New Age Islam
Thu May 15 2025, 12:51 PM

Urdu Section ( 24 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Terrorism, the Militancy, the White Supremacism and the Phobia Creators: بلی کو گھنٹی کون باندھے گا - دہشت گردی، عسکریت پسندی، سفید فام بالادستی اور فوبیا کے تخلیق کار: سپر پاور یا جامع روحانی طاقت؟

 

بلی کو گھنٹی کون باندھے گا - دہشت گردی، عسکریت پسندی، سفید فام بالادستی اور فوبیا کے تخلیق کار: سپر پاور یا جامع روحانی طاقت؟

 

ارمان نیازی، نیو ایج اسلام

 

6 نومبر 2021

 

'دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علم بلند کرنے والے ممالک'   دہشت گردی، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کو کبھی شکست دینا ہی نہیں چاہتے تھے ۔

 

اہم نکات:

 

. انسانیت کے خلاف جرائم خدائی غضب کا سبب بنتے ہیں۔

. دہشت گردوں نے  اسلامو فوبیا اور اسلام سے نفرت کا جذبہ اس مذہب کے لیے پیدا کیا ہےجو سب سے زیادہ پرامن اور جامع ہے۔

 

. معاشرہ مذہب، فرقہ واریت اور علاقائیت کی باریک لکیروں پر منقسم ہے۔

 

. جو طاقتیں اہمیت رکھتی ہیں وہ انسانی مصائب کے اسباب اور ان ک تدارک میں کوئی جلدی نہیں کرتیں۔

 

. ملکوں، مذاہب اور مذہبی عقائد کے درمیان جنگیں ان لوگوں کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں جو خود کو 'ترقی یافتہ' کہتے ہیں۔

 

------

 

انسانیت کے خلاف جرائم غضب الٰہی کی وجہ بن جاتے ہیں

 

علیم و خبیراللہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتائج سے ڈراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورۃ النحل آیت نمبر 112 میں فرمایا ہے کہ ہم نے اہل مکہ کو فطرت اور ماحول کے وہ تمام شاندار تحفے عطا کیے جو انسانوں کی زندگی کو خوشیوں اور خوشحالی سے نوازتے ہیں۔ لیکن اہل مکہ نے ان کا احترام نہیں کیا جن سے انہیں نوازا گیا تھا بلکہ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف سازشوں، جرائم، بدعنوانیوں اور دھوکہ دہی کا کام کیا۔ انسانیت کے خلاف ان کے جرائم غضب الٰہی کی وجہ بن گئے اور یہ بستی انتہائی غربت اور خوفناک غیر انسانی درد کی کھائی میں گر گئی۔ درج ذیل آیت پر غور کریں:

 

اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔ (النحل:112) -

 

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت موجودہ دور کے خوبصورت اور ترقی یافتہ شام، عراق، کویت، لیبیا اور افغانستان وغیرہ کی کہانی ہے، یہ ممالک مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی صورت میں غضب الہی کا سامنا کر رہے ہیں۔

 

تمام دہشت گرد تنظیمیں مذہب اور اس کی اخلاقیات کی خاطر لڑ رہی ہیں، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ انہوں نے  اسلامو فوبیا اور اسلام سے نفرت کا جذبہ اس مذہب کے لیے پیدا کیا ہےجو سب سے زیادہ پرامن اور جامع ہے ۔ اسلام وہ دین ہے جو جامعیت کا حامل ہے ("اے بنی نوع انسان، بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے، الحجرات - 13)، ور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا- الاسراء : 33)، اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے..." النحل: 90) دہشت گرد ہر اس عمل میں ملوث ہیں جن سے اسلام اور اسلامی اخلاقیات کی تذلیل ہوتی ہے۔

 

قرآن پاک نے درج ذیل آیت میں دہشت گردوں، عسکریت پسندوں اور فوبیا پھیلانے والے لوگوں کی نشاندہی کی ہے:

 

جب وه لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے۔ (البقرۃ: 205)

 

مسلسل بڑھتے ہوئے انسانی مصائب جلد کم ہونے والے نہیں ہیں۔ مظالم کی دنیا کے پیچھے بڑھتی ہوئی طاقت کے بھوکے اور نام نہاد سیکولر سیاستدانوں کا اپنے اپنے پیروکاروں کی زندگیوں میں اتھل پتھل پیدا کرنے میں اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اور نہ ہی وہ انسانی مصائب کے ادراک اور ان کے تدارک میں کوئی عجلت میں نظر آتے ہیں۔

 

دنیا میں مالی عدم مساوات تیزی سے کئی گنا بڑھ رہی ہے۔ ہم بڑے فخر سے امیر کے امیر ہونے کی خبروں کو سنتے ہیں، اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی کہ غریب کیسے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اخبارات ہم پڑھتے ہیں وہ دنیا کے ان امیروں کی ملکیت ہیں جو ان لوگوں کا خون چوسنے کی نئی راہیں تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جن سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

معاشرہ مذہب، فرقہ واریت اور علاقائیت کی باریک لکیروں پر منقسم ہے ۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والی سرگرم تنظیمیں اور اقوام نے امیر ممالک کی اکثریت پرستی پر نظر ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ترقی یافتہ، ان ممالک کو اس لیے نہیں کہا جانا چاہیے کیونکہ  کوئی فرد ہو یا قوم اسی وقت ترقی کرتی ہے جب اس میں کوئی منافقت باقی نہ رہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ قومیں دہشت گردی، عسکریت پسندی، سفید فام بالادستی یا فرقہ واریت میں سے کسی کا بھی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ بلیاں بڑھ کر ہولناک شیر بن گئی ہیں جن کا یکجا ہونا زیادہ حیرت انگیز ہے۔

 

روحانی طور پر، کہا جاتا ہے کہ، جہاں چاہ ہے، وہاں ایک راہ ہے۔ موجودہ خوفناک عالمی صورتحال اور ان پر قابو پانے کی دہائیوں سے جاری لڑائی کو دیکھ کر یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ 'دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علم بلند کرنے والے ممالک'   دہشت گردی، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کو کبھی شکست دینا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ قوموں کے درمیان بھڑکتی ہوئی جنگ ان مہلک ہتھیاروں کا ایک بازار پیدا کرتی ہے جو کہ 'دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی قومیں' تیار کرتی اور فروخت کرتی ہیں۔ یہ تباہ کن ہتھیاروں کی صنعت ان کی موٹی کمائی  کا واحد ذریعہ ہے جس پر ان کی بالادستی ٹکی ہوئی ہے۔ انسانوں کو مارنے والے ہتھیاروں کی صنعت اتنی ہی ترقی کرے گی جتنی جنگیں ہوں گی اس لیے قوموں، مذاہب اور مذہبی عقائد کے درمیان جنگیں ان لوگوں کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں جو خود کو 'ترقی یافتہ' کہتے ہیں۔

 

وہ تمام لوگ جو دہشت گردی، عسکریت پسندی اور ہر قسم کے انسانی مصائب میں مبتلا ہیں، ان کے لیے قرآن پاک میں تنبیہ ہے:

 

…. اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا۔ (یونس: 81)

 

-----

 

دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق رپورٹس

 

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد دہشت گردی کی جڑوں کوکھوج نکالنااور انہیں ختم کرنا تھا، جیسا کہ افغانستان میں ان کا دعویٰ تھا، لیکن دو دہائیوں کی جنگ کے بعد، نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی حکومت نے ایک تخت میں سجا کر بلیوں کے سامنے چوہوں کو پروس دیا ہے۔ عام شہریوں، فوجی جوانوں اور حتیٰ کہ دہشت گردوں کے جانی نقصانات کو سمجھ لیا جائے تو یہ قابل قدر تھا۔ اگر نہیں تو نام نہاد ترقی یافتہ اقوام نے انسانیت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غور کریں کہ درج ذیل رپورٹس کیا کہتی ہیں:

 

واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کے 2021 کے مطالعے کے مطابق:

 

... نائن الیون کے بعد کی کئی جنگوں میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا ہے، جس کی وجہ سے افغانستان، پاکستان، عراق، لیبیا، شام، یمن، صومالیہ اورفلپن میں 38 ملین افراد کی نقل مکانی ہوئی ہے۔ ؛ 26.7 ملین افراد بے گھر ہونے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ اس تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان جنگوں کی وجہ سے 897,000 سے 929,000 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 364,000 سے زیادہ شہری بھی شامل ہیں، اور ان کی لاگت 8 ٹریلین ڈالر ہے۔

 

(بشکریہ: War on Terror/ From Wikipedia, The Free Encyclopaedia)

 

مذہبی دہشت گردی

 

یونیورسٹی آف میری لینڈ، کالج پارک کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق مذہبی انتہا پسندی نے قومی علیحدگی پسندی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کا اصل محرک بن گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے دہشت گردانہ حملوں سے ہونے والی اموات میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں پیش آنے والے زیادہ تر واقعات کو مذہبی ایجنڈے والے گروہوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ 2000 سے پہلے، یہ قوم پرست علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیمیں تھیں مثلاً آئی آر اے اور چیچن باغی جو اکثرزیادہ حملوں کے پیچھے تھے۔ قوم پرست علیحدگی پسند گروپوں کے ہاتھوں دہشت گردانہ واقعات کی تعداد ان سالوں میں نسبتاً مستحکم رہی ہے جب کہ مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔

 

عراق، افغانستان، پاکستان، نائیجیریا اور شام میں اسلام پسند گروہوں کا پھیلاؤ ان رجحانات کے پیچھے بنیادی محرک ہے۔

 

2001 سے اب تک جو دہشت گرد جماعتیں سب سے زیادہ سرگرم رہی ہیں ان میں سے چار بوکو حرام، القاعدہ، طالبان اور داعش ہیں۔ یہ گروہ عراق، افغانستان، پاکستان، نائیجیریا اور شام میں سب سے زیادہ سرگرم رہے ہیں۔ دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں سے اسی فیصد ان پانچ ممالک میں سے کسی ایک میں ہوئی ہیں۔

 

  گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2016 کے مطابق 2015 میں چار  'داعش، بوکو حرام، طالبان اور القاعدہ' اسلامی انتہا پسند جماعتیں، اسلامی دہشت گردی سے ہونے والی تمام اموات میں سے 74 فیصد کے لیے ذمہ دار تھے۔ تقریباً 2000 سے، یہ واقعات عالمی سطح پر رونما ہوئے ہیں، جن سے نہ صرف افریقہ اور ایشیا کی مسلم اکثریتی ریاستیں متاثر ہوئی ہیں، بلکہ غیر مسلم اکثریت والی ریاستیں مثلاً امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اسپین، بیلجیم، سویڈن، روس، آسٹریلیا، کینیڈا، سری لنکا، اسرائیل، چین، ہندوستان اور فلپائن بھی۔ اس طرح کے حملوں نے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو نشانہ بنایا ہے، تاہم، اکثریت اس میں خود مسلمانوں کی ہے۔

 

پاکستان میں دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ 2007 کے موسم گرما سے لے کر 2009 کے اواخر تک، 1,500 سے زیادہ افراد خودکش اور عام شہریوں پر دیگر حملوں میں متعدد وجوہات کی بنا پر مارے گئے—جن میں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد؛ بندوقوں اور دھماکہ خیز مواد کی آسانی سے دستیابی؛ "کلاشنکوف کلچر" کا وجود؛ پاکستان میں یا اس کے آس پاس علاقوں میں نظریاتی طور پر متاثرمسلمانوں کی آمد، جو دنیا بھر کی مختلف ممالک سے پیدا ہوئے، اور 1980 کی دہائی میں سوویت نواز افغانوں کے خلاف جنگ جس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا، اسلام پسند باغی جماعتوں اور قوتوں کی موجودگی مثلاً طالبان اور لشکر طیبہ۔ 2 جولائی 2013 کو لاہور میں سنی اتحاد کونسل (SIC) کے 50 مسلم علماء نے خودکش بم دھماکوں، بے گناہوں کے قتل، بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کو حرام قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کیا۔

 

2015 میں، ساؤتھرن پاورٹی لا سینٹر نے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں دہشت گردی پر ایک رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ (جس کا عنوان The Age of the Wolf  (بھیڑیا کا دور ہے) میں ہے کہ اس عرصے کے دوران، "امریکہ میں جہادیوں سے زیادہ، لوگ غیر اسلامی گھریلو دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔" انتہائی قدامت پرست کرسچن آئیڈنٹیٹی موومنٹ کی "وحشیانہ نسل پرستی اور سامی مخالف" نظریہ کے ساتھ عام طور پر حکومت مخالف جذبات بھی ہوتے ہیں۔ عیسائی شناخت کے پیروکاروں کا تعلق مخصوص عیسائی فرقوں سے نہیں ہے، اور ان کا ماننا ہے کہ یورپی نسل کے سفید فاموں کا تعلق  "اسرائیل کے کھوئے ہوئے قبائل" سے ہو  سکتا ہے اور بہت سے لوگ یہودیوں کو حوا اور سانپ کی شیطانی اولاد مانتے ہیں۔ اس گروپ نے نفرت انگیز جرائم، بم دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا اثر Ku Klux Klan اور نیو نازی گروپوں سے لے کر حکومت مخالف جنگجووں اور خود سورجین سیٹزن مومنٹ تک ہے۔ عیسائی شناخت کی اصل اینگلو-اسرائیل ازم ہو سکتی ہے، جس کا خیال تھا کہ برطانوی لوگ قدیم اسرائیلیوں کی اولاد ہیں۔

 

  تاہم، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، یہ نظریہ یہود دشمنی کے ساتھ پروان چڑھنا شروع ہوا، اور آخر کار، عیسائی شناختی الہیات نے فیلو سامی اینگلو-اسرائیل ازم سے ہٹ کر اب "ٹو سیڈ" کے نظریے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دو بیجوں کے نظریہ کے مطابق، یہودی لوگ قابیل اور سانپ (نہ کہ شیم) کی نسل سے ہیں۔ سفید فام یورپی بیج اسرائیل کے "گمشدہ قبائل" سے نکلی ہے۔ وہ اپنے آپ کو "خدا کے قوانین" کے پابند مانتے ہیں، "انسانی قوانین" کے نہیں، اور وہ کسی ایسی حکومت کے پابند نہیں ہیں جسے وہ یہودیوں اور نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ Ku Klux Klan کی عیسائی فرقے بڑے پیمانے پر مذمت کی جاتی ہے۔

 

اسرائیل کو 1948 میں اپنی آزادی سے قبل ہی یہودی مذہبی دہشت گردی کے مسائل کا سامنا تھا۔ فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ کے دوران، ارگن ان صہیونی گروہوں میں شامل تھے جنہیں برطانوی حکام اور اقوام متحدہ نے برطانویوں اور عربوں کے خلاف پرتشدد دہشت گردانہ حملوں کے لیے دہشت گرد تنظیم کا نام دیا۔ ایک اور انتہا پسند گروپ، لیہی نے کھلے عام اپنے ارکان کو "دہشت گرد" قرار دیا تھا۔

 

مؤرخ ولیم کلیولینڈ نے کہا کہ بہت سے یہودیوں نے یہودی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی ہر کارروائی، یہاں تک کہ دہشت گردی کو بھی جائز قرار دیا۔ 1995 میں یگال امیر نے اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کو قتل کر دیا۔ امیر کے لیے، رابن کو قتل کرنا ایک مثالی عمل تھا جو ایک ایسی ناجائز حکومت کے خلاف لڑائی کی علامت تھا جو یہودیوں کی مقدس سرزمین فلسطینیوں کو دینے کے لیے تیار تھی۔

 

(بشکریہ: Terrorism/ From Wikipedia, The Free Encyclopaedia)

 

مذکورہ بالا بیانات اس نتیجہ کی آئینہ دار ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دنیا نے آخر کار حاصل کی ہے، لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ایک ایسی انسانی سلوک کی طرف لوٹا جائے جسے تمام مذاہب اور مذہبی عقائد نے تسلیم کیا ہے اور یہی روحانیت کے ذریعے روح کا علاج ہے۔

 

------

 

دنیا کی روحانی پرورش - ہر قسم کی برائی کا علاج

 

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کی مخلوقات کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لیے تنبیہات موجود ہیں اور ان لوگوں کے لیے رہنمائی ہے جو راہِ راست سے بھٹک چکے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو دہشت گردی، عسکریت پسندی اور ہر قسم کے انسانی مصائب میں مبتلا ہیں، ان کے لیے قرآن پاک میں تنبیہ ہے:

 

…. اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا۔ (یونس: 81)

 

کسی نہ کسی وجہ سے دہشت گردی، عسکریت پسندی، سفید فام بالادستی اور فرقہ واریت (تمام مذاہب میں) انسانی اخلاقیات کو دفن کر دینگے  اور دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے والے ہیں، اور کوئی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ دہشت گردی، عسکریت پسندی، فوبیا یا فرقہ واریت ذہنی بیماری کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کے ساتھ جو انسانیت کو دفن کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہتھیاروں سے نہیں، شفقت اور مہربانی سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ اگر بیماری ہے تو اس کا علاج چاروں طرف سے ہونا چاہیے۔ غور کریں کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں کیا فرماتا ہے اور ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

کیونکہ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہوگی۔ (الشرح - 5)

 

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔ (الاسراء: 82)

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نازل نہیں جس کے لیے شفا نازل نہ کی ہو۔

 

دنیا کو دہشت گردی، عسکریت پسندی اور ہر قسم کی بالادستی کا علاج کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ مہلک ہتھیار اس کا جواب نہیں، اس کا جواب تمام مذاہب اور مذہبی رہنماؤں اور صوفیاء کی تعلیمات کو پھیلانا ہے۔

 

ایسا نہیں ہے کہ صرف وہی دکھ اٹھا رہے ہیں جن کے دکھ نظر آتے ہیں۔ جو انسانوں پر مصائب کے پہاڑ توڑنے والے بھی مصائب کا شکار ہیں۔ ان کے زخم پوشیدہ ہیں۔ وہ دل سے بیمار ہیں۔ ان کی تکلیف زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ وہم کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ معاشرے کے برے لوگ اس سراب میں جی رہے ہیں جو جعلی علمائے کرام کی جعلی مذہبی تعلیمات سے پیدا ہوئی ہے۔ مایوس دہشت گردوں کی زندگیاں جو اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے دہشت گرد گروہوں میں شامل ہو چکے ہیں، ہونے والے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے لیے ایک سبق ہے۔ لیکن ان کی قابل رحم ذہنی کیفیت دنیا کے سامنے نہیں آتی۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی مذہب کی دنیا کا سحر کس طرح ٹوٹا اور کیسے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بے راہ روی کا شکار ہیں۔

 

روحانی مشائخ اور ان کی روحانی تشخیص

 

"تمام شفا یابی سب سے پہلے دل کی شفا ہے۔" - کارل ٹاؤن سینڈ

 

"اگرچہ دنیا دکھوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن یہ اس کے علاج سے بھی بھری ہوئی ہے۔" - ہیلن کیلر

 

"معاف کرنا پوری دنیا کی شفایابی میں ہماری سب سے اہم خدمت ہے۔" - ماریان ولیمسن

 

"خود کو ٹھیک کرنا دوسروں کو شفا دینے سے متعلق ہے۔" - یوکو اونو

 

"ایک دوسرے سے محبت کریں اور دوسروں کی مدد کریں، صرف سے اعلی مقام حاصل کریں ۔ محبت پھیلنے والی اور سب سے بڑی شفا بخش توانائی ہے۔" - سائی بابا

 

اور آخر میں درج ذیل پر غور کریں:

 

"محبت بھرے الفاظ شہد کے چھتے ہیں، روح کے لیے میٹھے اور ہڈیوں کو شفا بخشتے ہیں۔"

 - Proverbs 16:23-25

 

"ہمارے دکھ اور زخم اسی وقت مندمل ہوتے ہیں جب ہم انہیں شفقت سے چھوتے ہیں۔" - بدھا

 

واللہ اعلم باصواب۔

 

-----

English Article:  Who Will Bell the Cat – The Terrorism, the Militancy, the White Supremacism and the Phobia Creators: Superpowers or Spiritual Inclusive Power?

 

URL:      

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..