ ھ رہاتھا اور میں اپنی جسارت  کے لیے معافی کا خواستگار ہوں کہ مجھے جاوید حبیب کے کردار میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر دونوں کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔میری بات کی تائید کتاب ہذا میں پروفیسر اختر الواسع یوں کرتے ہیں ‘‘ جاوید کی شخصیت میں جو توکل و استغنا تھا او رکچھ بوہیمین انداز ، اس کو دیکھ کر علی گڑھ کے زمانے میں مجھے نہ جانے کیوں حسرت موہانی  کی یاد آتی تھی ..... ملی رہنما ؤں میں کون تھا، جس سے ان کا تعلق اور رابطہ نہ رہا ہو؟.....قومی رہنماؤں  میں اٹل بہاری واجپائی ، چندر شیکھر ، بابو جگ جیون رام، شری وی پی سنگھ اور شری نرسمہا راؤ سے ان کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ جو لوگ جاوید حبین کو نامعلوم وجوہات  کی بنا پر طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے تھے ، ان سے میں ہمیشہ ایک ہی بات پوچھتا تھا کہ جاوید حبیب نے ایوان اقتدار کی ان بلندیوں تک رسائی کے باوجود اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے کیا حاصل کیا؟’’

پروفیسر اختر الواسع ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے جاوید حبیب صاحب کو زمانہ طالب علمی سے لے کر ان کے آخری ایام تک بہت نزدیک سے دیکھا ہے اور ان کے ذاتی حالات سے بھی بخوبی واقف رہے ہوں گے۔ جاوید حبیب نے ذاتی زندگی میں کن مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا ہوگا اس کا اندازا اختر الواسع کے ان جملوں سے لگایا جاسکتا ہے ، ‘‘کہتےہیں کہ خدا مسبب الاسباب ہے اور جاوید حبیب کو دیکھ کر میرا ایمان اور راسخ و پختہ ہوا۔ اس دارالاسباب میں جاوید حبیب کو خدانے ایسی رفقیہ حیات زبیدہ بھابھی کی شکل میں عطا کی جنہوں نے انہیں معاش اور خانگی ذمہ داریوں کی تمام فکروں سے تقریباً بے نیاز کردیا تھا ۔ ڈاکٹر زبیدہ حبیب جو جامعہ ملیہ کے ٹیچرس کالج میں ایک سینئر تدریسی  منصب پر فائز رہیں ، جاوید حبیب کی سب سے بڑی حمایتی  بھی تھیں اور طاقت بھی۔ زبیدہ بھابھی جیسی صبر و ثبات کی پیکر رفیقہ حیات واقعی جاوید کی نیکوں کا ثمرہ تھیں ’’۔

اس سے بڑھ کر اس صوفی صفت کارکن کی خود داری اور اعتماد کے قابل قدر او رچونکا دینے والے واقعات کی تفصیلات صحافی، مصنف اور شاعر فاروق ارگلی صاحب نے اپنے مضمون میں دی ہیں ۔ وہ لکھتےہیں کہ ایمر جنسی کے بعد 1977 کی انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل بابو جگ جیون رام کی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ کے دوران بہو گنا جی نے بابو جی کو مشورہ دیا تھا کہ ‘‘ علی گڑھ سےجاوید حبیب کو بلوانا چاہئے ۔ غضب کامقرر ہے، وہ آجائے تو شجاعت اللہ، زیڈ کے فیضان ، عرفان اللہ، عارف محمد خان سب آجائیں گے’’۔

جاوید صاحب نے مہم میں شامل ہوکر عوام پر جو جادو چلا یا اس کی ایک مثال دیتے ہوئے ارگلی صاحب لکھتے ہیں ‘‘ ڈہری آن سون میں ڈالمیا سیمنٹ کمپنی کے  وسیع میدان میں بابو جی کا چناوی جلسہ تھا ۔بلا مبالغہ پچاس ساٹھ ہزار کا مجمع تھا ۔ بابو جی کو دوسرے جلسوں سے فارغ ہوکر وہاں آنا تھا، آمد میں تاخیر ہو رہی تھی او رسامعین  کا صبر ٹوٹ رہا تھا ۔ ہمارا گروپ قصبہ بھبھوا کی ریلی سے رات 9 بجے ڈہری پہنچا ، جاوید صاحب نے مائک سنبھالا  تو مجمع پر جادو سا کردیا۔ ایک گھنٹہ نان اسٹاپ بول کر مائک سے ہٹنے لگے تو شور مچ گیا  ‘‘ اور بولئے اور بولئے۔ جاوید بھائی زندہ باد زندہ باد’’ جاوید صاحب پھر بولنے لگے ، بابو جی ساڑھے بارہ بجے رات کو آئے ، مجمع جاوید صاحب کے سحر میں 3گھنٹہ سے گرفتار ہمہ تن گوش تھا ۔ خطابت کا یہ انداز سننے والے نہیں بھول سکتے’’۔

الیکشن میں اپنی تقریروں کے ذریعے عوام پر جادو کردینے کے بعد جاوید حبیب سے سیاست دانوں  کامتاثر ہونا لازمی تھا ۔ جس کے بعد کی تفصیلات ارگلی صاحب یوں دیتے ہیں ‘‘ چناؤ میں کانگریس کا صفایا ہوا۔ مرکز میں جتناپارٹی کی سرکار بننے کا وقت آیا .....جنتا پارٹی سرکار کا یہ وہ زمانہ تھا جب جاوید حبیب سبھی  مرکزی لیڈر وں کے پسندیدہ تھے ۔ پیلو مودی جیسے با اثر نتیا تو ان کے عاشق تھے ۔ جاوید حبیب چاہتے تو بڑے سے بڑاعہدہ ، یا کوئی بھی فائدہ حاصل کرلیتے مگر ان کےذہن میں قوم و ملت کی نئی تعبیر کا خواب سر اٹھا رہا تھا۔ بابو کا نظریہ دلت مسلم اتحاد انہیں بہت اچھا لگا۔ اسی متحد قوت کے ساتھ سیاست کرنے کے خواہاں تھے ..... 1980 میں 28 مہینے کی جنتا سرکار گرِ گئی ۔ اندراگاندھی دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں ۔ بابو جی نے کانگریس ( جے) بنالی ۔ بہوگنا واپس کانگریس کے سیکریٹری جنرل بن گئے ۔ امام صاحب نے اپنی پر جوش روایتی سیاست شروع کردی۔ سب پارٹیاں اپنی اپنی دکانیں  چلانے لگیں ۔ جن سنگھ بی جے پی میں بدل گیا لیکن جاوید حبیب بابو جی کے ساتھ پوری استقامت  کے ساتھ کھڑے رہے۔ جاوید حبیب نے سریش رام کے زور دینے پر ذاکر نگر میں رہائش اختیار کی۔ وہیں  سےہفت روزہ اخبار ‘‘ہجوم’’ شروع کیا ۔ دنیا نے دیکھا کہ جاوید حبیب صرف اچھے مقرر نہیں ، اعلیٰ درجہ کے ادیب، دانشور اور صحافی بھی تھے ..... انہیں دنوں جاوید حبیب نے بابو جی کے سامنے ‘‘ کل ہند مسلم یوتھ کنوینشن’’ کا آئیڈیا پیش کیا۔ بابو جی خوشی سے اچھل پڑے ۔ بہت بڑھیا وچار ہے ۔ فوراً کام شروع کردو......’’

مگر مسلمان سیاست دانوں کو چھوٹے موٹےعہدوں اور چند سکوں کےعوض خرید لینے کے عادی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو جاوید حبیب کی جس خودداری کا  سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیلات ارگلی صاحب یوں بیان کرتے ہیں ‘‘ جن دنوں مسلم یوتھ کنویشن کا غلغلہ سارے شہر میں پھیلا  ہوا تھا، بابو جی بہت خوش تھے ۔ اس دن جاوید حبیب کی خودداری اور عزت نفس کی پاسداری کا عجیب نظارہ دیکھنے کوملا ۔6 کرشنا مارگ میں جاوید حبیب ، سریش رام اور راقم الحروف کنونشن کے انتظامات پر باتیں کررہے تھے ۔ دوران گفتگو مجلس استقبالیہ کے ارکان کاذکر آگیا ۔ جاوید حبیب نے بتایا کہ فلاں فلاں اصحاب اس میں شامل ہیں ۔ سریش  رام نے کہا ‘‘ بنگال سے راجیہ سبھا کے رکن مسٹر حنان کو استقبالیہ کا صدر بنا لیجئے ’’۔ جاوید صاحب نے جواب دیا ‘‘ صدر کا انتخاب ہوچکا ہے، اب یہ ممکن نہیں’’ سریش رام کو اچھانہیں لگا ۔ زور دے کر کہا ‘‘ حنان صاحب اپنےآدمی ہیں، اپنی ریاست میں بااثر بھی  ہیں ، یہ کیا بات ہوئی ، کنونشن میں ہمارا پیسہ لگ رہا ہے۔آپ کی بات ٹھیک نہیں ’’۔

‘‘جاوید حبیب اٹھ کر کھڑے ہوگئے ۔ میں آپ کے پیسے سےکنونشن نہیں کرتا ۔ کہہ کر کوٹھی سےباہر نکل آئے ۔ سریش نے مجھے اشارہ کیا کہ انہیں روکوں ، میں ان کےساتھ ہی باہر آیا، ہمیشہ کی طرح ان کو لے جانے کے لئے ٹیکسی بھی نہیں بلانے دی ....... سریش رام کی پیسے والی بات انہیں اس طرح چبھی تھی کہ سارا کھیل ختم ہوگیا، جگ جیون رام اور سریش رام سے تعلق ٹوٹ گیا ......’’

بہر حال جاوید حبیب نے  کنونشن کیا جس کی افتتاحی تقریر میں انہوں نے جذبات کا اظہار یوں کیا ‘‘ دوستو اور بزرگو! پرامیدچہروں اور روشن دماغوں سےبھرے ہوئے اس اجلاس کے لئے میرے پاس دو نذرانے ہیں۔ ایک آنسو اور ہلکی سی مسکراہٹ اور دونوں کے درمیان بے بس خاموشی۔ میرا آنسو عبارت ہے میری اپنی ذاتی بے بسی  سے ...... میری مسکراہٹ عبارت ہے ایک مستقبل   سے، ایک امکان سے اور اس انقلابی پیغام سےجو آج سے 1400 برس پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا کے سامنے  پیش کیا تھا .....

‘‘ دوستوں بزرگو! آج ایک ایسا شخص آپ سے مخاطب ہے جو اپنے دوستوں کے ہمراہ اسی خاموشی  کو توڑنے کی کوشش کررہا ہے جس کے پاس نہ مادی  وسائل  ہیں نہ دولت کے انبار۔ جس کا اخبار جب چاہے بند کیا جاسکتا ہے، جس کے بارےمیں دہلی میں پوسٹر لگتاہے کہ وہ کانگریس (آئی) کا آدمی ہے اور ممبئی میں پوسٹر لگتا ہے کہ کانگریس (آئی) کا مخالف ہے۔ اگر حمایت کیلئے جماعت ، کسی ادارے یا کسی شخص سےبات کرتا ہے تو کہا جاتاہے کہ وہ کوئی سازش کررہاہے، جس پر الزام تراشیوں کی بارش ہے۔ لیکن یہ کنونشن ان تمام مخالفتوں کے باوجود اس ارادے سے کیا جارہاہے کہ ہمارے جذبوں میں سچائی ہے اور ہماری نیتیں صاف ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت سوائے خدا کے ہمیں انقلاب کے راستے  سے نہیں روک سکتی ’’۔

جاوید حبیب کی جرأت مندی کی دوسری مثال ان کے قریبی دوست اور علی گڑھ سے لے کر ہجوم کی ادارتی ٹیم اور ان کے آخری ایام تک ان کے رفیق فرحت احساس صاحب لکھتے ہیں ‘‘ اپنی آزادی کو بر قرار رکھنے کے لئے انہوں نے بہت سے منصب چھوڑدیئے۔ وزیر اعظم وی پی سنگھ نے انہیں اقلیتی  کمیشن  میں منصب دیناچاہا ۔ انہوں نے اسے لائق اعتنا نہ جانا ۔ میں اس بات کا ذاتی گواہ ہوں کہ ایک رات وی پی سنگھ صاحب نے وزیر اعظم کی حثییت سےانہیں دو تین بار فون کئے کہ آپ اگلے دن راجیہ سبھا کے انتخابات کے لئے کاغذات داخل کر دیجئے مگر جاوید حبیب کا اصرار تھا کہ وہ اپنی آزادانہ حیثیت سے ہی راجیہ سبھا میں جاسکتے ہیں کسی کے نمائندے کی حثییت سے نہیں ۔ نمائندگی سے ان کی مراد امام جامع مسجد کی نمائندگی جیسی سے ہے کہ جناب وی پی سنگھ  دونوں کو بہ یک وقت خوش کرنا چاہتے تھے ۔ انجام  کار اگلے روز م۔ افضل صاحب نے کاغذات داخل کئے اور راجیہ سبھا کے رکن بنے ۔ چار وزیر اعظم تھے یعنی وی پی سنگھ ، چندر شیکھر ، نر سمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپئی جن سے ان کے براہ راست تعلقات تھے ۔ جنہیں  وہ براہ راست فون کرسکتے تھے .....’’

کتاب میں تقریباً تمام مضمون نگاروں نے اس بات کااظہار کیا ہے کہ جاوید صاحب اپنے وقت سے 15 سال آگے ہوتے تھے جس کی وجہ سے لوگ  انہیں سمجھ نہیں پاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ دل کے اتنے صاف تھے کہ لوگ ان کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے دریغ نہ کرتے تھے ۔ اسے بد قسمتی  کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جاوید حبیب  جو خدمت ہندوستانی مسلمانوں کیلئے انجام دے سکتے تھے وہ نہ دے سکے۔ شاہد صدیقی کے بقول‘‘ ..... جاوید حبیب بنیادی طور پر ایک دانشور تھا ۔ ملت کے مسائل پر سوچنے اور فکر کرنے والا انسان ۔ جاویدحبیب میں لکھنے پڑھنے ،بولنے کی وہ صلاحیت تھی، جو شاید اس مسلم یونیورسٹی کے کسی دوسرے نوجوان میں نہیں تھی ۔ جاوید حبیب سیاست داں نہیں تھے، مگر انہیں سیاست کاشوق تھا ۔ جاوید حبیب کی دِقّت یہ تھی وہ ہر میدان کےشہسوار تھے ۔ بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ مگر کسی ایک میدان میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرسکے۔ ورنہ سچائی یہ ہے کہ وہ ملک کے ممتاز ترین مسلم قائد کی حیثیت  سے ابھر کر سامنے آتے ...’’

یہ کتاب ایسے 25 صحافیوں ، مصنفوں ، یونیورسٹی کے اساتذہ ، سیاست دانوں اور دانشوروں کے مضامین کامجموعہ ہے جنہوں نے جاوید حبیب کے ساتھ کام کیا تھا یا ان کو نزدیک سےدیکھا تھا ۔ ایسی کتاب مرتب کر کے معصوم مرادآبادی  صاحب نے بہت اہم ملی خدمت انجام دی ہے۔ یوں تو یہ کتاب جاوید حبیب کی حیات و خدمات کے بارےمیں ہے مگر اس میں مسلمانان ہند کے مسائل اور سیاسی بحران کے بارےمیں بہت اہم معلومات ہیں۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ علیگ برادری بلکہ ہر اس ہندوستانی مسلمان کو اسے ضرور پڑھنا چاہئے جو ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حالات میں دلچسپی رکھتا  ہے۔ اس میں جاوید حبیب کے چند مضامین اور تقاریر بھی ہیں جنہیں پڑھ کر ان کی ذہانت فراست ،مسائل پرگہرائی سے سوچنے کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس میں بہت سے دلچسپ تاریخی واقعات او رمعلومات کا انکشاف بھی  ہے  مثلاً یہ کہ زمانہ طالب علمی میں معروف تاریخ داں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن نےاسے ایم یو اسٹوڈینٹس یونین کے صدارت کا الیکشن لڑا تھا اور جاوید حبیب کی جادوؤی تقریروں نے مشیر صاحب کی شکست میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔

کتاب کو پڑھ کر اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ کیسی ناقدری ہے کہ ہماری قوم اپنے مخلص دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرپاتی بلکہ اپنے محسنوں کو تو یہ بعد میں ہی یاد  کرتی ہے۔ افسوس کہ جو کام اور جو خدمت جاوید حبیب  جیسی شخصیت انجام دے سکتی تھی وہ نہ دے پائی ۔ فرحت احساس صاحب کے اس احساس سےمیں بالکل متفق ہوں کہ ‘‘جاوید حبیب مجھے اکثر کسی یونانی المیے کے کردار معلوم ہوتے ہیں ، ایسے کردار جو اپنے انتخاب کے نتائج کی آگ میں جل کر راکھ ہوجاتےہیں ، لیکن ان کرداروں میں بے پناہ بلند عزمی، بے پناہ صداقت، بے پناہ جرات مندی اور بے پناہ تخلیقیت ہوتی ہے، اس لئے ان کی شکست کی راکھ بھی نہ جانے کتنی فتح مندیوں کے چراغوں سے زیادہ روشن ہوتی ہے۔ جاوید حبیب نے ایک بڑا خواب دیکھا مگر اس خواب کو پروان چڑھانے والی حقیقت کی آنکھ فراہم نہ کرسکے۔ ممکن ہے یہ آنکھ ابھی پیدا ہی  نہ ہوئی ہو لیکن آزادی کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کے تخلیقی مساعی کی کوئی تاریخ کبھی لکھی گئی اور دیانت  داری سے لکھی گئی تو وہ جاوید حبیب کو فراموش نہیں کرسکے گی۔’’

15 فروری، 2015  بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/javed-habib-public-life-loneliness/d/101568

 

Loading..

Loading..