New Age Islam
Tue Sep 17 2024, 11:18 AM

Urdu Section ( 20 Jun 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Jurists Are Wrong, Husbands Cannot Beat Wives مسلم فقہاء کا موقف غلط ، شوہر بیویوں کو زد و کوب نہیں کر سکتے

ٹی ، او ، شناواس ایم ڈی، نیو ایج اسلام

23 مئی 2018

اسلام سے نفرت کرنے والے بہت سے لوگ قرآن کو زن بیزار مذہبی کتاب ثابت کرنے کے لئے قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں :

( الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضهم علی بعض وبما أنفقوا من أموالهم فلاصالحات بأن الله واللاتی تخافون نشو(الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا)

"اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی (نُشُوزَهُنَّ) کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وه تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی وا ہے"(قرآن 4: 34)۔

اور اس بنیاد پر اسلام کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن ازواجی تشدد کی اجازت دیتا ہے لہٰذا اسلام ایک زنبیزار مذہب ہے۔ اگر قرآن کی اس آیت کو قرآن کی باقی تعلیمات سے الگ کر کے دیکھا جائے تو ان کا دعویٰ بظاہر صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو یہ پوچھنا چاہئے ہے "کیا کوئی کسی ایسی عورت کو جانتا ہے جسے ازدواجی تشدد میں ‘‘خوبصورتی اور عزت’’ دونوں حاصل ہو ؟" ہو سکتا ہے کہ ماسوکزم (masochism) نامی غیر معمولی ذہنی کیفیت سے دوچار خواتین کو اس میں "خوبصورتی اور وقار" دونوں ملتا ہو۔ مذکورہ آیت پر انحصار کرتے ہوئے فقہاء نے جو ازواجی تشدد کا جواز پیش کیا ہے اس میں''خوبصورتی یا وقار'' کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ملتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہوا کہ آپ نے اپنی کسی بھی زوجہ مطہرہ کے ساتھ کبھی کوئی مار پیٹ کی ہو۔ اور اگر مسلمانوں کا یہ دعوی صحیح ہے کہ اسلام عورتوں کو آزادای عطا کرتا ہے ، تو مسلمانوں کو شوہروں کی جانب سے بیویوں کو زدو کوب کئے جانے کے معاملے میں فقہاء کے جواز کی تردید کرنی چاہئے ۔

آیت 4:34 کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ہمیں اس آیت کے سیاق و سباق اور اس کے پیغام کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس آیت کے سیاق و سباق کے سلسلے میں مفسرینِ قرآن کے درمیان کوئی ایک رائے نہیں ہے۔

بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت سودة بنت زمعۃ رضی اللہ عنہا (وفات 54/674) کو اس بات کا خطرہ گزرا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم انہیں طلاق دے دینگے ، لہٰذا ، آپ نے اپنے کچھ حقوق معاف کر دئے تاکہ وہ انہیں طلاق نہ دیں۔

لیکن یہ روایت غلط ہے ، کیونکہ ان مفسرین کو یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ سودة بنت زمعۃ کے دل میں کیا تھا ؟ اس کے علاوہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو آپ کا انتخاب کرنے کا حق دیا تھا۔

دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب شوہر کی دوسری شادی سے شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔

لہذا، مفسرین کے درمیان اس آیت کے شان نزول پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان مروی شان نزول سے اس آیت کا صحیح معنیٰ نہیں حاصل کرسکتے۔ مفسرین صرف اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان مصالحت علیحدگی سے بہتر ہے۔ [حوالہ : (Conference of the Books) خالد ایم. ابو الفضل]۔

فقہاء کا کہنا ہے کہ قرآن میں عربی لفظ "نشوز " کا معنی اور ‘‘غرور اور سرکشی’’ ہے ، اور ناشز "مغرور اور سرکش و نافرمان" کو کہتے ہیں۔ ابن رش (متوفی 520/1126) نے کہا کہ ناشز وہ سرکش خاتون ہے جو نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے یا الودگیوں سے پاک ہونے کے لئے تیار نہ ہو۔ لیکن لفظ نشوز کا استعمال مردوں کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔

اللہ فرماتا ہے:

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

"اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد دماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناه نہیں۔ صلح بہت بہتر چیز ہے۔۔۔" (قرآن 4:128)۔ لفظ نشوز کی جو تعریف فقہاء نے (مغرور اور سرکش و نافرمان انسان ) کی ہے اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ سوال کرنا چاہئے کہ کیا مذکورہ آیت میں لفظ نشوز سے مراد شوہر کی جانب سے اپنی کی بیوی کی نافرمانی مراد ہے؟" اس سوال سے پریشان ہو کر فقہاء نے یہ کہا کہ بیوی کے معاملے میں (نشوز) کا معنی نافرمانی ہے، اور شوہر کے معاملے میں ایک سنگین گناہ (فاحشة مبینة) ہے۔ وہ ایک ہی جیسی صورت حال میں ایک ہی لفظ کے لئے مختلف معانی کیوں پیش کر رہے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کے معاملے میں بھی نشوز کا معنیٰ ایک سنگین اور واضح گناہ ہے؟ یہ سوالات بالکل بجا ہیں ۔

مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج میں فرمایا کہ، "اے لوگوں، میں تمہیں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہوں کیونکہ وہ تمہاری مددگار ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کوئی سنگین واضح گناہ (فاحشة مبینة)نہ کر بیٹھیں۔ اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو ان سے اپنا بستر الگ کر لو اور ہلکی مار لگاؤ ، لیکن وہ باز آ جائیں تو ان کے خلاف حد سے تجاوز نہ کرو"۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر خالد ایم ابو الفضل لکھتے ہیں:"مجھے یہ لگتا ہے رسول اللہ ﷺ نے لفظ فاحشة مبینة کا استعمال لفظ (نشوز) کے مترادف کے طور پر کیا ہے ، اور لفظ (نشوز) کا مطلب فاحشة مبینة (ایک سنگین اور معروف گناہ) ہے"۔ [حوالہ : (Conference of the Books) خالد ایم. ابو الفضل]۔ اگر ایسا ہے تو لفظ نشوز کا معنیٰ "نافرمانی یا محض اختلاف رائے" نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کا معنیٰ بد کاری ہو گا۔

شوہروں کی جانب سے اپنی بیویوں کو مارنے کے معاملے میں فقہاء کے جواز کو مسترد کرنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ جن میں سے کچھ کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ خدا سے ڈرنے والے ایک مثالی مسلمان شوہر کو انسانی فطرت پر قرآن کی یہ وضاحت جاننا ضرور ی ہے(قرآن 2:128): "اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اود میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، تو توبہ قبول فرمانے وا اور رحم وکرم کرنے وا ہے’’۔ ممکن ہے کہ یہ اسے انصاف کرنے سے روک دے۔ اللہ کا فرمان ہے:

"اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آماده نہ کردے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیاده قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ "[قرآن 5:8]۔

"اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مو کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے"(4:135)۔

لہذا، غضے اور ناراضگی کی حالت میں مرد فیصل اور انصاف پسند نہیں ہو سکتا اور خاص طور پر اپنی اس بیوی کے ساتھ جس کی طرف سے اسے نشوز (بدکاری) کا اندیشہ ہو۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"فیصل کو دو لوگوں کے درمیان اس وقت فیصلہ نہیں کرنا چاہئے جب وہ غصے میں ہو۔" (سنن الترمذی 1334)؛

"جو اپنی بیویوں کو مارتا ہے اسے تم اپنے درمیان بہتر انسان نہیں پاؤ گے۔" (ابو داؤد : سنن جلد 1، صفحہ 292)؛

"تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی ساتھ بہتر ہے۔" ( ابن ماجہ : سنن باب حسین معاشرت النساء، صفحہ 142)۔

لہذا، علیم و رحیم اللہ کی منشا نشوز (بدکاری) کے لئے بیویوں کو اپنے غضبناک شوہروں سے زد و کوب کروانے کی نہیں ہے۔ لہذا، نشوز کے لئے مقدمہ چلانا، سزا دینا اور اس کے لئے سزا کی نوعیت کا تعین کرنا جج کا کام ہے شوہر کا نہیں۔

اور معاملہ جب قانونی عدالت میں ہو تو اپنے دفاع میں شہادت اور گواہی پیش کرنا زوجین کا کام ہے۔

"جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔ جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لائیں اور ان کا کوئی گواه بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وه سچوں میں سے ہیں۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وه جھوٹوں میں سے ہو۔ اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وه چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو۔ [9-24:4]۔

ان آیات کے مطابق نشوز (بدکاری) کا الزام لگانا ایک سنگین معاملہ ہے اور الزام عائد کرنے والے کے اوپر ضروری ہے کہ وہ اسے ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کو پیش کرے۔ صرف ایک اتفاقی گواہ کافی نہیں ہے۔ اور اگر اس کا کوئی عینی شاہد نہ ہو تو شوہر سے گواہ کے طور پر چار مرتبہ حلف لیا جائے گا بشرطیکہ بیوی حلف لینے سے انکار کرے۔ اور اگر بیوی الزام سے انکار کردے اور خدا کے نام پر حلف اٹھا لے تو شوہر کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ بہ الفاظ دیگر اگر بیوی شوہر کے خلاف حلف اٹھا لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے شوہر کے الزام کو خارج کر دیا ہے۔

اس قانونی طریقہ کار میں لعن کے بعد اس امر کا فیصلہ نہیں ہوتا کہ قانونی طور پر مجرم کون ہے؛ دونوں فریق تمام قانونی نتائج سے بری کر دئے جاتے ہیں۔

 نشوز کا الزام ثابت ہو جانے کے بعد خواہ اس کا ارتکاب شوہر نے کیا ہو (قرآن 4:128) خواہ بیوی نے (قرآن 4:34) سزا دونوں کے لئے برابر ہے۔ اس لئے کہ خدا کی نظر میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مجرم کون ہے بلکہ فیصلہ عمل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ انصاف، انعام اور انتقام کا حکم مرد اور عورت دونوں پریکساں ہے:

"جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔ (قرآن 16:97)

‘‘پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواه وه مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو’’۔ "(قرآن 3:195)۔

.......یہ ہے صنعت اللہ کی جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے..........۔ "(قرآن 27:88 )۔

آخر میں جج پہلے انہیں اپنی اصلاح کرنے اور اس سے بھی کام نہ بنے تو پھر اپنا بستر الگ کر لینے جیسے مرحلہ وار انداز میں سزا کا حکم دے سکتا ہے ۔ قرآنی حکمت کا مقصد زوجین کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ مصالحت قائم کرنا ہے:

"اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد دماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناه نہیں۔ صلح بہت بہتر چیز ہے..........۔ "[قرآن 4:128]۔

اگر سرکش بیوی یا سرکش شوہر پر یہ تمام طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو آخری تدبیر کے طور پر جج مجرم کے لئے جسمانی طور پر کسی سزا کا تعین کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس صورت میں بھی بدکاری کے لئے بیوی یا شوہر کو مارنے کی بات علامتی یا برائے نام ہے۔ اور اس سے مراد "چوٹ یا درد کے بغیر صرف ایک ضرب " ہے۔ [حوالہ: ابن ماجہ : سنن ، صفحہ 133۔ مسلم: صحیح ، جلد۔ 1، صفحہ 291]۔ اور اگر اس طرح کے علامتی ضرب سے کام نہ بنے اور شوہر / بیوی قرآنی احکام کی تکمیل کرنے سے قاصر ہوں تو:

‘‘.........ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو...................’’ "شوہر قانونی طور پر شادی شدہ نہیں رہ سکتا۔

قرآن کی تعلیم ہے:

"انہیں اچھی طرح بساؤ، یا بھلائی کے ساتھ الگ کردو اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم وزیادتی کے لئے نہ روکو"۔ [قرآن 2:231]۔

خلاصہ یہ ہے کہ بیویوں کی جانب سے نشوز کی صورت میں شوہر مدعی ، فیصل اور سزا دینے والے نہیں بن سکتے۔ اس معاملے میں حقیقت کیا ہے اس کا تعین کرنا صرف عدلیہ یا جج کا کام ہے۔ اگر تنبیہ کرنے ، بستر الگ کرنے ، علامتی ضرب لگانے یا معقول طریقے سے مصالحت سے کام نہیں بنتا تو اس صورت میں شوہر اور بیوی کی جانب سے درست اقدام احسان کے ساتھ طلاق دینا ہے۔ آیت 4:34 کے متعلق فقہاء کی زنبیزار تشریح کے برعکس، اس آیت کی جو تشریح میں نے پیش کی ہے اس میں مجھے "خوبصورتی اور وقار" دونوں نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ کسی بھی آیات قرآنیہ کے معنی کے تضاد کے بغیر داخلی طور پر ہم آہنگ بھی ہے۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/muslim-jurists-wrong,-husbands-beat/d/115332

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-jurists-wrong-husbands-beat/d/115584

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..