ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
20نومبر،2023
علم و سائنس اور متوازن
فکر و شعور سے امن و امان اور سماجی سطح پر حقوق کا تحفظ ہوتا ہے ۔ معاشرے بام
عروج تک پہنچتے ہیں۔ اسی طرح دیگر فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا تعلق یقیناً قوم
و ملت اور ملک سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حساس قومیں اور باشعور معاشرے اجتماعی
مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ
جب بھی قوموں نے انفرادی طور پر مفادات کو ترجیح دی ہے تو تاریخ کے صفحات سے ان کو
پوری طرح نکال دیا گیا ہے ۔ اجتماعیت کا مزاج بن جاتاہے تو پھر زندگی کے متنوع
شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں حوصلہ ملتا ہے ۔ ایسے معاشروں کے
کارنامے پر افتخار ہوتے ہیں ، لیکن حالات اس کے برعکس ہیں کیونکہ جس نظریہ کی بات
اسلام کرتاہے یا جن خطوط پر چلنے کی ہدایت کرتاہے ،اسلام کی اس روح کا نفاذ
معاشرتی سطح پر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ لوگوں نے اپنے اپنے مفادات اور معاشرتی
تقاضوں کو مد نظر رکھ کر چیزوں کو ترتیب دیا ہے، جس کی وجہ سے ایک خلا معلوم ہوتا
ہے ۔ یہ دوری کسی اور وجہ سے پیدا نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کو جان بوجھ کر تخلیق کیا
گیا ہے ۔ اس لیے ان تمام عناصر اور عوامل
پر نہ صرف قد غن لگانی ہوگی، جن سے اسلام کی حقیقی تعلیمات مجروح ہوتی ہیں ۔
معاشرے میں شگاف پڑتا ہے ۔ انسانیت کا دکھ درد متاثر ہوتا ہے ۔ برتری اور فوقیت کو
فروغ ملتا ہے جو کہ ایک مہلک عنصر ہے ۔ ہمارے اس رویے اور سوچ و فکر کے زاویہ نے
اخلاقی قدروں کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے ۔ یاد رکھنا ہوگا کہ معاشرتی برائیوں اور
سماجی تشدد کے سد باب کے لیے علم و فکر کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند بننے کی بھی اشد
ضرورت ہے۔
اسی طرح احتساب تو ان کو
بھی کرنا ضروری ہے جن کے اختیار میں سیاسی نظام ہے ۔ انہیں تو یہ بھی سوچنا ہوگا
کہ جن اصولوں اور عوامی بہبود کی دہائی دے کر آج ہم یہاں تک پہنچے ہیں، کیا ہم ان
کی تکمیل کے لیے پوری ایمانداری سے عمل پیرا ہیں؟ حالانکہ ان کا دعویٰ کچھ بھی ہو
،زمینی حالات تو ببانگ دہل یہ اعلان کررہے ہیں کہ بھارت جیسے سیکولر و جمہوری ملک
کی روح مخدوش ہورہی ہے ۔ خاص کمیونٹی کی تاریخ و تہذیب اور تمدن و معاشرت کے حقائق
کو نہ صرف دبایا جارہا ہے، بلکہ مٹایا جارہا ہے ۔ یہ تمام ایسی باتیں ہیں جن سے
بھارت کی خوبصورتی پر حرف آتا ہے ۔ علم و دانش اور شعور و آگہی کا اولین تقاضا
یہ ہے کہ چیزوں اور حالات کا جائزہ بڑی باریک بینی اور سنجیدگی سے کرنا چاہیے اور
پھر کوئی مستحکم لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔
بھارت کو آزاد ہوئے طویل
عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران مسلمانوں کے معاشی استحکام ، تعلیمی زوال کا خاتمہ ،
سیاسی حصہ داری اور نہ جانے کتنی کتنی باتیں ہوئی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں سے وابستہ
افراد نے ان سے وعدے بھی خوب کیے ہیں ،اس کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔ آ خر
کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب لوگ اپنے اپنے نظریہ اور سوچ و فکر کے حساب سے الگ الگ دے
سکتے ہیں ،لیکن راقم کی رائے یہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ہماری صفوں میں ایک
ایسا ٹولہ رہا ہے، جس نے مصلحت کے تحت چیزوں کو ترتیب دیا ۔ یعنی بظاہر تو یہ ٹولہ
مسلمانوں کا ہمدرد نظر آتا ہے ، قوم و ملت سے ہمدردی کی باتیں خوب کرتا ہے
لیکن حقیقت میں وفاداری مسلمانوں سے نہیں
ہے بلکہ اپنے محدود مفادات اور خود ساختہ مصلحتوں سے ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی
فلسفیانہ گفتگو ہورہی ہے بلکہ اس کا نظارہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں ۔ اب اس کے
دوسرے رخ پر بھی نظر ڈالتے چلیں کہ آج ہندوستان بھرمیں مسلم اقلیت کی جو صورت حال
ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ابھی تک کسی کو اپنا لیڈر یا رہنما مانا ہی نہیں
۔ غلامی سب کی، لیکن اپنی قیادت کھڑی کرنے میں ہم ناکام رہے ۔ سیاسی شعور و ادراک
کی کمی نہیں ہے بلکہ کمی ہے تو اس بات کی کہ ہمارے رہنماؤں سے ہماری بدگمانی
برابر بنی رہی ۔
کسی بھی قوم کا ترقی اور
خوش حالی سے رشتہ اسی وقت وابستہ ہوسکتا ہے جب وہ اپنے کردارو عمل میں مخلص ہو ،
اعتماد و اعتبار کا دامن نہ چھوٹے ، پیہم کوشاں رہنا اور اس کے لیے جد و جہد کرنا
ہی کامیابی کی کلید ہے ۔ اس لیے مسلم کمیونٹی اگر پوری آن بان اور شان کے ساتھ
زندگی گزارنا چاہتی ہے تو اسے اپنے رویہ اور برتاؤ میں اسوۂ حسنہ کو داخل و شامل
کرنا ہوگا ۔ سیاسی و سماجی شعور کو مزید بیدار کرنے کی ضرورت سے بھی انحراف نہیں
کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلم کمیونٹی کے اندر جذباتیت
کا پہلو غالب نظر آتا ہے ۔ یہ حقائق و معارف یا عقلی اور منطقی طور پر سوچنے کی
عادی بہت کم ہے ۔ مذہب و دھرم ، مسلک و مشرب کے نام پر کتنی مرتبہ اس قوم کے جذبات
کو مشتعل کیا گیا ہے اور کیا جائے گا ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم آخر سوچتے
سمجھتے کیوں نہیں ہیں کسی کے بہکاوے میں آکر کیوں استعمال ہوجاتے ہیں ۔ کبھی
سیاسی جماعتیں ووٹ کی خاطر استعمال کرتی ہیں تو کبھی مذہب و ملت اور دین و دھرم کے
نام پر استحصال کیا جاتاہے ۔ اس لیے اپنے حقوق کی بازیابی، سماجی رابطوں کے تحفظ
کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان چہروں اور عناصر کی شناخت کریں جو ہم پر داؤ لگا کر بہت
سارے منافع حاصل کرتے ہیں ۔یہ زمینی حقائق ہیں جن کو ہمیں بہت ہی سنجیدگی سے
سمجھنا ہوگا ۔ بسا اوقات ہمارے غیر سنجیدہ اعمال و اقدام پوری قوم کے لیے شرمندگی
کا باعث ہوجاتے ہیں ۔ ملک میں اب سیاسی فضا اور اس کی تعبیر و تشریح جس تیزی سے
بدلی ہے اس کے اثرات جمہوری و آئینی قدروں کو متاثر کررہے ہیں ۔ قومی مفاد ،
سماجی تانے بانے کی بقاء گویا معدوم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی
ہے ہم ان نظریات یا تصورات کو سماج میں بااثر ہونے سے روکیں جو ہماری تہذیب و تمدن
اور صدیوں پرانی ثقافت گنگا جمنی تہذیب کو متاثر کررہی ہے ۔ اس کے لیے جملہ سیکولر
طاقتوں اور عوامی بہبود کا خیال رکھنے والے افراد کو مل جل کر سعی کرنی ہوگی ۔
سماجی یگانگت اور قومی و بین الاقوامی تعلقات کے اثرات ہمیشہ اطمینان بخش ہوتے ہیں
سماج و معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے عملی مظاہرے سے عالمی سطح پر جو فضا بنتی ہے
اس کا حسن ہمیشہ جھلملاتا رہتا ہے ۔ انسانی رشتوں کے تقدس اور سماجی تقاضوں کی
تکمیل و تعمیر کے تئیں بھی سماجی ہم آہنگی کا ماحول برپا ہونا بہت ضروری ہے ۔ جو
عناصر اس کے برعکس کوئی سعی کررہے ہیں یا وہ سماجی تانے بانے کو تار تار کرنا
چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کو یاد رکھنا ہوگا کہ اگر سماج منتشر ہوتا ہے تو پھر
ہماری پوری شفاف تاریخ جس کے توسل سے بھارت نے اپنی انفرادی حیثیت بنائی ہے وہ
پوری طرح مسمار ہو جائے گی ۔ اس لیے سماجی تانے بانے اور بھارت کی سیکولر روایتوں
کو مستحکم کرنے کے لیے تاریخ کے ان کرداروں اور رویوں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے
،جن کے بارے میں برادران وطن کو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے یا سماج دشمن عناصر جان
بوجھ کر شکوک وشبہات پیدا کررہے ہیں ۔ بھارت سب کا ہے، یہی سچائی ہے اور یہی یہاں
کی پہچان ہے ۔ بھارت کو کبھی بھی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں جانا گیا ہے ۔ اس
لیے ان تمام روایتوں کی قدر کرنی ضروری ہے جو ملک کی یکجہتی میں ممدو معاون ثابت
ہو سکیں ۔
20 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism