New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 02:29 AM

Urdu Section ( 12 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

UGC-NCERT’s Right-Wing Drive نظام و نصاب ِ تعلیم کا بھگوا کرن تکلیف دہ ہے

رام پنیانی

12 دسمبر 2023

بی جے پی  حکومت نے تقریباً ایک دہائی پر محیط اپنے دورِ حکومت میں  تعلیمی نظام کی سمت بدل دی ہے۔ یو جی سی اور این سی ای آرٹی حکومت کے قوم پرستانہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں  مصروف ہیں ۔ اس کوشش میں  آر ایس ایس کے نظریات، رامائن، مہابھارت اور ہندو راشٹر کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مرکز میں  بی جے پی حکومت اپنے دس سال مکمل کرنے سے صرف چند ماہ دور ہے۔ تقریباً دس سال کے اس عرصہ میں  حکومت نے کئی سرکاری اداروں  کی حالت اور سمت کو کافی حد تک بدل دیا ہے۔

 کون نہیں  جانتا کہ حکومت کی ایما پر محکمہ انکم ٹیکس، ای ڈی اور سی بی آئی نے حزب اختلاف کی پارٹیوں  کے خلاف وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتی ہیں ۔ ان کی کارروائیاں  ہنوز جاری ہیں ۔ کئی معاملوں  میں  الیکشن کمیشن نے بھی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران یو جی سی اور این سی ای آر ٹی نے بھی حکمراں  جماعت کو مطمئن رکھنے کیلئے نظام تعلیم اور نصاب ِ تعلیم میں  کئی تبدیلیاں  کی ہیں ۔ تعلیمی ڈھانچہ کو بدلنے میں  نئی تعلیمی پالیسی کا بھی اہم رول ہوگا۔ قارئین واقف ہیں  کہ حکومت کی جانب سے منصوبہ بند طریقہ سے ایسی ہدایات جاری کی جارہی ہیں  جن کی مدد سے طلبہ کے دل و دماغ میں  ہندوتوا وادی نظریات کو فروغ دیا جاسکے۔ حکومت نے طلبہ کے احتجاج کو کمزور کرنے اور اس میں  شریک طلبہ کو ڈرانے دھمکانے کی مہم شروع کی۔ ان مظاہروں  کے لیڈران پر `غداری کا لیبل چسپاں  کیا۔

 قارئین کو یاد ہوگا سابق وزیر برائے ترقیاتِ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کی تجویز تھی کہ ہر مرکزی یونیورسٹی میں  ایک اونچی جگہ پر قومی پرچم لہرانا چاہئے (بلاشبہ قومی پرچم لائق احترام ہے اور ہندوستانی اس کی تعظیم کرتا ہے) اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کیمپس میں  ایک فوجی ٹینک تعینات کیا جانا چاہئے ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہاں  کے طلبہ ایسے مسائل پر آواز بلند کررہے تھے جو حکومت کو پسند نہیں  تھے۔ حال میں  اسی طرز پر کئی ہدایات (یا احکامات) جاری کئے گئے ہیں ۔ ایک حکمنامہ میں  آر ایس ایس پرچارک اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے بانی دتا ّجی دیدولکر کی صد سالہ سالگرہ پر ایک سالہ طویل جشن کا اہتمام کرنے اور تمام طلبہ کو اس میں  شرکت کرنے کی ترغیب دینے کیلئے کہا گیا۔ اس سلسلے میں  مہاراشٹر کے کالجوں  پر زیادہ زور دیا گیا۔ کیا ہندوتوا وادی لیڈروں  کو ہیرو بنانے کا یو جی سی کا یہ اقدام مناسب ہے؟

 کیا اس کے برخلاف، ہمیں  ایسی شخصیات کو یاد نہیں  کرنا چاہئے جو ہندوستانی قوم پرستی کی حامی تھیں  اور جنہوں  نے انگریزوں  کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں  حصہ لیا اور غیر معمولی قربانیاں  دیں ؟  دیدولکر نے نہ تو آزادی کی جدوجہد میں  حصہ لیا نہ ہی وہ ہندوستانی دستور کے اصولوں  میں  یقین رکھتے تھے۔ ممکن ہے آپ کو علم ہوچکا ہو کہ یوجی سی نے ایک اور سرکیولر جاری کرکے کالجوں  میں  ایسے سیلفی پوائنٹ بنانے کی ہدایت دی جن کے بیک گراؤنڈ میں  وزیراعظم مودی کی تصویر ہو۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں  ہے کہ اس طرح عام انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

  کسی جمہوری ملک میں  حکومت، کسی پارٹی کے قدآور لیڈر کی تشہیر، اُس کا پروموشن نہیں  کرسکتی۔ یہ جمہوری اصولوں  کے خلاف ہے۔ حکومت کا یہ اقدام، جمہوری اور دستوری اصولوں  کا کھلا مذاق نیز اقتدار اور طاقت کا غلط استعمال ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت نے یہ ہدایت جاری کی کہ ہفتم سے دوازدہم تک کے طلبہ کو تاریخ کے مضمون میں  رامائن اور مہابھارت پڑھائی جائے۔ ( بحوالہ: ٹائمز آف انڈیا، ۲۲؍ نومبر ۲۰۲۳ء)۔ این سی ای آرٹی کے ایکسپرٹ پینل کی مانیں  تو اس سے ملک کے عوام میں  وطن پرستی اور فخر کا جذبہ بیدار ہوگا  اور وہ اپنے ملک پر ناز کرنا سیکھیں  گے! اس میں  شک نہیں  کہ رامائن اور مہابھارت ہمارے قدیم ادب کا حصہ ہیں  اور قدیم دور کے سماجی اصولوں  اور معیارات کی نمائندہ دستاویزات ہیں ۔ ان کی مدد سے اُس دور کے سماجی حالات سے واقفیت ہوتی ہے۔ رامائن صرف ہندوستان نہیں ، سری لنکا، تھائی لینڈ، بالی اور سُماترا سمیت کئی ایشیائی ممالک میں  مقبول ہے اور اس کے مختلف تراجم رائج ہیں ۔ مختصر یہ کہ یہ دونوں  کتابیں  علم کے سرچشموں  کی مانند ہیں  مگر انہیں  نصاب میں  شامل کرنا ایک الگ مسئلہ ہے جس کا تعلق ہندوتوا  نظریات سے واقف کرانا زیادہ اور طلبہ کو تاریخی حقائق سے واقف کرانا کم ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نصابی کتابوں  میں  `انڈیا کی جگہ `لفظ بھارت کا استعمال کیا جائے۔ ان کے مطابق چونکہ انگریزوں  نے ہمارے ملک کا نام انڈیا رکھا تھا، اس لئے یہ غلامی کی نشانی ہے۔ اس حقیقت کو جان بوجھ کر چھپایا جارہاہے کہ وطن عزیز کیلئے انڈیا سے ملتے جلتے الفاظ کا استعمال انگریزوں  کے بھارت آنے سے برسوں  پہلے سے رائج تھا۔ عظیم تاریخ داں ، سفارت کار، بنی نوع انسان کے نسلی و ثقافتی تنوع کے ماہر اور سیاح  میگستھنیز نے ۳۰۳ ق م میں  اس ملک کا نام انڈیا بتایا تھا۔ ہندوستان کیلئے سندھ ندی کے نام سے کئی الفاظ ہیں  جو طویل عرصہ قبل سے استعمال ہورہے ہیں ۔ دستورِ ہند میں  شامل جملہ ’’بھارت جو کہ انڈیا ہے‘‘ بذات خود ایسا ہے کہ لفظ انڈیا کا جواز اور کئی سوالوں  کا جواب ہے لیکن ہندوتوا وادی لفظ `انڈیا سے پریشان ہیں ، یہ لفظ انہیں  تکلیف دیتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں  کہ ہندوستان کی تاریخ کو نئے سرے سے مختلف تاریخی ادوار میں  بانٹا جائے اور تاریخ کے سب سے قدیم دور، جسے انگریز وں  نے’’ہندو دور‘‘ کہا، کو کلاسک (بہترین) قرار دیا جائے۔ اُس دور میں  مروج اصولوں  کو آج کے سماج میں  مثالی بنا کر پیش کرنا ان کا مقصد ہے۔ آپ جانتے ہیں  منو اسمرتی میں  درج انہی اصولوں  کیخلاف امبیڈکر نے بغاوت کی تھی۔

  ان تمام باتوں  اور پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج یوجی سی اور این سی ای آرٹی کا بنیادی مقصد تعلیم کو زیادہ سے زیادہ معیاری اور با اثر بنانا نہیں  رہ گیا ہے بلکہ ہندوتوا کے  ایجنڈے کو فروغ دیناہے۔ یہ دونوں  ادارے ہندوستان کے جمہوری و دستوری اصولوں کو بھلا بیٹھے ہیں ۔

12 دسمبر 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/ugc-ncert-right-wing-political-ideology/d/131301

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..