New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 04:20 AM

Urdu Section ( 28 Jul 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Reality of Deobandi- Barelvi Dispute دیوبندی بریلوی اختلاف کی حقیقت


مولانا ندیم الواجدی

28جولائی، 2009

مسلک کے نام پر تشدد کی رویات پاکستان میں ہے اور وہاں اس پر پورے خلوص کے ساتھ عمل بھی ہوتا ہے افسوس اب ہمارے ملک میں بپی تشدد کے ذریعے مسلکی اختلافات کو فروغ دینے کی کوشش شروع ہوگئی ہے ،حال ہی میں رامپور کے قصبہ سوار کی مسجد کے معاملے میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب کے معاملے میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے لوگوں نے جس طرح اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ہر مسلمان کا سرشرم سے جھک گیا ، مسجد یں صرف اللہ کی عبادت کے لیے ہیں ،ان کو اختلافات کا مرکز محور بنانا غلط ہی نہیں بلکہ سخت گناہ بھی ہے۔ ہم جس ملک رہتے ہیں وہاں پہلے ہی سے ہمارے لیے زبردست مشکلات اور مسائل ہیں اور دن بہ دن ان کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، کیا ان حالات میں مسلک کے نام پر ایک دوسرے کی ٹانگ پکڑ کر کھینچنا اور ایک دوسرے کے خلاف تھانہ پولس کرنا ملت کے علمائے دین اور عوام کو زیب دیتا ہے، ہم ڈیڑھ سوسال سے مسلکی اختلاف کی آگ میں جھلس رہے ہیں، کیایہ آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی، پاکستان کی بات چھوڑیئے تو تباہی کے راستے پر چل رہا ہے، کیا ہم بھی اس کیساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں ، اگر ایک مسجد کو دونوں مسلک کے لوگ اپنی مسجد تسلیم کرلیں اور اس میں آزادی کے ساتھ نماز پڑھیں تو اس میں کسی کا کیا نقصان ہوگا، مجھے تو اس میں بھی کوئی نقصان نظر نہیں آتاکہ ایک وہ ملت کے مفاد کے لیے مسجد کی تولیت اور امامت سے دست بردار ہوکر اسے دوسرے گروپ کے حوالے کردے، اگر دونوں مسلکوں کے لوگ اخلاص نیت کے ساتھ مسئلہ حل کرنے کے لیے بات چیت کی میز پر بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا ، لاٹھی ڈنڈا ،تھانہ کچہری کسی مسئلے کا حل نہ پہلے ہوا اور نہ اب ہوگا، پھر کس لیے دونوں گروپ دست وگریباں ہیں اور کس وجہ سے طاقت آزمائی کررہے ہیں ، ایسا تو نہیں کہ دونوں مسلک کے لوگوں کو کسی سازش کے تحت تشدد کا راستہ دکھلایا جارہا ہو، احتلاف کی تاریخ پرنظر ڈالیں تو ہمارا یہ خیال محض خیالی ہی نہیں بلکہ حقیقت نظر آتا ہے۔

اختلاف فی نفسہ کوئی مذموم چیز نہیں ہے ، کسی علمی معاملے میں ، کسی سیاسی یا سماجی نظریئے میں کسی کو کبھی کوئی اختلاف ہوسکتا ہے ،مگر ہر اختلاف کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور کچھ حدود ہوتی ہیں ، اگر ان حدود وآداب کی رعایت نہ کی جائے تو وہ اختلاف اختلاف نہیں رہتا بلکہ نزاع بن جاتا ہے جس سے منع کیا گیا ہے:وَلاَ ناز غوافنقلوا وتدہب بحکم ( الانفال ۔۴۶)’’اور جھگرا مت کرو رونہ تم پست حوصلہ ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘۔اس کے برعکس وہ اختلاف محمود ہے جو علمی بنیادوں پر ہو، معقول ہو، اخلاص نیت کے ساتھ ہو اور جس کا مقصد مخاطب کے خیال کی اصلاح ہو یا اپنے فکر کی تصحیح ہو، اسلام کے دور اول سے ہی مسلمانوں میں اس طرح کے اختلافات رہے ہیں ، صحابہ کرام میں بھی تھے اوربعدکے لوگوں میں بھی ہوئے ،مگر اختلاف کبھی نزاح نہیں بنا، اختلاف ہی رہا، اختلاف نزاح کی صورت اس وقت اختیار کرلیتا ہے جب ایک فریق دوسرے فریق پر جھوٹے سچے الزام لگا کراسے نیچا دکھلانے کی کوشش شروع کردیتا ہے ، بہت سے مسائل مختلف نظر آتے ہیں مگر کبھی نہیں سناگیا کہ کسی صحابی کے دسرے صحابی کو کسی اختلاف کی وجہ سے برا بھلا کہا ہو، کافر قرار دیا ہو، فاسق وفاجر کہا ہو، یہ اختلاف ہی فقہ میں اختلاف کی بنیاد بنا، اسی سے چار مشہور فقہی مکاتب رکھنے والے ہزاروں فقیہہ شرعی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں لیکن کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں نہ توہین آمیز القاب اور خطابات سے نواز تے ہیں، ایک مکتب فکر کے فقہا ء میں بھی اختلاف نظر آتا ہے ، امام محمد اور امام ابویوسف ؒ دونوں امام اعظم ؒ ابوحنیفہؓ کے ممتاز تلامذہ میں سے ہیں ، متعدد مسائل میں انہوں نے اپنے استاذ کی رائے سے اختلاف کیا ہے، کبھی یہ دونوں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں ،مگر کسی نے نہیں دیکھا کہ شاگردوں نے اپنے استاد کی بے ادبی کی ہو، یا استاد نے شاگردوں کی حقار ت کی نظرسے دیکھا ہو، یا ان دونوں شاگردوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھلایا ہو، علمی تاریخ میں علامہ سخاویؒ اور علامہ جلا الدین سیوطی ؒ کی معاصرانہ چشمک مشہور ہے انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی کتابوں میں کافی کچھ لکھا ہے، شیخ عبدالقادر جیلانی جیسے بزرگ اور صوفی جیسے محدث ، مصلح اور مصنف بھی ایک دسرے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں، نواب صدیق حسن خاں قنوجی اور مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے علمی مناظر ے بھی کتابوں کے اوراق پر موجود ہیں مگران حضرات نے اختلاف کو اختلاف ہی رکھا، جھگڑے میں تبدیل نہیں کیا، نہ انہوں نے فرقہ آرائی کی اور نہ خلاف تہذیب زبان استعمال کر کے اپنے علمی قد کو کوتاہ کیا، یہ چیز صرف دیوبند ی بریلوی اختلاف ہی میں دیکھنے میں آتی ہے کہ اختلاف نے تمام حدود وقیود پار کر کے تکفیر کی شکل اختیار اور تفسیق تک کس نے پہنچایا ، دیوبندیوں نے یا بریلویوں نے ؟ اس اختلاف بین المسلمین میں غلطی کس کی ہے دیوبند یوں کی یا بریلویوں کی؟

بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خاں ہیں ان کا سیاسی پس منظر یہ ہے کہ ان کے آباؤ واجداد انگریزوں کے وفادار رہے ہیں ، یہ وفاداری ان میں بھی منتقل ہوئی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں انگریزوں کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں، جہاد کی ممانعت کے فتویٰ دیئے ہیں ، تحریک خلافت اور ترک موالات کی مخالفت کی ہے، ان کا تعلیمی پس منظر یہ ہے کہ وہ مولانا فضل رسول بدایونی کے شاگرد تھے اور ا ن کا سلسلہ تلمد مولانا فضل حق خیر آبادی سے تھا، یہ دونوں استاد شاگرد اسماعیل شہید اور دوسرے بزگان دہلی کے سخت ترین مخالف تھے، یہاں تک کہ مولانا فضل حق نے اپنے اثر رسوخ سے کام لے کر جامع مسجد دہلی میں شاہ اسماعیل شہید کا وعظ بند کروایا تھا، ان دونوں حضرات کی فکری وراثت مولانا احمد رضا خاں نے حاصل کی، ان کا مذہبی پس منظر یہ ہے کہ ان کا خاندان مذھباً شیعہ تھا، ان کے پردادا کاظم علی خاں نے اودھ کے شیعہ نواب شجاح الدولہ اور انگریزوں کے ساتھ مل کر اس وقت کی سنی ریاست روہیل کھنڈ کو مٹانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا، شیعت کا یہ رنگ مولانا احمد رضاخاں پر غالب رہا ہے اور ان کی تحریروں میں بھی پوری طرح جھلکتا ہے ، ان کے اساتذہ می ں شیعہ علماء بھی تھے ، ہم نے یہ تینوں پس منظر اس لیے بیان کئے ہیں تاکہ علمائے دیوبند سے مولانا احمد رضا خاں کے اس شدید اختلاف کی اصل وجہ سمجھ میں آسکے۔

علمائے دیوبند کے متعلق یہ حقیقت اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز کے فتویٰ جہاد کو اگر کسی نے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو وہ علمائے دیوبند ہی تھے ،۱۸۵۷ ؁ء کی تاریخ جہاد کا ایک ایک بار علمائے دیوبند کے کارناموں سے بھرا پڑا ہے، یہ جہاد ناکام ہوا، مگر دارالعلوم کے قیام کے بعدپھر حریت وطن کے لیے علمائے دیوبند نے مورچہ سنبھالا ،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، بالآخر ان کی یہ جدوجہد استخلا ص وطن کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچی ،مولانا احمد رضا خاں کیوں کہ انگریزوں کے حامی تھے اس لیے انہیں علمائے دیوبند کا یہ مجاہدانہ کردار سخت ناپسند تھا ، حضرت شاہ عبدالعزیز اور ان کے خاندان کے دوسرے بزرگوں اور عالموں سے علمائے دیوبند کا تعلق تلمد اور عقیدت کا رہا ہے اور مولانا احمد رضا خاں صاحب کا مولانا فضل رسول بدایونی کے شاگرد ہونے کی وجہ سے مخالفت کا رہا ہے ، یہ وجہ بھی علمائے دیوبند سے اختلاف کے پس منظر میں بڑی اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ نے اپنے مواعظ کے ذریعہ شیعہ فرقے کی سخت مخالفت کی تھی اور ان کے عقائد کے رہ میں ’’تحفہ اثنا عشریہ ‘‘ اور ’’السر الجلیل فی مسئلۃ الفضیل‘‘ جیسی کتابیں لکھی تھیں اس لیے شیعہ ان کے سخت مخالف تھے، علمائے دیوبند نے بھی شیعوں کی مخالفت جاری رکھی، چنانچہ بانی دارالعلوم نتیۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے’’ ہدیہ الشیعہ ‘‘ ’’فیوض قاسمیہ‘‘ ’’ انتباہ المؤ مین‘‘اور ’’اجوبہ اربعین ‘‘ اور ان کے درس حضرت مولانا رشید احمد گنگوی نے ’’بدایہ الشیعہ ‘‘جیسی ٹھوس عالمانہ کتابیں تصنیف فرمائیں ،فطری طور پر مولانا احمد رضا خاں علمائے دیوبند کے اس طرز اور رخ سے بھی برافررختہ ہوئے ، مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتابیں دیکھ کر تو انہوں نے غصے کے عالم میں یہ فتویٰ صادر فرمایا :’’قاسمیہ لعلہم اللہ ملعون ومرتد ہیں‘‘ (فتاوی رضویہ :۵/۵۹)اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کی کتاب پڑھ کر یہ ارشاد فرمایا ’’اسے جہنم میں پھینکا جائے اور آگ اسے جلادے گی اور ذق انت الا شرف الرشید کا مزہ چکھائے گی ۔ (خالص الا عنقاد احمد رضا خاں بریلوی ،ص :۶۲)

یہ دو بنیادی عوامل اور محرکات ہیں جنہوں نے بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خاں کو علما ئے دیوبند سے دشمنی اور بعض وعناد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور جب ایک بار انہوں نے اس راستے پر قدم بڑھا دیئے تو پھر پیچھے نہیں ہٹے بلیہ دن بہ دن ان کے قدموں کی تیز گامی میں اضافہ ہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ انہوں نے تقریق بین المسلمین اور تکفیر المسلمین کی ذمہ داری سنبھال لی وہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کتنے فکر مند تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کے لیے اگر آس کی کتابوں کی عبادتوں میں انہیں قطع وبرید بھی کرنی ہوتی تو اس سے بھی دریغ نہ فرماتے ، مثال کے طور پر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا ایک مختصر سا رسالہ ہے،،تحذیر الناس‘‘ اس میں سرکار دوعالم ﷺ کی ختم نبوت پر عقلی دلائل فراہم کئے گئے ہیں ، مولانا احمد رضا خاں صاحب نے اس کتا ب کے صفحہ ۱۴،۲۸،۳،کی عبارتوں کے کچھ حصے حذف کر کے باقی ماندہ حصوں کو مسلسل عیارت بنادیا اور اس کی بنیاد پر حجاز کے علمائے فتویٰ لینے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جا پہنچے ،مولانا احمد رضا خاں نے جو نئی عبارت بنائی وہ حسب ذیل ہے’’ گوبالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اورف کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ،بلکہ اگر بالفرض بعد کے زمانۂ نبوی میں بھی کوئی نبی پیدا ہوتو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ،عوام کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہم فہم پر روشن کہ تقدم یاتاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ‘‘ (حسام الحر میں ،ص۱۰۱) اس عبارت میں آخری جملہ ’’عوام کا خیال ہے‘‘ اصل کتاب میں ص ۳ پر ہے ،شروع کا جملہ ص ،:۱۴ پر ہے اور درمیانی جملہ ص ۲۸پر ہے ، مولانا احمد رضا خاں نے ان تینوں جملوں کو ایک مسلسل عبارت کی شکل دے دی جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ خاتمیت زمانی کے مفکر ہیں ، پھر اس عبارت کا عربی ترجمہ کیا تو اس میں سے لفظ بالذات حذف کر کے لفظ اصلاً بڑھادیا جس سے معنی کچھ کے کچھ ہوگئے، علمائے دیوبند گی عبارتوں میں اس طرح ترمیم کر کے انہوں نے علمائے نجد وحجاز سے کفر کے فتوے حاصل کئے اورخوشی خوشی ہندوستان لوٹے ،خدا معلوم کسی نے ان سے پوچھا بھی یا نہیں کہ آخر ان فتوؤں سے انہیں کیا ملا ؟ مسلمانوں کو دوخانوں میں تقسیم کر کے انہوں نے اسلام کی کون سی خدمت انجام دی؟

دوسری طرف علمائے دیوبند اپنی برات کا اظہار کرتے رہے ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے فرمایا’’خاتمیت زمانی اپنا دین وایمان ہے ناحق تہمت کا البتہ کوئی علاج نہیں‘‘ (جوابات محذورات،ص :۲۹)’’اپنا دین وایمان ہے بعد رسول ﷺ کسی اور نبی کاک احتمال نہیں جو اس میں تامل کرے اسے کافر سمجھتا ہو‘‘(مکتوبات مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ ص :۱۰۳) اسی طرح مولانا محمد رضا خاں صاحب بریلوی نے قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ پر یہ تہمت لگائی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو جھوٹا کہتے ہیں ، یہ مسئلہ امکان کذب کے نام سے مشہور ہے، اس سلسلے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی طرف منسوب ایک جعلی اور من گھڑت فتوے کو بنیاد بنایا گیا ہے، حالاں کہ آج تک یہ ثابت نہ کیا جاسکا کہ وہ فتویٰ کہا ں ہے ، کب دیا گیا، حسام الحرمین ص :۱۰۲پر مولانا احمد رضا خاں نے اس فتویٰ کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں نے فتویٰ خود دیکھا ہے،ص ۲۹لکھا کہ اس فتویٰ کافوٹو مدینہ میں محفوظ ہے ، ہزاروں مطالبو ں کے باوجود آج تک علمائے بریلی اس فتویٰ کی اصل پیش نہ کرسکے ، بلکہ فوٹو بھی نہ دکھلا سکے۔

حضرت مولانا خلیل احمد صاحب اور حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒ بھی اس تکفیر ی مہم سے محفوظ نہ رہ سکے، مولانا خلیل احمد پر انہوں نے یہ الزام لگایا کہ وہ شیطان کے علم کو حضور ﷺ کے علم سے زیادہ جانتے ہیں اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے متعلق یہ کہا گیا کہ وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو جانوروں کے علم کے برابر سمجھتے ہیں ، مولانا خلیل احمد اجینوی نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا یہ جواب دیا کہ’’میں اورمیرے اساتذہ ایسے شخص کو کافر اور مرتد اور ملعون کہتے ہیں جو کہ شیطان علیہ العہ کو کیا بلکہ کسی مخلوق کو جناب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم میں زیادہ کہے ،غرض خاں صاحب بریلوی نے محض اتہام اور کذب خالص بندے کی طرف منسوب کیا ہے مجھ کو تو مدت العمر اس کا وسوسہ بھی نہیں ہوا کہ شیطان تو کیا کوئی فرشتہ اور ولی بھی آپ کے علوم کی برابری کرسکے چہ جائیکہ علم میں زیادہ ہو، ہر عقیدہ جو خاں صاحب نے میری طرف منسوب کیا ہے اس کا مطالبہ خاں صاحب سے روز جز اہوگا میں اس سے بالکل بری ہوں‘‘(فتاوی دارالعلوم دیوبند ،۲/۴۸) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فتویٰ تکفیر کے جواب میں وضاحتی رسالہ شائع کرایا اور اسے اپنی کتاب ’’حفظ الایمان‘‘ کا ضمیمہ بنادیا ،انہوں نے لکھا کہ ’’یہ خبیث مضمون میں نے کسی کتاب میں نہیں لکھا اور لکھنا تو درکانا ر میرے قلب میں اس مضمون کا خطرہ نہیں گزرا، جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یا بلا اعتقاد صراحۃً یا اشارۃ ایسی بات کہے میں اس کو خارج از اسلام سمجھتا ہوں ، میری اور میرے سب بزرگوں کا عقیدہ ہمیشہ سے آپ کے افضل المخلوقات فی جمیع الکمالات العلمیہ والعملیہ ہونے کے باب میں یہ ہے : بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۲/۴۸،۴۹)

ان بزرگوں کی تمام تصریحات اور وضاحتی عبارات کے باوجود بریلوی طبقہ اب تک اس بات پر مصر ہے کہ علمائے دیوبند نے کفر یہ عبارتیں لکھی ہیں اور وہ کافر ہیں ،کیا یہ انصاف کی بات ہے، حالانکہ وہ لوگ بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو شخص کفر یہ الزام کی نفی کرتا ہوا سے کافر ومرتد نہیں کہا جائے گا ۔ مولانا احمد رضا خاں اور ان کے مبعین نے صرف ان ہی پر چند شخصیتوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ کچھ اس طرح کے فتوے بھی ان قلم سے صادر ہوئے’’وہابی، قادیانی، دیوبندی ، نیچری، چکڑالوی جملہ مرتدین ہیں‘‘ (ملفوظات مولانا احمد رضا ،۱/۸۴)’’رافضی،تیزائی وہابی دیوبندی ، وہابی غیر مقلد ،قادیانی، چکڑالوی ، نیچری ان سب کے ذبیحے حرام محض نجس مردار قطعی ہیں اگرچہ لاکھ بار نام الہی لیں اور کیسے ہی متقی پرہیز گار بنتے ہوں کہ یہ سب مرتدین ہیں ’’( احکام شریعت ۱۲۲) ‘‘وہابیہ پر لازم ہے کہ اپنے ہر ہر فرد کو کافرمانیں اس کا خلاصہ یہ نکلا کہ مثلاً دہلوی وگنگوہی ونانوتوی وتھانوی یقیناًکافر و مرتد ہیں ‘‘( الا ستمد اد علی اجیال الارتداد ص ،۵۱) مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو کافر بنانے کا اس قدر شوق تھا کہ انہوں نے اپنے زمانے کی کسی مشہور ومعروف علمی ودینی او رسیاسی شخصیت کو کافر قرار دیئے بغیر نہیں چھوڑا، سرسید ، حالی ، علامہ اقبال ،ظفر علی خاں ، محمد علی جناح وغیرہ حضرات صرف اس لیے کافر قرار دیئے گئے کہ ان کا کسی نہ کسی حیثیت سے علمائے دیوبند یا ان کی مادر درسگاہ مدرسہ ولی اللی سے کوئی رابطہ ضبط تھا( ملاحظہ کیجئے ،تجانب اہل السنۃ ،مہر منیر وغیرہ کتابیں)

دوسری طرف علمائے دیوبند ہیں جنہوں نے ہمیشہ اعتدال اور احتیاط کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے نزدیک یہ بات کسی طرح درست نہیں کہ قائل کی مراد اور اس کے بیان کردہ معنی مفہوم کو نظر انداز کر کے اس کی کسی عبارت پر کفر کا حکم لگادیا جائے وہ کسی مسلمان کو کافر نہیں کہتے ، بلکہ ایسا کہنے والے گناہ گار سمجھتے ہیں ، مولانا احمد رضا خاں اور ان کے متبعین کے لیے دارالعلوم کا یہ فتویٰ موجود ہے ’’مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے متعلقین کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ ان کے کلام میں تاویل ہوسکتی ہے اور تکفیر مسلم میں فقہاء نے بہت احتیاط فرمائی ہے اور یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کے کلام میں ننانوے وجوہ (احتمالات) کفر کے ہوں اور ایک وجہ ضعیف اسلام کی ہوتو مفتی کو اس ضعیف وجہ ( احتمال) کی بنا پر فتویٰ دینا چاہئے یعنی اس کو مسلمان کہنا چاہئے (فتاویٰ دارالعلوم ۲/۵۴،۵۵)

بریلوی علماء بھی اب اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں کے کفر سازی کی ایک مہم غیر ضروری تھی اور اس سے خود انہی کو نقصان ہوا ہے،ایک بریلوی عالم کا یہ بیان ’’آج کا سنجیدہ انسان اس طرف رخ کرنے سے جھجھکتا ہے ، عام طور پر امام احمد رضا خاں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ مکفر المسلمین ( مسلمانوں کو کافر قرار دینے والے ) تھے، بریلی میں انہوں کفرساز مشین نصب کررکھی تھی‘‘ (ماہ نامہ المیزان بمبئی احمد رضا خاں نمبر ۲۹) بریلوی علماء اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس طرح کے فتوؤں اور تبصروں کی وجہ سے بریلویت جاہلوں میں سمٹ کر رہ گئی (ملاحظہ ہو المیز ان احمد رضا نمبر ۲۹۔۲۸، فاضل بریلوی اور ترک موالات ص:۵)

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ بریلوی حضرات آج تک اسی تکفیر مہم میں لگے ہوئے ہیں، جب یہ لوگ اپنی تقریروں میں اور تحریروں میں دیوبند یوں کو کھلم کھلا مرتدااور کافر کہیں گے تو سوار جیسی صورت حال ضرور پیدا ہوگی، اگر پرانے فتاویٰ درکنا ر کردیئے جائیں اور صرف اپنے کام سے کام رکھا جائے تو سوارہی نہیں پورے ملک میں حالات معمول پر آسکتے ہیں ، اس وقت دین کی حفاظت اور اس کا دفاع بنیادی کام ہے، افتراق امت اور انتشار ملت کی اس مہم سے اس کام میں رخنہ پڑرہا ہے ، کیا بریلوی علماء نے کبھی اس سنجیدہ مسئلے پر بھی غوروفکر کیاہے؟

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-reality-deobandi-barelvi-dispute/d/1578


Loading..

Loading..