مصطفیٰ اکیول
25ستمبر، 2013
بے گناہ شہریوں کے خلاف کینیا میں خوفناک دہشت گرد حملہ جو کہ ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر نیروبی میں ہوا سب سے پہلے تو وہ زبردست مذمت کے قابل ہے۔ یہ ایک وحشیانہ، غیر انسانی اور خطرناک جرم ہے۔ اس خطرناک قتل عام میں 62 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جس کا کسی بھی طرح سے کوئی جواز نہیں پیش کیاجا سکتا ہے ۔
اب اس جرم کی کچھ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر مسلم نقطہ نظر سے ۔ اس لئے کہ قاتل جو کہ صومالی عسکریت پسند گروہ الشباب کے رکن ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اسلام کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اس بات کی تحقیق کر لی تھی کہ وہ جنہیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں وہ مسلمان ہیں یا نہیں ۔ انہوں نے مبینہ طور پر ٹرگر دبانے سے پہلے ان مظلومین سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا نام پوچھا (جو کہ تمام مسلمانوں کو معلوم بھی نہیں ہوگا) ۔
یقیناً اسلام کے نام پر ایسا ظلم و ستم میرے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بڑی اکثریت کو مبہوت و متنفر کر دیتا ہے ۔ لیکن ہم صرف یہ کہنے کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے کہ"اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔" الشباب ، القاعدہ اور اس طرح کی دہشت گرد جماعتوں میں صرف ایسے جرائم پیشہ افراد نہیں ہیں جو ثقافتی طور پر مسلمان ہیں۔ بلکہ وہ یہ تمام حرکتیں اسلام اور اسلامی قانون کی بالادستی کے نام پر کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
اصل معاملہ " جہاد " یا مقدس جنگ کے اسلامی نظریہ کا ہے۔ دراصل میں نے اپنی کتاب“Islam without Extremes: A Muslim Case for Liberty” میں اس کی وضاحت کی ہے ، یہاں تک کہ جہاد کا معتدل ترین تصور بھی جدید دور کے دہشت گردی کا جواز نہیں پیش کر سکتا ۔ کلاسیکی فقہاء نے ہمیشہ جنگ میں جنگجوؤں اور غیر جنگجو کے درمیان فرق کیا ہے اور ہمیشہ غیر جنگجو کی زندگی کا احترام کیا ۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں القاعدہ اور اس جیسی تنظیموں نے جنگجوؤں اور غیر جنگجو کے درمیان اس امتیاز کو مسترد کر دیا ہے اور ان کے راستے میں آنے والے ہر شخص کے خلاف تشدد کو جائز مان لیا ہے یہاں تک کہ ان مسلمانوں کے خلاف بھی جو اسلام کی ان کی سخت اور لفظ پرست تشریح سے متفق نہیں ہیں ۔
آج ہم واقعی مضرت رساں انتہا پسندی کا سامنا کر رہے جو کہ مذہبی بنیاد پرستی ، ثقافتی افلاس اور سیاسی رنجش کا ایک زہریلا مرکب ۔ اور ہم مسلمان اس وقت تک اس کا سد باب نہیں کر سکتے جب تک ہم زیادہ کھل کر اس مسئلے پر بات چیت نہ کریں اور ضرورت ہو تو خود احتسابی سے کام نہ لیں ۔
ترکی کے صدر عبداللہ گل نے اس بات کا اعتراف کر کے ایسی سوچ کی ایک اچھی مثال پیش کی ہے جس کی ہمیں بعد میں ضرورت پیش آئے گی کہ آج اسلامی ممالک انہیں حالات کا سامنا کر رہے ہیں‘‘ جن کا یورپ نے قرون وسطی میں سامنا کیا ہے ’’۔" گل کے مطابق، " فرقہ واریت " بنیادی مسئلہ تھا، اور یہ " مسلمانوں کے لئے ایک پھندا اور ان کے غیر متمدن ہونے کا ایک اشارہ " ہے ۔
بدقسمتی سےاکثر مسلم نظریاتی رہنما مسلم ممالک کے بارے میں اس طرح کا تنقیدی جائزہ لینے سے گریز کرتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ مسلم ممالک پہلے سے ہی اگر مغربی ثقافتی حملے کی زد میں نہیں ہے تو کم از کم سخت آزمائش کے دور سے گزر رہاے ہیں ، اور ایسے میں تنقیدی آوازیں اسلام فوب کو صرف اسلام کو برباد کرنے کا موقع ہی فراہم کریں گیں ۔ لیکن حقیقت میں ان کی خاموشی ہی ان اسلام فوب کے لئے معاون ہتھیار ہے ۔
اسی قسم کی سوچ کی وجہ سے زیادہ اعتدال پسند مسلمان یہ سوچتے ہوئے القاعدہ اور الشباب جیسی جماعتوں کے جرائم کی مذمت نہیں کرتے کہ ان جماعتوں کا ویسے بھی اسلام کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان سے گریز کیاجائے ۔ وہ مشرق وسطی میں اس کی نوآبادیاتی مداخلت کے ساتھ سازش یا حادثے کے ذریعہ اس طرح کی جماعتوں کو پیدا کرنے کے لئے مغرب کو مورد الزام بھی ٹھہراتے ہیں جو کہ ہو سکتا ہے کچھ حد تک درست ہو ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ہمارے مسائل کو حل نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر کئے جا رہے ان جرائم کو نہیں روکتا ۔
ہم مسلمانوں کو مسئلہ کے تئیں واضح رہنا چاہئے : اور مسئلہ انتہا ءپسندی ہے۔ اور یہ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو گا جب تک ہم اجتماعی کوشش کے ذریعہ اس کی مذہبی، ثقافتی اور سیاسی جڑوں کو مضبوط نہیں کرتے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.hurriyetdailynews.com/the-fanatics-of-islam.aspx?pageID=449&nID=55075&NewsCatID=411
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-fanatics-islam/d/13691
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-fanatics-islam-/d/13759