New Age Islam
Tue Jan 21 2025, 08:55 PM

Urdu Section ( 26 March 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Salute To The Women Who Turned The Tide Of History تاریخ کا رُخ موڑنے والی خواتین کو سلام

 

تیستا سیتلواڑ

8 مارچ، 2013

میں نے وعدہ کیا تھا آج  کا آرٹیکل  ہندوستان میں حق  اور انصاف کے نظام کے نفاذ کی خامیوں  پر محیط  رہے گا،  لیکن آج  میں نے اپنا موضوع  بدل کر 8 مارچ کے تعلق سے خواتین پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ 8 مارچ کویوم خواتین او ریکم مئی کو لیبر ڈے منانے کا کیا فائدہ  ہے ،خاص  طور پر ایسے حالات میں  جب عورتوں کے حقوق پر مسلسل  بحث ہورہی ہے ۔ کیا  یہ بات درست ہے کہ انیسویں  اور بیسویں صدی  کی انسانیت سوزی کی داستانیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں؟

ہم کو آج  سماجی رویہ پر غور کرنا ہوگا۔ خاص طور پر شادی پر ہونے  والے اخراجات کی تفصیل پر غورکریں گے تو ہم کو اندازہ ہوگا ، جہیز  کالین دین خوب  ہورہا ہے ۔ اس سے تلخ بات یہ ہے کہ ذات برادری کی طرح یہ ایک برائی ایسی  ہے ، جو ایک خاص  فرقہ میں ہی مروج ہو اور جس کا فائدہ صرف ہندوؤں کے مرد ہی اٹھارہے ہیں ، مردوں کی بالا دستی  صرف ہندو سماج میں ہی رائج نہیں ہے۔ چند سال قبل  پڈو کوٹائی (تامل ناڈو) کی میری دوست شریفہ داؤد  نے عورتوں کے لیے ایک خصوصی  مسجد بنانے کی کافی کوشش کی ، نتیجتاً ان کے خلاف جہیز سےمتعلق کئی کیس مقامی جماعت  کے سامنے  تصفیہ کے لیے آئے ۔ جب عورتوں  نے قرآن ہاتھ  میں لے کر عورتوں کے لیے خصوصی جماعت قائم کرلی۔  میری بہنیں مجھ سے سوال کرتی ہیں کہ ہمارے سماج میں عورتوں  میں شنکر آچاریہ  ، مولوی یا پادری  کیوں نہیں بنائے جاتے ہیں اور جہیز کا لین دین ہمارے مکاتب فکر، مذاہب یا جدید  نظریات والے سماج میں کیوں ممنوع  قرار نہیں دیا جاتا۔ ہم کو آج بھی ان تلخ  سوالات کے جواب کا انتطار ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف میری جد وجہد کی وجہ سے مجھے کافی محبت ملی  ہے۔ میری یہ خوش بختی  رہی کہ میری والد کو اپنی دونوں بیٹیوں  پر فخر تھا ۔ میرے والد نے ہمیشہ  مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔

مجھ کو آج  میرے شریک حیات اور ساتھی  کی رفاقت  حاصل ہے۔ مہاراشٹر اور گجرات  کے ایجوکیشن بورڈ کے نتائج  میں لڑکیوں  نے غیر معمولی کار کردگی کامظاہرہ  کیا ہے اور وہ آج مراٹھی، گجراتی اور سنسکرت جیسے مضامین میں شاندار کار کردگی کامظاہرہ کررہی ہیں۔

لیکن آج ہم جس سماج اور دنیا میں رہ رہے ہیں ، وہاں لڑکیوں کے ساتھ جانبد ارانہ سلوک کیا جارہا ہے  ۔ رحم مادر میں لڑکیوں  کو مار دیا جاتاہے ۔ عورتوں او رلڑکیوں  کے ساتھ پولیس اور مردوں کا کیا سلوک  ہوتا ہے، اسی کا افسوسناک مظاہرہ دسمبر 2012 میں راجدھانی میں اور چند روز قبل  پنجاب نیز دہلی میں ایک دلت عورت کے ساتھ  ہوئے واقعات میں سامنے آچکا ہے۔

لیکن گھٹا توپ اندھیرے میں عزم اور روشنی کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے ایک 14 سال کی غزالہ  کی مثال ہمارے سامنے ہے،  جس کے باپ کوفرقہ واریت  کے نشہ میں بدمست ہجوم کو بربریت کاشکار ہونا پڑا۔ اس مشتعل  ہجوم  کی قیادت کوئی اور نہیں بلکہ ایک خاتون ممبر اسمبلی  مایا کوڈنانی  کررہی تھی، جو پیشہ  سے ایک ڈاکٹر بھی تھی ۔ اس ہجوم نے 127 افراد کی جان لی۔ اگر آپ غزالہ  کا رپورٹ کارڈ دیکھیں  تو آپ کو اندازہ  ہوگا کہ امتحانات میں اس کے نمبر 80 فیصد  سے کم نہیں آئے۔ اسی طرح شکیلہ تھی، جس کو 28 فروری، 2002 کو ماں باپ کے سائے سے محروم کردیا گیا۔ شکیلہ ، فرزانہ، جنت، فریدہ اور امینہ  نے نرودہ پاٹیہ کا بہیمانہ قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

29 اگست 2012 کو پھر تاریخ  رقم کی گئی اور آئین  کی بالادستی کے سبب 31 افراد کو 28 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ، جن افراد کو سزا دی گئی اس میں مایا کوڈنانی بھی شامل ہے۔ اس معاملہ پر اٹھارہ بیس ماہ کی سماعت  کے دوران عدالت کا درجہ حرارت کافی گرم رہا، میری تنظیم اور میرے خلاف بد ترین الزامات عائد کیے گئے ۔ ہمارے وکیل  راجو شیخ  کوبھی کھلی عدالت میں بجرنگی نے دھمکی  دی ، لیکن عدالت نے دباؤ قبول نہیں کیا۔ اس  انتہائی اہم معاملہ میں عدالت کا 1900 صفحات پر مشتمل  فیصلہ ہندوستان کے کرمنل لاء  کے طالب علم کے لیے اہم فیصلہ ہے۔ 2002 کے فسادات سے خوفزدہ تین ہزار بچے اپنے  خاندان کے بچے ہوئے رشتہ داروں اور مجموعی طور پر اپنے فرقے کے عزم کا نمونہ ہیں۔ ان کی زندگی کی داستانیں ہمارے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔

اسی طرح ہمارے سامنے  ایک بیوہ  کی کہانی ہے، جس نے  انصاف کے لیے 28 سال جد وجہد  کی اور اس کے باوجود بھی اس کو انصاف نہیں ملا۔ آج قومی راجدھانی کی ہنگامہ آرائیوں میں تر لوک پوری کو کون پوچھتا ہے، ہمارے سیاسی طبقہ  کو ان کی باز آبادکاری  میں دلچسپی  نہیں ہے۔ ترلوک پوری  میں یکم اور 2 نومبر  1984 کو قتل عام کے بدترین واقعات پیش آئے تھے ۔

وحشیانہ  فرقہ وارانہ تشدد کے بعد گھیٹو ائزیشن کے مسائل کھڑے  ہوتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں  میں ہماری  آبادی سخت سرحدوں میں تقسیم رہی ہیں، جہاں  ذات پات  کی وحشت  ناک  سرحدوں  نے  21 فیصد آبادی کو حاشیہ  پررکھا ۔ آج ہر شہر میں سرحدیں ایک اور تقسیم کا خط کھینچ رہی ہیں۔1984 میں بھیونڈی ، ممبئی  93۔1992 میں احمد آباد ، 1991 میں احمد آباد اور 2002 میں گجرات کے پر افسوسناک واقعات ہیں ، جن پر میں نے لکھا ہے اور تفصیلات جمع کی ہیں۔ ان فسادات کا افسوسناک  مقصد فرقوں  کے مابین تفریق اور تقسیم پیدا کرنا ہے۔ میری نظر سے  وشو ہندو پریشد  کا وہ نقشہ بھی گزرا ہے، جس میں پرانے شہرکو ہر  ے اور لائن کی  دوسری طرف کی آبادی کو گیروے رنگ سے دکھایا گیا ہے۔ جولائی 1991 کی رتھ  یاترا  کے دوران تشدد کے زخم  خاں  صاحب کے چہرے پر واضح دکھائی دیتے ہیں ، جنہوں نے نورنگ  پورہ کی کھلی فضا  میں سانس  لینے کی جرأت کی ۔

گھیٹو ائزیشن  کی تصویر کا ایک رُخ  اور بھی ہے۔ ہمارے ایک دوست فیروز صاحب جو 93۔1992 کے فرقہ وارانہ  فسادات کے بعد ایک مسلم محلّہ  میں رہنے کے لیے مجبور ہوگئے تھے، ان کی بیوی اور بیٹی  تو ایسا  لباس پہننے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا، جس میں وہ بے آرام دہ محسوس کرتےتھے ۔ ڈریس  کوڈ اور پرائیویسی  کے فقدان کی مجبوریوں نے ان کو پریشان کیا، روزگار حاصل کر کے اقتصادی طور پر  خود کفیل ہونے کی کوشش ہماری بیٹیوں  ، بہنو ں اور ماؤں  کو بالکل  کھلے آسمان کے نیچے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے۔ ہم کو دنیا کو محفوظ  بنانے  کے لیے متحد   طور پر کوشش کرنی ہوگی اور ہم کو ایسا نہ بتایا جائے کہ ہمارے  لیے یہی بہتر ہے کہ ہم گھر  کے اندر ہی رہیں، جہاں وہ محفوظ ہیں۔ عورتیں نصف آسمان کو تھامے  ہوئے ہیں،  عورتوں کو بااختیار بنانے کی تحریک عزت، حق رائے دہی اور مساوی اجرت کے اپنے جائز حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔

میں جب بھی عورتوں کے لیے ان حقوق کا مطالبہ کرتی ہوں تو، عورتوں پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف آواز بلند  کرنے والے  مظاہروں  میں خواتین خود ہماری اس جد وجہد  میں شریک نہیں ہوتی ہیں، ہم جیت نہیں  سکتے ہیں۔ میں یہ سوچتی  ہوں کہ میری بہن کیا گھروں میں چھپ کررہ گئیں ، جب نرودہ  پاٹیہ ، گلبرگ ، سردار پور، اود، وڈودرا، پندھاوب، دندھیو ر سبنجیلی  میں آج تک کے گیارہ سال بعد تک عورتوں کو افسوسناک  طریقہ  سے نشانہ بنایا گیا ۔ ذکیہ  آپا، شکیلہ ، روپا،  بلقیس ، شبانہ،  فرزانہ ، بشیربی یا دیگر نصف درجن دیگر عورتیں ہوں، مزاحمت  کی آوازیں  ہیں ۔ یہ اٹھنے  والی آوازیں  ہماری  جد وجہد  کا اہم حصہ  ہیں ۔ یہ خواتین  ایک ایک اینٹ رکھ کر  تاریخ  کا رُخ  موڑنے کی کوشش کررہی ہیں ۔

آج یوم خواتین کے موقع پر  تاریخ کو رُخ موڑنے والی ان عورتوں کو میرا سلام ۔

8 مارچ، 2013  بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/salute-women-turned-tide-history/d/10894

 

Loading..

Loading..