Instead of America and the Arab world making that report their joint post-bin Laden agenda, they ignored it. Washington basically gave the Arab dictators a free pass to tighten their vise grip on their people -- as long as these Arab leaders arrested, interrogated and held the Islamist militants in their societies and eliminated them as a threat to us. As the Arab leaders choked their people that much tighter, along came Facebook, Twitter and cell phone cameras, which enabled those people to share grievances, organize rebellions, lose their fear and expose their leaders. That's the good news. The challenging news is that because of the bin Laden decade, these newly liberated Arab states are in an even deeper hole in terms of economic development, population growth and education. -- Thomas L. Friedman
URL for English Article: http://www.newageislam.com/islam-and-the-west/bin-laden-dug-a-huge-hole-for-arab-states,-us-and-israel/d/4772
URL: https://newageislam.com/urdu-section/osama-construction-guise-destruction-/d/4773
تھامس فریڈ مین
گذشتہ ہفتے میں نے مشرقی وسطیٰ کے دور ے میں حالات کا گہرا جائزہ لیا اور واپس آکر واشنگٹن میں سوچا تو ایک تاثر یہ پیدا ہوا اور ذہن پر چھایا رہا کہ واقعتاً اسامہ بن لادن نے ہم سب کے لئے کچھ نہ کچھ بہتر بھی کیا ۔
یہاں اس تعلق سے میں عرب ریاستوں ، امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں بات کررہاں ۔ جن کی چھاتی میں اتنے چھید ہیں کے وہ بن لادن کی دہائی کی برکتوں کو علیحدہ کرکے نہیں سیکھ سکتے۔2001کے دوران اسامہ بن لادن نے وولڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹا گون پر حملے کئے ۔ ان واقعات کے بعد 2002میں اقوام متحدہ نے ‘‘عرب انسانی ڈپولپمنٹ رپورٹ کا اجرا کیا جس میں ان امراض واسباب امراض کا تفصیلی ذکر تھا ۔ جنہوں نے القاعدہ کو جنم دیا اور ساتھ ہی ان کے تدارک کا علاج تجویز کیا۔ یہ رپورٹ عرب ماہرین نے تیار کی جس میں بیان کیا گیا تھا کہ عرب ممالک تین محاذوں پر شرمناک صورتحال سے برسرپیکار ہیں ۔ اوّل یہ کہ وہاں آزادی اور انسانی حقوق کا احترام نہ کے برابر ہے۔ دوئم اسکول کی سطح پر تعلیم کی روشنی کم ہے اور سوئم عورتوں کے حقوق کا گھلا گھوٹا جاتا ہے۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ اسی اہم رپورٹ پر امریکہ اور عالم عرب کو مل جل کر دھیان دینا چاہئے تھا اور بن لادن کے بعد کے عہدہ کے دوران اپنے ایجنڈے میں سنجیدگی سے شامل کرنا چاہئے تھا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر امریکہ نے عرب آمرو ں کو ڈھیل دے رکھی ہے کہ وہ اپنے اپنے عوام پر اپنا شکنجہ جکڑے رکھیں۔ان عرب حکمرانوں کو چھوٹ ملی کہ وہ نام نہاد اسلامی جنگجوؤں کو گرفتار کریں۔ انہیں تفتیش کے تکلیف دہ مرحلے سے گزاریں اور یہ ظاہر کریں کہ وہ ہمارے لئے اور اس عرب سماج کےلئے خطرہ ہیں، ان کا صفایا کیا جائے۔
درحقیقت یہ ڈھیل کوئی خوشگوار آزادی نہیں تھی اور واقعتاً ہمیں جہاد یوں کی طرف سے سیکورٹی کے خدشات پیدا ہوئے ۔ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم آزادی پر اپنے ایجنڈے کو ترک کریں۔ لیکن مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو اچھی طرح احساس تھا کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں یہی وجہ تھی کہ مبارک نے ایک مصری رہنما کو گرفتار کیا جس نے ان کے عہدے کے آخری صدارتی انتخابات میں کھڑے ہونے کی ہمت کی تھی۔ مبارک اور ان جیسے دیگر عرب آسروں نے یہ روایت جاری رکھی کہ وہ اپنے اپنے بیٹوں کو جانشین بناتےرہے۔
ایک طرف عرب حکمراں اپنے عوام کاگلا گھونٹتا رہے تودوسری طرف ایک ایسا دور آیا جب فیس بک ،ٹوئٹر جیسی ویب سائٹ اور سیل فون کیمروں کی باڑھ آگئی جس کی بدولت ان عوام کی زندگی میں سنہری موقعہ آیا کہ ان کی صعوبتوں سے دنیا واقف ہونے لگی ،ان کے اندر بغاوتیں منظم کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ انہوں نے دلوں سے خوف کو الوداع کہا اور اپنے حکمرانوں کے چہروں پر سے نقاب نوچ ڈالی‘‘ ذرا مسکر ائے ! آکے جو روستم کیمرے کی نظر میں ننگے ہوگئے ہیں۔’’
یہ ایک اچھی خبر ہے ۔چیلنج کرنے والی خبر یں یہ ہے کہ بن لادن کی دہائی کی برکت تھی کہ نوآزاد عرب ریاستوں میں اقتصادی ترقی ،شرح آبادی کا اضافہ اور تعلیم کی بد ترصورتحال ننگی ہوکر سامنے آگئی ۔ ان ریاستوں کو اب تکلیف دہ اقتصادی وتعلیمی اصلاحات کے لئے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی جس کے لئے ہمہ گیر امداد درکار ہوگی۔
لیکن اگر کوئی شخص قاہرہ کا ایک تیز رفتار دورہ کرے تو وہ بہت جلد بھانپ جائے گا کہ مصر ایک سیاسی خلا سے گزررہاہے اور اگر کوئی چیز اپنا رجحان دکھا رہی ہے تووہ ہے اقتدار جمہوریت کی سمت سفر او رمنڈی والی اقتصادیات تاہم پونجی کو اقتصادی نظام میں ڈالنے کے عوض مصر کو غالباً آئی ایم ایف جیسی امداد کو قبول کرنا پڑے گا جس میں خستہ حالت کی اصلاح پیکج اور سرحدی نوکریوں کے امکانات چوٹی پر ہے ۔ٹھیک اب کوئی مصر ی اپنی یا سیاسی حمایت کو اختیار نہیں کردہ ایسی اصلاحات نافذ کرنے کی طاقت رکھ سکیں۔
امریکہ میں صدر جارج بش نے اس وقت نائن الیون کے بعد اقتصادی بحران کو حل کرنے کے لئے دوسری ٹیکس کٹوتی کی جسے ہم وراثت نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے اس بات پر عمل کیا کہ میڈیکئر پرسکرپشن ڈرگ انٹا کمٹمنٹ (شہری کے طبی حقوق) کے اخراجات کا متحمل ہونا ممکن نہیں رہا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے نائن الیون کے بعد دو جنگیں شروع کردیں اور ان جنگجوؤں کے لئے ٹیکس میں اضافے نہیں کئے ۔ اور تمام وقت ہم یہ سو چ کر رقم پس انداز کرتے رہے اور وہ بھی اس توقع سے کہ بے بی بوہرزناگزیر ریٹائرمنٹ میں استعمال ہوگی۔ پس ہماری قوم کا مالیاتی گڑھا پہلے سے زیادہ گہرا ہوگیا اور ریپبلکن نیز ڈیموکریٹ جماعتیں ایک دوسرے سے متحد ہوکر کام کرنے کی بجائے اور سیاسی حکمرانی پیدا کرتیں کہ جس کی ہمیں ضرورت تھی ،ہمارے کھانے پینے کے اخراجات کے عوض کسٹر آئیل جیسی بناوٹی شے بھی لے لی ۔
جیسا کہ اسرائیل کے سیاسی نظریہ ساز یرون عزرا ہی نے اشارہ کیا تھا کہ ‘‘حکومت کرنے کے عمل کی بنیاد اس حکمرانی پر ہے جو دوباتوں میں سے ایک بات پر تکیہ کرتی ہے۔ اعتماد کے ذریعہ یا خوف کے ذریعہ ۔حکمرانی کے دونوں ذرائع کا آج شیرازہ بکھر رہا ہے۔‘‘عرب لیڈران اب خوف کے شکار ہیں اور اب عوام ان سے دہشت زدہ نہیں ۔مغربی جمہوریتوں پر اعتماد کے فروغ کے ساتھ حکمرانی ہورہی ہے۔ لیکن ان کے معاشرے سے زیادہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں ۔
اسرائیل بھی اس مسئلے کا شکار ہے ۔فلسطین کے سابق صدر یاسر عرفات نے ایک موقع پر دوسرے کابینہ کا فیصلہ کیا تھا اور صدر بل کلنٹن کے دوقومی امن منصوبے کو گلے نہیں لگا یا جس کے بعد بن لادن کو عروج حاصل ہوا، جس کے سبب امریکہ پوری طاقت سے امن عمل کی جستجو نہیں کرسکا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل کو فری ہینڈل کیا کہ وہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کو خوب توسیع دے ۔ آج مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے اندر پانچ لاکھ آباد کار سکونت اختیار کرچکے ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/osama-construction-guise-destruction-/d/4773