The Sojourner
Zakir Naik is an Islamic scholar from Mumbai. He pursued education in comparative religious studies, and is a renowned theologist, besides being an eminent representative of Muslims in India and abroad. The private channel by the name of Peace TV is run by him, and by several independent accounts the man is an eloquent orator of international repute. I would like to argue that he is an evil propagandist.A little bit of background about me is certainly in order here. I have for long harboured a fascination for Islam. The diverse realms of music, poetry, literature, languages, cuisine, and more subtle aspects, like a heightened form of mutual respect in inter personal dealings, form integral constituents of this rich heritage. I am intrigued by this culture, often to the point of mesmerization. This interest has led me time and again to online digital content that talks about Islam, where I have encountered, among others, Zakir Naik.
URL: https://newageislam.com/urdu-section/zakir-naik-spreading-fear-islam/d/5546
دی سوجورنر
ذاکر نائیک ممبئی کے ایک اسلامی
اسکالر ہیں۔انہوں نے تقابل ادیان کےعلوم حاصل کۓ ہیں۔ اور وہ ہندوستان اور بیرون ممالک
میں مسلمانوں کے معروف نمائندہ ہونے کے علاوہ مشہور فقیہ ہیں۔پیس ٹی وی کے نام سے ایک
نجی چینل چلاتے ہیں، اور کئی لوگوں کی آزادانہ رائے کے مطابق وہ بین الاقوامی شہرت
کے مقرر ہیں۔میں دلیل دینا چاہوں گا کہ وہ برائی کا پرچار کرنے والوں میں سے ہیں
میرے بارے میں بھی یہ جاننا
ضروری ہے کہ میں اسلام کی طرف راغب کیوں کر ہوا۔کافی عرصہ سے میرے اندر اسلام کو لیکر
ایک کشش رہی ہے۔ موسیقی، شاعری،ادب،زبان، کھانا اوراس کے علاوہ معاملات میں ایک دوسرے
کا احترام نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔میں اس کی ثقافت سے حیرت زدہ ہوں۔ اس دلچسپی
کے سبب میں اکثرانٹرنیٹ پر ایسے مواد دیکھتا ہوں جو اسلام کے بارے میں بتاتے ہیں اور
یہیں پر میں نے دوسروں کے علاوہ ذاکر نائیک کے بارے میں بھی پڑھا۔
حال ہی میں میں نے یوٹیوب
پر ایک ویڈیو دیکھا،اس انٹرویو میں ذاکر نائیک کے نظریات سے آگاہی ہوئی۔جب ان سے اسلامی
حکومتوں کی اخلاقیات کے بارے میں سوال کیا گیا جوغیر اسلامی عبادت گاہوں کی تعمیر کی
اجازت نہیں دیتی ہیں تو اس پر ان کا جواب بہت سادہ تھا لیکن مضحکہ خیز تھا۔ انہوں نے
کہا کہ قومی سطح پر ایک مذہب کو اپنانے کا عمل ایک اسکول کے ٹیچر کی تقرری کے عمل جیسا
ہے۔دونوں معاملوں میں مقصد بہترین انتخاب کرنے کا ہوتا ہے تاکہ اپنی رعایہ (چاہے شہری
یا طالب علم)کونا مکمل اثرات سے بچایا جا سکے۔چونکہ ان کے مطابق کامل دین اسلام تھا
اس لئے اس کا انتخاب فطری تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اپنی عوام کو مضر (پڑھیں:غیر اسلامی
) اثرات سے بچانے کے لئے یہ اخلاقی طور پر واجب تھا کہ کسی دوسرے مذہب کی عوامی طور
پر عمل کرنے سے روکا جائے، اسی طرح جیسے کہ ایک نا اہل ٹیچر کو اسکول میں تقرر نہ کیا
جائے۔جب ان سے ان کے اسلام کے کامل دین ثابت کرنے کے دعوے کے بارے میں پوچھا گیا کہ
وہ کس طرح اسلام مذہب کو ایک کامل مذہب بتا رہے ہیں جبکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے
بھی اسی طرح کے دعوے کرتے ہیں۔ذاکر نائیک بڑی آسانی سے سوال کو مسخ کر دیتے ہیں اور
قرآن کا حوالہ دے کر اپنی بات کا جواز پیش کرتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ سیکولر ملک
مذہبی اور نظریاتی عقائد کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں،اور یہ اپنے عقائد میں
انکے یقین کی کمی ہی ہے جو غیر اسلامی ممالک اپنے یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو
اس پر عمل کی اجازت دیتے ہیں۔اس طرح کا انتخاب ایک انسان کےکبھی نہ چیھنےجا سکنے والے
جمہوری حق کی توسیع کے طور پر رواداری اور کثیرثقافتی معاشرے کی حوصلہ افزائی کرتا
ہے، واضح طوپر یہ وحشیانہ پروپگنڈہ کرنے والے کے سمجھ میں نہیں آیا ہوگا۔
ایک علیحدہ ویڈیو میں ذاکر
نائیک ارتقاء کی تھیوری کو غیر منطقی اور باطل قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ قرآن میں بیان
کئے گئے دنیا کی تخلیقی حقائق کی مخالفت کرتا ہے۔وہ ،کسی آدمی کے تاریخی ادب کے علم
کوخواہ یہ سائنسی ثبوت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں،اس کے علم کی بنیاد مانتے ہیں،انکی یہ
بات بتاتی ہے کہ وہ دانشورانہ طور پر کتنے کمزور ہیں۔اس صورت میں ان کے دلائل میں سبب
تلاش کرنابے وقوفی ہوگی۔ تاہم جس تعداد میں ان کے پیروکار ہیں وہ پریشان کرنے والا
ہے۔ انکی تقریر کو سننے کے لئے پوری دنیا میں کہیں بھی ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ان
کا چینل پیس ٹی وی برطانیہ میں کسی دوسرے اسلامی چینل کے مقابلے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ہندوستان
میں وہ سب سے زیادہ مقبول اسلامی مقرر ہیں۔کچھ دنوں قبل برطانوی حکومت نے ان کے ،اپنے
ملک میں داخل ہونے پر پابندی لگا رکھی تھی،جسے حال ہی اٹھا لیا گیا۔ اسے موجودہ نظام
کے ذریعہ مسلمانوں کی خوشنودی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اسی لئے وہ آکسفورڈ میں اپنے
دقیانوسی اور اشتعال انگیز خیالات مغربی دنیا کو بتانے کے لئے کچھ دنوں پہلے گئے تھے۔میں
نے ایک ویڈیو دیکھا جس میں معروف فلم ہدایت کار مہیش بھٹ نے ذاکر نائیک کے انگلینڈ
میں ان کے داخل ہونے کے حق کاسختی کے ساتھ دفاع کیا اور مغرب کو نشانہ بنایا اوراس
میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ یہ بھی انکی تقریر کی طرح دلائل اور اسباب سے عاری
تھے۔
میری سمجھ سے ذاکر نائیک ہی
ایسے شخص ہیں جنہوں نے عوامی سطح پراسامہ بن لادین کی مزمت کرنے سے انکار کیا ہے۔بڑی
تعداد میں انکے ماننے والوں کو، عام انسانوں کی سادگی اورحماقت سے منسوب کر سکتے ہیں۔سماج
کا وہ طبقہ جو اس طرح کے برتاؤ کو برداشت کرتا یا بڑھاوا دیتا ہے، وہ مذہبی انتہاپسندی
کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور یہی برتاؤ عوامی مذاکرات اور دلائل
میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔یہ بہت ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ آج کے باشعور ماحول میں اس طرح
کے دلائل کو ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے اور اس کے بہت ہی خطرناک نتائج ہوں گے۔جب
تک سب لو گ یہ جانیں اور اس کی تباہی سے واقف ہوں ، تب تک 10 اور غیر اسلامی اور اشتعال
انگیز مقرر پیدا ہوکر مہذب دنیا کو تباہ کرنے کے مشن پر نکل پڑیں گے۔اور اس وقت نائیک
کی مذمت کرنا ظاہر ہے بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
بشکریہ۔سیکینگ بریلیانس بلاگ
اسپاٹ
انگریزی سے اردو ترجمہ۔سمیع
الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
URL: