New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 07:44 AM

Urdu Section ( 11 Jul 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Today’s Muslim: Who is a Momin and who is a Kafir? آج کا مسلمان: کون مومن ہے اور کون کافر ہے؟

آصف مرچنٹ، نیو ایج اسلام

7 جولائی، 2012

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

ایسا لگتا ہے جیسے دنیا بھر میں صرف مسلمان ہی ہر مرحلےمیں  اپنے مذہبی تشخص پر زور دینے کی کوشش کرتےہیں۔ سیہاں تک کہ جیسے دنیا کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دارالحرب (جنگ کا مسکن) اور  دارالاسلام  (اسلام یا امن کا مسکن) ۔  یہ کس طرح کی حقیقت ہے؟ پاکستان کو  اسلام یا امن کا مسکن یا دارالاسلام  کہا جا سکتا ہے؟ کون سے مسلم ممالک دارالاسلام کی فہرست میں شامل ہونے کے اہل ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسے بھی دیگر ممالک ہیں جو اس فہرست میں شامل ہونے کے اہل ہیں، لیکن انہیں اس میں شامل نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ وہ غیر مسلم اکثریت والےممالک ہیں؟ ہمارے لوگوں کو یہ منافقت بند کرنی چاہیئے۔ہمیں  ممالک   کومسلمان بمقابلہ  غیر مسلم  میں تقسیم کرنے کے آگے بھہی دیکھنا چاہیئے۔ اس طرح کے خیالات  نےدنیا بھر میں قیام امن کے تعطل میں  اہم کردار ادا کیا ہے، اور اس طرح انہیں  اسلام مخالف کہا جا سکتا ہے۔

جب شاہ ایران پر راج کر رہے تھے، آیت اللہ خمینی  کو  خود کی حفاظت کے لئے اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ دنیا میں بہت سے مسلم ممالک ہیں، لیکن انہوں نے ، فرانس ایک دارالحرب ملک، کو منتخب کیا؟  ایسا اس لئے کیونکہ زیادہ تر مغربی ممالک نے تب بھی انہیں امن اور سیکورٹی فراہم کی  جب وہ ان ملکوں کے ساتھ  اختلاف  رکھتے تھے؟ ستمبر 2001 کے واقعات تک، مغربی ممالک تمام مسلمانوں کے لئے امن کی ایک پناہ گاہ تھے۔ دار الاسلام؟ ایک ایسا خطہ جہاں کسی کی  تخلیقی صلاحیتوں کو مکمل طور پر تلاش کیا جا سکتا  ہے اور اسے  ترقی فراہم کرائی جا سکتی ہے۔

 اس کے بعد جب بہت سے مسلمانوں نے اسلام کی عظمت کے ثبوت کے طور پر 9/11 کے واقعات کے لئے کریڈٹ کا دعوی کیا،  یہ فطری ہے کہ  پوری دنیا میں  بے گناہ مسلمانوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔  اسلام کے نام پر تشدد کی ہر قسم  کے اعمال  کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ کئی سالوں تک مسلم مبصرین کی جانب سے  اس کی بہت کم مزمت کی گئی۔ آخر میں ایک 'فتوی' آیا  کہ دہشت گردی غیر اسلامی ہے۔  یہ کس قدر شرمناک ہے کہ  جو واضح ہے اسے بیان کرنے کے لئے ایک فتوی کی ضرورت پڑی۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک حمایت کا  وہ طریقہ  جس کے ساتھ غیر مسلمانوں نے اس کی تعریف کی تھی۔  ہم کس حد تک نیچے گر گئے ہیں؟

 مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ   اسلام جمہوریت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔  اس کے لئے جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ جمہوریت میں حاکمیت عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جبکہ اسلام  صرف خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ لہذا  جمہوریت کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ  "خدا کی حاکمیت پر کس طرح عمل ہوتا ہے"؟  ظاہر ہے کچھ انسانوں کے ذریعے، لیکن کون سے انسانوں کے ذریعہ؟  کیا یہ  علماء  کی حکمرانی قائم کرنے کی ضرورت  کی کوشش ہے؟  کو ن سا ملک ہے  جہاں اس نام نہاد 'خدا کی حاکمیت' کی حکمرانی ہے اور ایسی مثال ہے جس پر رشک کیا جا سکے؟

عملی طور پر ہر جائز میدان میں، مسلمان دیگر تمام لوگوں سے  بہت  پیچھے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ  نے اسے عیاں کیا ہے۔  تو کیا ہمیں حکومت کی جانب دیکھنا چاہیئے کہ وہ ہمیں اس پستی سے باہر نکالے جبکہ خود ہم مسلمانوں کے پاس  بہت  پیسہ ہے۔  پیسہ بہت ہے، لیکن  خدمت خلق کا جذبہ غائب ہے۔ مثال کے طور پر مہاراشٹر کا کونکن  ساحل ہے، جہاں بہت سے مسلمان خاندان رہتے ہیں۔ عملی طور پر ہر خاندان میں سے کوئی ایک شخص خلیجی ممالک میں  کام کرتا ہے۔   یہ لوگ وہاں خوب پیسہ کماتے ہیں اور اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔ یہ کس طرح خرچ کیا جاتا ہے؟ یہ جنت میں ایک  مقام خریدنے کی کوشش میں خرچ کیا جاتا ہے۔ ہر جگہ  مساجد کی تعمیر کرائی جاتی ہے۔ ان  مساجد میں سے  ہر ایک دوسرے سے زیادہ شاندار  ہے۔  لیکن  اس علاقے میں کوئی اسکول نہیں ہے۔ بچوں کو پنچ گنی  کے بورڈنگ اسکولوں میں سے کسی ایک میں بھیجا جاتا ہے۔ کوئی ہسپتال بھی  نہیں ہے۔  بیماروں کو  مہا بلیشور کی پہاڑی  سے نیچے  وائی لانا ہوتا ہے جہاں بہترین طبی سہولت  دستیاب ہے۔وائی میں مسلمانوں کی بڑی آبادی رہتی ہے لیکن ان میں ایک بھی مسلمان ڈاکٹر نہیں ہے۔پہلے کی نسلوں سے  صرف مسلم وکلاء ہیں۔

مسلمانوں کو یقینی طور پر گمراہ کیا گیا ہے۔  یقینا یہ وہ نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تصور کیا تھا۔ اب مسلمانوں کے درمیان ان مختلف رسومات کے عمل پر  زور ہے جو جنت میں مقام کو یقینی بنا سکیں۔  مکمل طور پر خود مرکوز ہے۔ نام نہاد 'اسلام کے سطون' انسانیت  کی تہذیبی ترقی میں کسی بھی طرح کوئی تعاون نہیں کر رہے ہیں جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔

اسے ہندوئوں سے موازنہ کریں، جنہیں بہت سے مسلمان حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔  چند سال پہلے میری بہن کو ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ گنیش مہوتسو کے دوران  ہر صبح،  ڈاکٹر کی طرف سے پوجا منعقد کی جاتی تھی۔ یہ پوجا تمام انسانیت کے لئے دعا کے ساتھ ختم ہوتی تھی۔  ہماری ملکیت کو ایک  ہندو خاندان  نے خرید لیا تھا۔  انہوں نے وہاں پر  'ہون'   منعقد کیا اور ہمیں مدعو کیا ۔  مسلمان عام طور پر اپنی تقاریب میں  غیر مسلمانوں کو بلانے سے بچتے  ہیں۔  میں نے شرکت کی، اور یہاں تک کہ  پوجا کے دوران کچھ دیر کے لئے ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے بھی  مدعو کیا گیا۔ یہاں ہر ایک سنسکرت شلوک کے  بعد اس کا گجراتی میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ اس کا بھی اختتام  تمام انسانیت کے لئے دعا کے بعد ہوا۔  

کون 'مومن'  ہے اور کون 'کافر' ہے؟

آصف مرچنٹ پنچ گنی ( مہاراشٹرا، ہندوستان)  کے قریب رہنے والے آزاد مفکر ہیں۔  اور وہ نیو ایج اسلام کے لئے  کبھی کبھی کالم لکھتے ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/the-war-within-islam/being-muslim-today-momin-kafir/d/7855

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/today’s-muslim-momin-kafir-/d/7890

 

Loading..

Loading..