New Age Islam
Mon May 12 2025, 05:54 PM

Urdu Section ( 22 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Theological Differences Of Islamic Scholars in The Sub-Continent برصغیر میں خطیبوں کا پھیلایا ہوا مذہبی انتشار

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

22 نومبر،2024

برصغیر ہند میں اسلام کی تفسیر و تبلیغ کا باقاعدہ آغاز شاہ ولی اللہ نے اٹھارھویں صدی میں کیا جب انہوں نے مغل ہندوستان میں قرآن کا پہلا فارسی ترجمہ پیش کیا اور حدیث کی تعلیمات کو عام کیا۔۔ آن کے بعد ان کے صاحب زادے شاہ عبدالقادر نے قرآن کا اردو ترجمہ کیا ۔ لیکن اسی کے ساتھ ہی برصغیر میں دینی اختلاف کا دور بھی شروع ہوگیا۔ علماء کے ایک طبقے نے شاہ ولی اللہ پر دین میں بدعت کے فروغ کا الزام لگایا۔ ان کا نقطہء نظر یہ تھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس لئے اس کلام کا ترجمہ کسی زبان میں کامیابی سے نہیں کیا جاسکتا۔اس بنیاد پر ان کے خلاف فتوی بھی جاری کیا گیا اور ان پر جان لیوا حملہ بھی ہوا۔

یہ واقعہ برصغیر کےمسلمانوں میں نظریاتی اختلاف کا نقطہء آغاز تھا ۔ قرآن کے ترجمہ و تفسیرپر برصغیر میں دو طبقے ہیدا ہوگئے۔ ایک طبقہ ترجمے کو قرآن کی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ کے لئے لازم مانتا تھا تو دوسرا طبقہ ترجمے کو مسلمانوں میں گمراہی کا سبب سمجھتا تھا۔ اگرچہ بعد کے تقریباً تمام علمائے دین نے قرآن کا اپنی اپنی فہم ودانش کی بنیاد پر ترجمہ کیا اور تفسیربھی لکھی لیکن اب بھی انہی علماء اور مفسرین کے ہیروکار ترجمہ پڑھنے کو باعث گمراہی قرار دے کر ترجمہ پڑھنے کی حوصلہ شکنی ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔

بات صرف قرآن کے ترجمے پر اختلاف تک محدود نہیں رہی بلکہ دین کے دیگر احکام جیسے نماز ، پردہ ، تعلیم ، سائنسی موضوعات کی تعلیم ، تعلیم نسواں ، عشق رسول ، اہانت اور اذان سے متعلق بے شمار معاملات میں علماء اور خطیبوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور ان اختلافات کی بنیاد پر مسلک اور گروہ وجود میں آگئے۔ برصغیر میں مذہبی اسکالروں کے ذریعے دینی امور کی تشریح و تبلیغ کے نام پر عوامی وعظ و تقریر کی روایت شروع سے ہی قائم ہوگئی اور دینی معاملات پر عوامی جلسے منعقد کرنا اور ان میں مذہب کے اختلافی امور پر تقریر کرنا مذہبی آزادی کا حصہ سمجھا جانے لگا۔ ان تقریروں میں علمی مباحث کم اور مخالف گروہ اور مسلک کے خلاف اشتعال انگیز باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ہر عالم اور خطیب دوسرے عالم اور خطیب کو غلط اور گمراہ قرار دیتا ہے اور ان کے موقف کو ناقابل تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عام مسلمان دینی معاملات میں تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے اور مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کو گمراہ اور بدعتی سمجھنے لگتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے نام۔پر ان خطیبوں نے مسلمانوں میں مسلکی منافرت اور غیر اسلامی عقائد کو فروغ دیا ہے جو مسلمانوں میں تشدد اور خونریزی کا سبب بن چکے ہیں۔یہ منظرنامہ موجودہ پاکستان میں زیادہ نمایاں ہے جہاں علماء اور خطیب بے لگام ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کافتوی لگاکر ان کے قتل کا حکم جاری کردیتے ہیں اور انکے قتل پر انعام کا اعلان بھی کردیتے ہیں۔

مذہبی آزادی کا یہ غلط استعمال ہے جو صرف برصغیر ہندوپاک وبنگلہ دیش میں ہی زیادہ ہے ۔ مرکزی ایشیا اور عرب و افریقی مسلم ممالک میں دینی معاملات پر عوامی تقریر کا رواج نہیں ہے اس لئے وہاں مسلمانوں میں اتنا مذہبی انتشار اور مسلکی منافرت اور مذہبی تشدد نہیں ہے۔ ان ممالک میں علماء سرکاری یدایات کےمطابق ہی تقریرکرسکتے ہیں اور وہ بھی مخصوص مواقع یا مجلسوں میں۔ انہیں عوامی جلسے منعقد کرکے مذہبی معاملات میں اختلافی بیانات دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاجکستان ایسا ہی ایک۔ملک ہے جہاں عوامی جلسے کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں مسلکی منافرت اور مذہبی تشدد کم ہے۔برصغیر ہندوپاک و بنگلہ دیش میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں مسلکی ملا عوامی جلسے منعقد کرکے فروعی دینی معاملات اور موضوعات پر اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کافر اور مشرک ثابت کرتے ہیں۔یہ ملا قرآن کی بنیادی تعلیمات اور اسلام کی روح سے نابلد ہوتے ہیں اور اپنی محدود تعلیم اور فہم کی بنیاد پر مسلمانوں میں انتشار پھیلاتے ہیں۔ ان خطیبوں اور ملاؤں نے مسلمانوں میں دین کی صحیح سمجھ پیدا کرنے کے بجائے ان میں تفریق اور انتشار پیدا کیا ہے۔

مسلمانوں میں دینی تعلیم کے لئے مدرسے اور مکتب ہر شہر اور قصبے میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ علماء اپنے نظریات کتابوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر ایک مسلمان کو اختیار ہے کہ انہیں اپنائے یا رد کردے ۔ عوامی جلسوں کا یہ متوازی نظام مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا کے فروغ نے ایسے خطیبوں کے لئے مسلکی نظریات پھیلانے کا ایک اور پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے ۔غہر ذمہ دار خطیب اور ملا سوشل میڈیاکو اپنے مسلکی اور منافتی نظریات پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور مسلمانوں کو انتشار اور تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ برصغیر کی حکومتیں سوشل میڈیا پر اور عوامی جلسوں میں مذہبی معاملات پر تقریریں کرنے اور مسلکی اور غیر اسلامی عقائد کی تبلیغ اور اشاعت پر پابندی لگائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ضروری قانون سازی کریں۔

---------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/theological-differences-islamic-scholars/d/133789

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..