عبدالرشید سیال
4 نومبر 2022
یہ ذکر ہے لازماں و
لامکاں کا، جب کائنات اور وقت ابھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ جب حکمرانی تھی ایک
حاکمِ اعلیٰ کی جس کو آئندہ، یعنی مستقبل میں وہ تمام کچھ کر گزرنے پر مکمل
اختیار حاصل تھا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہی حاکم اعلیٰ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔
یہ وہی تو تھا اور ہوگا جو اصل حقیقت ہے۔ وہی ہر اصل کا خالق و مالک ہے۔ اُسی کا
رنگ ہر اصل میں جھلکتا ہے اور اُسی نے تمام مراحل کو ایک گوناگوں سانچے میں ڈھال
دیا ہے۔اُس لمحہ ٔ کُن کا تصور کیجئے جب
لازماں سے تخلیق ِ زماں (کائنات اور وقت) کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حکم ہوتا ہے: آسمان
اور زمین وجود میں آجائیں، تو فَیَکُون (پس ڈھل گئے)، یہ تمام عمل ظہور پزیر
ہوجاتا ہے۔ اِس کائنات کو اپنے تمام مراحل طے کرنے میں اربوں سال لگ گئے اور یہ ہے
بھی حقیقت، جب کہ قرآن کہتا ہے کہ: ’’زمین و آسمان تعمیل ِ حکم میں فوری طور پر
وجود میں آگئے۔‘‘ سائنس اس وقت کو Plank Timeکا
نام دیتی ہے۔ میں اُسے ’لمحۂ کُن‘ سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب آسمان
اور کائنات جُدا ہوچکے تھے ۔ آسمانوں نے اپنی تخلیق کا عمل جاری رکھا جس کا
انسانی ذرائع اور ذہن قطعی طور پر ادراک نہیں کر سکتے لیکن تخلیق عالمین میں یہ
سفر پہلے ایک سیکنڈ میں تمام وسائل و اسباب اور اصول کے ساتھ معرض وجود میں آ چکے
تھے۔جب حکم ہوا کہ تمام آسمان اور زمین وجود میں آجائیں (اور ’کُن‘ جو دراصل اُس
حاکمِ اعلیٰ کے ارادے ہی کا نام ہے) تو Nihility (عدم یا نیستی ۔ جو
خود آسمان و زمین کا تکملہ ہے) ایک دم اربوں میل پر محیط فضا میں دھوئیں کی طرح
بکھر جاتی ہے، اور وہ تمام اصول جو کائنات کی تخلیق کے لئے ضروری تھے، اس پہلے
لمحے میں معرضِ وجود میں آجاتے ہیں۔ جب اصول طے پاگئے تو تخلیق نے اپنی منازل طے
کرنا شروع کردیں۔
سائنسی پس منظر کی اہمیت
قرآن کریم کے فلسفے کو
سمجھنے کے لئے سائنسی پس منظر کے ساتھ دوسرے علوم کا جاننا ضروری ہے۔ مَیں کلامِ
پاک کی سب سے پہلی آیتِ کریمہ
اَلْحَمْدُللّٰہ ِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کا ذکر کروں گا جس میں ربُّ العزت
فرماتے ہیں کہ میں ربّ ہوں عالمین (multiverse)،یعنی عوالِم کا نہ
کہ ایک عالَم (universe) کا۔۲۰؍ویں
صدی کے تقریباً اواخر تک سائنسداں اس بات پر متفق تھے کہ یہ ایک کائنات ہے جس میں
ہم رہتے ہیں۔ ۲۰؍ویں
صدی کے آخری عشرے میں سائنس دانوں نے یہ معلوم کیا کہ ہمارا عالَم تو ایک ذرّہ ہے اور ایسے بے
شمارعوالِم موجود ہیں۔ سائنسداں اب تک چار متوازی طبقاتِ عوالم (Four
Strata of Parallel Universes ) دریافت کرچکے ہیں۔ ہم ہر Strata
of Universe کو Mulltiverse کہہ سکتے ہیں جس میں بے شمار عوالِم موجود ہیں
اور ہر عالم میں اربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ایسی
ہی ایک کہکشاںمیں جس کا نام مِلکی وے (Milkyway) کہکشاں ہے، ہم رہتے
ہیں۔
اس کہکشاں کا مرکز، یعنی
کور (Core) یا ڈسک (Disc) ایک لاکھ نوری سال
ہے، جب کہ ہمارا شمسی نظام اس کہکشاں کے ایک بازو پر تقریباً اس کے درمیان ہے اور
اس کا فاصلہ مرکزی ڈسک سے ۲؍لاکھ
۲۶؍
ہزار نوری سال ہے، جب کہ ایک نوری سال ۶ ؍کھرب
میل کے برابر ہے۔ شاید اس مختصر تعارف سے آپ کائنات کی وسعتوں کا کچھ اِدراک
کرسکیں۔
کائنات: حیران کن
انکشافات
یہاں پر مَیں آپ کو اس
کائنات کی وسعتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم اس کائنات میں کس رفتار سے
محو پرواز ہیں اور بے پناہ رفتار کے باوجود ہمیں معمولی سا چکر بھی نہیں آتا۔ ہم
زمین کے باسی ہیں اور یہ : زمین اپنے محور
کے گرد ایک ہزار ۶سو۷۰ ؍کلومیٹر
فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کاٹ رہی ہے۔ اس
چکر کے ساتھ ساتھ یہ زمین اپنے مدار میں سورج کے گرد ایک لاکھ ۸؍ہزار
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی
ہے۔ پھر یہ زمین اپنے شمسی نظام میں رہتے ہوئے اپنی کہکشاں کے گرد ۷؍لاکھ
۲۰؍ہزار
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے محو ِ
پرواز ہے۔ تمام شمسی نظام مِلکی وے
کہکشاں میں رہتے ہوئے ۹؍لاکھ
۵۰؍ہزار
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے عالم میں سفر کررہا ہے۔ یہ زمین اپنے متوازی طبقات عوالِم کے ساتھ
اپنے مرکز، یعنی اصل مقام، یعنی نقطۂ آغاز Big
Bang سے ۳؍لاکھ
کلومیٹر فی سیکنڈ سے دُور بھاگ رہی ہے۔
یہاں میں یہ بھی عرض
کردوں کہ یہ زمین جب اپنے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو ہر۱۸؍میل
کے بعد(یعنی ہر سیکنڈ کے بعد) اس میں ۲ء۸؍ملی
میٹر کا ایک جھکاؤ آتا ہے، اگر یہ جھکاؤ ۲ء۵؍ملی
میٹر ہوجائے، یعنی ۰ء۳؍ملی
میٹر کم ہوجائے تو زمین سورج سے اتنا دُور نکل جائے گی کہ کچھ عرصے میں یہ برف کا
گولا بن جائے گی اور اگر ۳ء۱؍
ملی میٹر ہوجائے تو زمین سورج کے اس قدر قریب چلی جائے گی کہ یہ آگ کا گولا بن
جائے گی… تو کیا یہ سب اتفاقی حادثہ ہے؟
کیا ہر نک سک سے درست یہ
نظم بغیر کسی طاقت کے وقوع پذیر ہوسکتا ہے؟
اب اندازہ لگائیں کہ
کائنات کا نظام اربوں سالوں سے ایک خاص
ڈسپلن میںکام کیے جارہا ہے اور اسکی فائن ٹیوننگ کا تو اندازہ آپ ہی کرسکتے ہیں
کیونکہ (المُلک :۳؍میں)
ربُّ العزت فرماتے ہیں: ’’جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں
کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا
ہے؟‘‘ ’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا
زیادہ بڑا کام ہے،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (مومن:۵۷)
’’اب اِن سے پوچھو، اِن کی پیدایش زیادہ مشکل ہے یا اُن چیزوں کی
جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں؟ اِن کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا
ہے۔‘‘(الصّٰفّت :۱۱) تخلیق
ِ کائنات اور انسان کی تخلیق سے متعلق خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ تمہارا ایک مرتبہ
پیدا کیا جانا اور مرنے کے بعد پھر پیدا کیا جانا تو کوئی بھی مشکل کام نہیں۔
کیونکہ یہ تو ایسا ہے جیسے کمپیوٹر اسکرین پر آپ اپنا کوڈ اور بِٹ میں اسٹور کیا
ہوا ڈیٹا، مووی ، ویڈیو، پکچرز ایک کمانڈ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے جینوم
(Genome) پر لکھے ۳ء۵؍ارب
کوڈ جو ہم ہرلمحے زمین میں بکھیرتے جارہے ہیں ایک ہی کمانڈ پر ربُّ العزت کے حضور انسانی
شکل میں حاضر ہوں گے ۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے روزِ جزا کے بے شمار عقدے حل کر دیئے
ہیں۔ اگر آپ تفصیل میں جانا چاہیں تو ہماری بینائی، یعنی دیکھنے کے عمل کے ساتھ
ہمارا انٹرنیٹ پر بصری ردعمل اُس کی ادنیٰ مثال ہے ۔ یہ تفصیل کسی اور وقت کے لئے
اُٹھا رکھتے ہیں ۔بڑا کام تو تخلیق ِ کائنات کا تھا، جیساکہ سورئہ ملک میں فرمایا
کہ ’’تلاش کرکے تو دیکھو کہیں آپ کو اس فضائے بسیط میں کوئی رخنہ نظر آجائے۔‘‘
پھر کائنات کی اِن وسعتوں کو اُس ربُّ العزت نے نظر نہ آنے والے ستونوں سے جیسا
کہ سورئہ بروج کے آغاز میں ہے، ایک نپے تلے نظام میں جوڑ دیا ہے، اور عصرِحاضر کے
سائن داں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نظر نہ آنے والے بُرج برقی مقناطیسی میدان (Electromegnatic
Fields)
ہیں جنہوں نے تمام نظامِ قدرت کو ایک واضح اور صحیح رُخ میں متعین کررکھا ہے۔
’’اور چاند ، اُس کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ اُن سے گزرتا ہوا
وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔‘‘ (یٰسین: ۳۹) ’’نہ تو سورج کے بس میں ہے
کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر
رہے ہیں۔‘‘ (یٰسین: ۴۰)
خداوند قدوس فرماتے ہیں
کہ یہ چاند، سورج ایک مقررہ مدار میں اپنے سفر میں ایک وقتِ مقرر تک رواں دواں ہیں۔ پھر اگر قرآن
کریم کی بیش تر سورتوں میں دن کو رات پر اور رات کو دن پر لپیٹنے کا ذکر ہے تو کس
خوب صورت انداز میں ربُّ العزت نے زمین کے گول ہونے کے شواہد دیے ہیں۔ اور پھر جب
قیامت کی گھڑی آئے گی تو کچھ تو سو رہے ہوں گے، جب کہ کچھ اپنے کام میں مشغول ہوں
گے۔ اس طرح ایک لطیف انداز میں زمین پر کہیں دن اور کہیں رات کا اشارہ دے دیا۔
سورئہ یٰسین ( ۳۹-۴۰) میں ہماری وسعتِ نظر کے
مطابق قرآنِ کریم میں چاند اور ستاروں اور سورج کے سفر کا ذکر کیا ۔ آج کی سائنس
یہ کہتی ہے کہ اگر یہ تمام ستارے ایک جگہ پر رُکے ہوتے تو ان سے منعکس ہو کر روشنی
رات کو بھی دن کے اُجالے میں بدل دیتی، لہٰذا یہ تمام ستارے اپنے ایک مقررہ مدار
میں رواں دواں ہیں۔ جو دن میں اُجالے اور رات میں اندھیرے کا سبب بنتے ہیں۔(جاری)
4 نومبر 2022، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism