New Age Islam
Wed Jun 04 2025, 01:08 AM

Urdu Section ( 10 Dec 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Truth Behind Taliban's Fatwa Justifying Killings Of Innocent Civilians Part-3 نوائے افغان جہاد کا فتویٰ اور اس کی حقیقت: ( قسط۔۳)۔ خود کشی،منشیات اور خارجیت پر مبنی طالبانی فکر و عمل

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

طالبان کا غیر شرعی اور اسلام مخالف طرز عمل

خود کشی

طالبان کی جنگی حکمت عملی دہشت گردانہ حملوں اور خود کش بم دھماکوں پرمنحصر ہے ۔ یہ مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر خود کش بم دھماکوں کی ترغیب اور  تربیت دیتے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام کے تحت پاکستان۔افغانستان سرحدی علاقوں میں چلائے جانے والے مدرسوں میں جن مہاجرین بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے بعد میں انہی بے سہارا طلبہ کو طالبان کی صفوں میں شامل کرلیا جاتا ہے اور انہیں خود کشی کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ خود طالبانی کمانڈروں کے حکم پر یہ نوجوان خود کش دھماکےکر کے اپنی جان کے ساتھ بے شمار معصوم لوگوں کی جانوں کو بھی برباد کردیتے ہیں جن میں اکثریت معصوم اوربے قصور افر اد کی ہوتی ہے جن میں بچے بوڑھے او ر عورتیں بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح خود کش دھماکے کرنے والے نوجوان دوہرے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک تووہ خود کشی جسے حرام فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور اللہ کی عطا کی ہوئی بیش بہا نعمت کو اپنے ہی ہاتھوں برباد کردیتے ہیں اور دوسرے خود کشی کے نتیجے میں درجنوں معصوم افراد کے قتل کے مرتکب بھی ہوتے ہیں ۔لہٰذا ، خودکشی کو جنگی حکمت عملی کا حصہ بنانے والا گروہ کبھی حق پر نہیں ہوسکتا ۔ قرآن کہتا ہے ۔

 لاتقتلو انفسُکم (سورۂ النساء :29)

(اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو)

مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مندرجہ بالا آیت خودکشی کی حرمت پر ہے ۔ اس طرح قرآن خودکشی کو ممنوع قرار دیتا ہے ۔

احادیث مبارکہ میں بھی  خودکشی کرنے والے افراد کو جہنمیّ قرار دیا گیا ہے

ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

‘‘ جو کوئی بھی خود کو ہلاک کر نے کے لئے پہاڑ سے کودتا ہے وہ جہنم میں بھی ہمیشہ خود کو پہاڑ سے گر کر ہلاک کرتا رہے گا ۔اور جو کوئی بھی خود کو ہلاک کر نے کےلئے زہر پیتا ہے وہ جہنم میں زہر پی کر خود کو بار بار ہلاک کرتا رہے گا اور جو کوئی خود کو کسی لوہے ( کے اوزار ) سے ہلاک کرتا ہے وہ جہنم میں خود کو اسی ہتھیار سے ہلاک کرتا رہے گا ۔’’ (صحیح بخاری )

حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے

جابر بن سمورہ نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے آپ کو ایک برچھی سے ہلاک کرلیا ۔ اور جب اس کی میت لائی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔

لہٰذا ،ایسی جماعت جو لوگوں کو خود کشی اور بے جا اور بلا عذر خون خرابے کی ترغیب دے وہ غیر شرعی اور غیر اسلامی ہوگی اور ایسے عمل کے مرتکب افراد بلا شبہ جہنمی ہونگے ۔

حرام ذریعہء آمدنی

مختلف سروے اور رپورٹوں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ طالبان اپنی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے افیم اور منشیات کی تجارت میں حصہ داری اور اسکے تحفظ  اور جبراً وصولی جیسے غیر شرعی ذرائع سے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں ۔  افغانستان کی معیشت کا انحصار افیم کی کاشت پر ہے ۔ افغانستان کی افیم کی تجارت سالانہ چار ارب ڈالر کی ہے اور اسی لئے طالبان کو اپنی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے افیم اور منشیات کی تجارت سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو کہ اسلامی شریعت کی رو سے حرام ہے ۔ حال ہی میں گریچین  پیٹرس کے تحقیقی مقالے ‘‘افیم طالبان کو کس طرح نفع پہنچا تاہے ’’ میں تفصیل سے یہ بتایا  گیا ہے کہ طالبان کمانڈروں نے اپنی اس جنگ کو جاری رکھنے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کے لئے افیم کی تجارت اور کاشت میں حصہ لیا ۔ اس مقالے میں کہا گیا ہے ۔

‘‘ ابتداہی سے اس تحریک نے (طالبان) ڈرگ اسمگلروں ، تاجروں اور ٹرک برداروں کے ناپاک گٹھ جوڑ کے مالی تعاون پر انحصار کیا ۔ ’’ اس مقالے کے مصنف کے مطابق بہت سے طالبان کمانڈروں اور لیڈروں نے افیم کی تجارت میں پیسے لگائے ۔ بہت سے کمانڈروں نے خفیہ طور پر جمع کی گئی افیم کے ذخیروں کو بیچ کر دولت کمائی ۔ افیم کی کاشت اور ا س کے نقل و حمل کو تحفظ عطا کر نے کے عوض رقم و صولنا بھی طالبان کے لئے آمدنی کا اچھا ذریعہ ہے ۔ سروے کئے گئے لوگوں میں سے 65 فیصد  نے بتایا کہ طالبان کی خاص سرگرمی افیم کی فصلوں کو تحفظ عطا کرنا اور پھر فارم ایریا سے  ان کو نکال کر مطلوبہ مقام تک حفاظت سے بھیجنا ہے ۔ افغانستان میں افیم سے لدے ہوئے ٹرکوں سے cut money وصولنا اس علاقے کے طاقتور لیڈروں کے لئے آمدنی کا عام ذریعہ ہے ۔ ملا عمر کے دست راست اور ایک سابق کمانڈر حاجی بشر نور زئی طالبان کے لئے لاکھوں ڈالر  کی ہیروئن اسمگل کرنے کے الزام میں مین ہاٹن کی جیل میں سزائے عمر قید کاٹ رہے ہیں ۔

طالبان کی نظر یاتی انتہا پسندی یا خارجیت پسندی

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں خارجیت کا فتنہ اُٹھا تھا ۔ خارجی خود کو اسلام کا سچا علمبردار مانتے تھے اور اس بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اما مت یا قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کر تے تھے ۔ انہوں نے اپنے نظریئے کے مخالفین چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو کے قتل کو بھی جائز قرار دیا تھا ۔ ٹھیک اسی طرح طالبان بھی آج کے دور کے خارجین ہیں جو اسلام کی ایک انتہا پسند تعبیر و تشریح پیش کرتے ہیں اور تمام دوسرے فرقوں کو کافر اور واجب القتل قرار دیتے ہیں ۔ پاکستان میں ان لوگوں نے شیعہ ، احمدیوں او ربریلوی مسلک کے لوگوں کے خلاف پرُ تشدد نظریاتی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ان فرقوں کے افراد کا قتل اور ان کی عبادت گاہوں پر خود کش حملے ان کے علماء کی نظر میں جائز ہیں  ہر سال طالبان کے ذریعہ ان فرقوں اور عبادت گاہوں پر طالبان کے حملوں اور خود کش دھماکوں میں سینکڑوں افراد لقمہ ٔ اجل بنتے ہیں ۔ پاکستان میں اپنے غلبے والے علاقوں میں انہوں نے داڑھی شیو کرنے پر حجاموں کی دکان کو بند کروا دیا ہے، لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع قرار دیا ہے اور ان کے اسکولوں کو جبراً بند کروا دیا ہے ۔ اور طاقت کے زور پر شریعت کی ان کی پیش کی ہوئی تفسیر کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے 2010ء میں کوئٹہ اور مردان میں خود کش بم دھما کے کر کے کم از کم 55 افراد کو ہلاک کیا جب شیعوں کا ایک جلوس یوم قدس پر بیت المقدس پر اسرائیلی  قبضہ پر احتجاج کررہا تھا ۔(کیا اس طرح وہ اسرائیل کی حمایت کر رہے تھے؟) اسی طرح انہوں نے مردان میں ایک مسجد کے باہر خود کش حملہ کیا اور درجنوں افراد کو ہلاک کردیا  اور 200 افراد زخمی ہوئے ۔

 طالبان نے 2008ء میں پاکستانی فوج کے اسلحہ فیکٹری  پر دو خود کش حملے کر وائے جس کے نتیجے میں  59 افراد ہلاک ہوئے مرنے والوں میں  زیادہ تر مسلمان تھے ۔

اپریل 2011ء میں طالبان نے ڈیرہ غازی خان میں ایک صوفی درگاہ پرحملہ کیا جس کے نیتجے میں 41 افراد لقمۂ اجل بن گئے ۔ طالبان ترجمان احسان اللہ احسان نے اسکی ذمے داری قبول کی ۔

2008 ء میں واہ میں دھماکہ کر کے 70 شہریوں کو ہلاک کیا ۔

جولائی 2010ء میں داتا گنج بخش کے دربار میں دو خود کش حملے ہوئے جن میں 42 معصوم افراد ہلاک ہوئے ۔ اس سے قبل احمدیوں پر حملہ کیا گیا  جس میں 94 احمدیوں کا قتل ہوا تھا ۔ اس طرح طالبانیوں نے احمدیوں شیعوں اور دوسرے اسلامی فرقوں بشمول صوفیوں کے خلاف قتل و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔

امسال محرم میں  ڈیرہ اسماعیل خان میں  بھی طالبان نے شیعوں کے عاشورہ جلوس میں بم دھماکہ کیا جس میں پانچ شیعوں کی موت ہوگئی ۔ پاکستانی طالبان نے حملوں کی ذمے داری قبول کی ۔ اسی طرح راول پنڈی میں بھی عاشورہ کے جلوس پر طالبان نے خود کش حملہ کیا جس میں سات افراد ہلاک ہونے ۔ اس طرح انہوں نے پانچ دنوں میں پانچ حملے کئے جن میں کل 30 افراد ہلاک ہوئے ۔

مندجہ بالا حملوں کی تفصیل دینے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ طالبان نے نہتے معصوم افراد کو بے خبری میں ہلاک کرنے کو اپنا مذہب بنا لیا ہے اور اس کا اسے نہ کوئی ملال ہے نہ مرنے والوں کا غم۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہی عین اسلام ہے اوران کے مطابق مرنے والے گنہ گار او رکافر تھے جن کا قتل کرنا ان علماء (خاص کراسامہ بن لادن کے قریبی  یوسف العبیری ) کے نزدیک جائز اور مستحسن ہے ۔ جبکہ قرآن ، حدیث اور فقہ کی رو سے نہتے شہریوں اور معصوم بچوں ، عورتوں اور ضعیفوں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم انتہائی وحشیانہ عمل ہے اور اس کے مرتکب افراد جہنمی ہیں ۔

 قرآن نے انسانی جان کی حرمت کو ہر چیز پر فوقیت دی ہے ۔ اس کے نزدیک ایک جان کو بلاعذر شرعی قتل کرنا گویا پوری انسانیت  کا قتل ہے اور ایک شخص کو ہلاکت سے بچا لینا گویا پوری انسانیت کو بچالینا ہے۔

قرآن کی زبان میں

‘‘ جوکوئی کسی  کا قتل کرے ، سوائے قتل کی سزاکے طور پر یا زمین پر فساد بر پا کرنے کی سزا کے طور پر تو گویا اس نے ساری انسانیت کا خون کردیا ۔( سورہ المائدہ :32)

اسی طرح بغیر کسی جرم یا قصور کے کسی کا قتل قرآن نے ممنوع قرار دیا ہے ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ‘‘ اگر کوئی کسی مسلمان کے قتل میں کسی طرح کی مدد  کرتا ہے حتیٰ کہ چند الفاظ سے بھی ، تو وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا ‘‘خدا کی رحمت سے مایوس’’ ۔

اسلام صرف مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت نہیں دیتا بلکہ وہ اپنی حکومت میں بسنے والے تمام اقلیتوں مثلاً یہودیوں، عیسائیوں ، ہندوؤں اور مسلم فرقوں جیسے شیعوں اور احمدیوں کو بھی جان ومال ، جائداد، او رمذہبی آزاد ی کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے ۔ قرآن اور حدیث اور فقہ اسلامی اس موضوع پر واضح احکام رکھتے ہیں جبکہ طالبان اپنے انتہا پسند انہ نظریات کی بنا پر اپنے سوا سب کو کافر قرار دیتے ہیں او رانہیں قتل کرنے کو کار ثواب گردانتے ہیں ۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

‘‘ اگر کوئی مسلم کسی غیر مسلم کو ناجائز طور پر قتل کرتاہے جس کے ساتھ معاہدہ ہے تو جنت اس کےلئے حرام ہے ۔’’ ( النسائی)

اس طرح حضرت عبد اللہ بن عمر نے روایت کی کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 ‘‘ اگر کوئی مسلم کسی معاہدہ غیر مسلم کو قتل کرتا ہے تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو  چالیس سال کی مسافت سے  بھی پائی جا سکتی ہے ’’ ۔(صحیح بخاری)

چنانچہ یہ واضح کرنا ضروری ہےکہ وہ غیر مسلم جو کسی مسلم ملک میں ایک شہری کی حیثیت سے رہتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے ماننے کا اقرار کرتے ہیں اور ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے زندگی گذارتے ہیں تو  وہ شریعت کی رو سے معاہد  ہوتے ہیں اور انکی جان و مال  ، عزت و آبرو، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے دیگر شہری و سماجی حقوق کا تحفظ مسلمانوں کی ذمے داری ہوتی ہے ۔ اور ایسے غیر مسلموں کا قتل کرنے والے پر حدیث کی روسے جنت حرام کردی جاتی ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن طالب کا قول ہے

‘‘ اگر کوئی مسلم کسی عیسائی کا قتل کرے تو قصاص میں اس کو قتل کیا جائے گا ۔’’ ( الشیانی ۔ الحجۃ ) 4:349)

 اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے

‘‘ ایک امن پسند یہودی ، عیسائی یا زر تشتی کا خون بہا ایک آزاد مسلمان کے خون بہا کے برابر ہے ۔’’

 اس طرح حدیث او رفقہ کی کتابو ں میں غیر مسلموں کے حقوق کے متعلق علماء و فقہا کے بیشمار فتاویٰ ہیں جو غیر مسلموں کی جان و مال اور جائیداد کو مسلمانوں کے برابر قرار دیتے  ہیں ۔ مگر طالبان جیسے غیر اسلامی گروہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے عام شہریوں او رامن پسند افراد کا قتل عام کر کے اپنے کو اصل مسلمان اور حق پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے نام نہاد علماء سے فتویٰ حاصل کر کے اپنی پرُ تشدد کارروائیوں اور نفرت پر مبنی نظریات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

URL of the Part 2 of the series: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-talibn-s-fatwa-justifying-killings-of-innocent-civilians-نوائے-افغان-جہاد-کا-فتوی-اور-اسکی-حقیقت۔۔-قسط-دو/d/9573

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-taliban-fatwa/d/9613

Loading..

Loading..