ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
13دسمبر،2024
توحید کی امانت ہمارے سینوں میں ہے۔ تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ پھر یہ تفرقہ کیوں ہے؟اسلام کی پوری عمارت عقیدہ توحید پر کھڑی ہے۔رسالت اس کی اگلی منزل ہے۔ رسالت کی منطق انسان اور انسانیت تک منشی ومشیت ربیکی رسائی کے نظم کو وجود میں لانا ہے۔رہبری کے فریضے کا ملکلف ومتحمل کوئی رہبر کامل ہی ہوسکتاہے جس کو خالق کائنات خود مقرر فرمائے۔اس مقام پر نہ کوئی خود قائم ہوسکتا ہے، نہ پہنچ سکتا ہے او رنہ ہی کسی کو اس تعلق سے ایسا کرنے کا اختیار ہے۔قادر مطلق صرف اللہ رب کریم ہی کی ذات اقدس ہے۔ کن فیکون کا وہ تنہا خالق و مالک ہے۔ الوہئیت میں اس کا کوئی شریک ہی نہیں، تمام انبیاء کرام اللہ رب العزت کا بنا شرکت غیر انتخاب ہیں۔ انسانیت تک پیغام رب پہنچا نے کا رسول اوررسالت کا وسیلہ مقرر فرماکر اس پورے نظم و نظام کو منطق کا جامہ پہنادیا گیا۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ رسالت مآب او راس کی حتمی حیثیت دونوں عقیدہ اسلامی کی وہ مستحکم فقہی بنیاد قرار پائیں جن کے بعد علمیت، منطق، ادراک عمل، افہام وتفہیم گویاہر زاویہ انسانی پریہ تفصیل کھری اترتی ہے۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو وجہ وجود خلق کائنات ہیں، محبوب رب کائنات ہیں، محسن انسانی ہیں، خاتم النبین، سردار الانبیا ء ورسل اور شافع محشر ہیں جن کا مرتبہ اللہ رب العزت نے خود اطیعواللہ واطیعوالرسول کو قرآن کریم میں متعدد بار ایک ساتھ رکھ کر اپنے او ران کے تعلق کی وضاحت فرمادی۔ اس معاملے کو مزید کسی تشریح کا محتاج ہی نہیں رکھا۔ اللہ وحدہ لاشریک اور رسول اللہ امام الانبیاء بقیہ سب کامقام اجمالی طور پر ہے۔ قرآن وسنت وفقہ اسلامی ابدوازل تک تنہا راہ ہدایت اور وسیلہ ہدایت ہیں جو کچھ پہنچ رہا ہے وہ میرے آقا سے ملا۔ خدا کو خدا او را س کی منشی کوآپ ہی سے توجانا ہے۔ توحید رسالت، رسول عربی، قرآن و سنت، فقہ اسلامی، حقوق اللہ وحقوق العباد یہ ہماری وہ قیمتی روحانی میراث، کڑی او ر رسی ہے جس سے آج کل ہم غافل ہیں۔ غفلت جہالت سے قریب کرتی ہے اور جہالت آپ کو مفلسی اور بے بسی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ آج ہی ایسا ہی ہورہا ہے جوزیادہ پڑھ گئے ہیں انہیں نعوذ باللہ اسلام میں دس کیڑے نکالنے ہیں؟ جو کم پڑھے لکھے ہیں ان کی ترجیحات میں دین کم رسومات زیادہ ہیں۔ کچھ روحانیت کو دھندہ بنائے ہوئے ہیں۔ جن سے اپنی اولاد او رگھر کے مسئلے نہیں سلجھ رہے مگر وہ جھاڑ پھونک اور ٹوٹکوں سے ساری دنیا کے مسئلے حل کرنے کے نام پر لوگوں کی جیبیں خالی کررہے ہیں۔ کچھ ترقی یافتہ ہونے کاڈھونگ کررہے ہیں تاکہ نہ کوئی ذمہ داری لینی پڑے اورنہ کوئی الزام ہی ان کے حصے ومقدر میں آئے۔ کچھ شعلہ بیان، پیشہ ور مقررین وخطیب او رکچھ پیری مریدی میں تھا ن کھلوا کر بیعت کرواتے ہیں، کچھ محض ناقدین، کرنا کرانا کچھ نہیں پر گفتگو بڑی بلند وبالاکرنا ان کا شیوہ۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کی تصویر۔
سوال کھڑا ہوتاہے کہ تمام آئیڈیل کے مالک آپ لیکن زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی قطار میں سب سے پیچھے۔ اس کے برعکس تنزلی کے میدان میں صف اول میں، یہ تضاد کیوں؟ جواب بہت سیدھا اور سادا ہے۔ ایمان و عمل اور قول وفعل میں مکمل تضاد، بات عالمی سطح کی کرنی، مگر پہلی ذمہ داری گھر،ماں باپ، بیوی، اولاد اور خاندان کو چھوڑ کر پوری دنیا کی اصلاح میں نکلے ہوئے ہیں۔ گھر، خاندان اورنسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ اس طرح ملت کی بات اور خدمت ہورہی ہے۔ انجام سامنے ہیں۔ خود کفالت مگر عزت نفس کے ساتھ۔اب اس کے علاوہ سب کچھ، پیسہ یا مرتبہ کسی بھی قیمت پر۔پہلے خود سے کہتاہوں پھر آپ سے۔ جھوٹ،فریب،منافقت، غلط بیانی اب ہمارے یہاں نعوذ باللہ ایمان کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ کام نکلنا چاہئے چاہے کیسے بھی نکلے۔ جائز ناجائز پیسہ خانقاہوں، مسجدوں، مدرسوں، تعلیمی اداروں، سیاسی، سماجی وثقافتی تنظیموں،غربا، مساکین،مطلقہ، بیواؤں، یتیموں کو جارہا ہے لینے والا لے رہاہے دینے والا دے رہاہے دونوں میں سے کسی کے سامنے اللہ رسول نہیں محض دنیا و مافیہا ہے؟
حج او رعمرہ دھڑادھڑ ہورہا ہے، زیارتیں ہورہی ہیں، محفل سماع منعقد ہورہی ہے، تیجے دسویں، گیارہویں، چالیسویں او رنہ جانے کیا کیا سب ہورہاہے۔ انگنت تنظیمیں، تحریکیں،انجمنیں، ادارے،مقتدر شخصیات، منشور،وعد ے وعید، قسمیں اور ارادے مگر زمین پر محض بے بسی ہی بے بسی، بے وقاری ہی بے وقاری،نہ کوئی سننے کو تیار، نہ کوئی کچھ کرنے کو تیار او رنہ ہی کچھ امید۔مسجدوں،مدرسوں،خانقاہوں،مزاروں، دیگر مقامات مقدسہ پر دعوے، سروے کی تیاریاں، مقدمات، تنازعات اورہر روز نئے فتنے مگر ہمارے ہاں شادیاں اور تقریبات او رپکوان وسجاوٹ میں روز افزوں اضافے۔ ایک چوطرفہ بے حسی کایہ عالم کہ جیسے مجھے کیا؟ میری بلا سے جس کے ساتھ ہوگا خود بھگتے گا۔ جب مجھ پر آئے گی تب دیکھوں گا۔قائدین کے تمام مسئلے حل، اولادیں ترقی یافتہ دنیا میں زیر تعلیم،برسرروزگار، رہائش، سیر وتفریح کی لامحدود سہولیات سے آراستہ زندگیاں، ادارے ذاتی ملکیت،بس ایک عجب نفسا نفسی کاعالم۔ملک میں جمہوریت،آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کی دہائی، مساوات او رمتناسب حصے داری کی باتیں جب کہ اپنی مسند، اپنا مرکز اوراپنا طریقہ کار موروثی، شاہانہ وشہنشانہ، چندہ عوام وخواص کا، سجے ہوئے دسترخوان اور دست دراز قوم معاذاللہ!
ایک گھر، ایک خاندان، عزیز واقارب،دوست احباب، ایک ادارہ،ایک تنظیم، ایک مسلک، ایک فرقہ، ایک اکائی، ایک وحدت تک یکجا نہیں تو یک جان توکیا ہوتے؟ قائدین جماعت قائدین مگر ملت قیادت سے یتیم، سازشوں میں خاص کیا؟ دشمن کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے اس میں نیا کیا ہے؟ مخالف تو مخالفت کرتا ہی ہے۔آپ کی جڑیں کھودنے پر شب وروز لگاتا ہے، اس میں بھی نیا کیا؟ وقف ہاتھ سے نکل چکا، ادارے بھی نکل جائیں؟ پوری مستعدی سے کام ہورہاہے ہم بیان بازی کررہے ہیں، سیاست میں کلیدی کردار رکھتے ہوئے بے یار ومددگار ہورہے ہیں، جیتنے او رہارنے دونوں کی وجہ ہم! حز ب اقتدار واختلاف بنانے والے ہم، مضبوط تنہا قومی اکائی،پھر بھی اتنی بے دست وپا؟
25 کروڑ کی کثیر آبادی اپوزیشن کی ساری سیاسی طاقت کامحور آپ۔ آج آپ ہاتھ اٹھالیں تو سارے چوراہوں پر ہوں، مگربھیک منگے بن کر کھڑے ہم،ہماری غیرت کب جاگے گی؟کہتے کہتے زبان وقلم تھکا جارہا ہے۔ دوسرے تمہارے بیساکھی کے بنا نہ کھڑے ہوسکیں نہ بیٹھ سکیں۔ تم اس لائق ہو یہ بنو۔مگر پھر یہ کیفیت 2024 کے عام انتخابات میں جہاں لگ بھگ یکطرفہ مسلم حمایت کے نتیجے میں اپوزیشن بھاجپا کو ساڑھے تین سو سے دو سو چالیس پر لے آئی اور ساڑھے دس فیصد بھاجپا کو مسلم ووٹ اسے اس سے نیچے جانے سے روک سکا لیکن پھر اتنی پسپائی کہ زبان، بیان، قلم، تحریک، تنظیم،تقریر وتحریر، توقیر وتنقید،ترجمانی ونمائندی میں ہم ہر جگہ ندارد، کیوں نہ یہ مانے اور نہ وہ گردانے۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں۔ سکھ کمیونٹی کل آبادی کا محض 3فیصد لوک سبھا /راجیہ سبھا میں برسراقتدار جماعت میں، دو وزارتیں، کئی گورنر، متعدد اہم عہدوں پر فائض، سفارت کاری میں یہ قوم کہاں کہاں بی جے پی کو ووٹ نہیں رے رہی؟ پنجاب میں آپ کے ساتھ، ہر یانہ میں کانگریس کے ساتھ، نخرہ اور جلوہ پورا، واہ بھئی واہ! کب اپنے گریباں میں جھانکیں گے، کب ضمیر کو ٹٹولہ جائیگا، کب سیاست کو جذبات سے علیحدہ کیا جائیگا؟ کب زمین اور دیوار کو پڑپ کر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیے جائیں گے، کب تک اپنے کو ایک جیب میں اور دوسرے کے آگے بے بسی کی تصویر بنے رہنے کا یہ بدعقل کھیل یو ں ہی چلتا رہے گا؟ کب تک آخر کب تک؟
آخر میں پھرکہتاہوں مسائل اور ان کے حل بڑی حد تک ہم اور ہماری اجتماعی حکمت عملی سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔موروثیت، شخصیت پرستی، حس، ہوس اور حسد کی دنیا سے باہر آئیے، ذات، ذاتیات اور نجی انا پرستی یہاں تک لے آئی ہے۔آگے صرف تاریک کنواں ہے جس میں ہم سب عقلمند دانستہ طور پر ایمانداری وامانتداری کے ساتھ گرنے کے عمل کے ساتھ پوری یکجہتی کاعملی اظہار کررہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایسا ہوجائے اس کو یقینی بنانے میں ہماری طرف سے کوئی کسر بھی چھوڑ ی جارہی ہے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ہم تیا رنہیں، سب کے نزدیک ایک دوسرے کے،یعنی سب کے ضمیر بکے ہوئے ہیں۔ چوطرفہ اتحاد اور اشتراک کی مہم جوئی مگر نتیجہ محض نفاق، سنجیدگی سے غور فرمائیں۔توحید پر قائم عمارت، رسول اور رسالت سے معمور قیادت، ہدایت ربانی، نصرت الہٰی کی نوید، وحدت وسطی،بہترین امت، اس قیمتی اثاثے کے ساتھ یہ حشر،تفرقہ کسی کی بھی میراث ہوتا ہمارا نہیں، مگر ہمارا ہی کیوں؟ میں او ر آپ سب اپنا احتساب کریں۔
13 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/then-why-division/d/134059
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism