طیبہ پراچا
19 نومبر 2013
منگل، 19 نومبر، 2013 کو شرعی قوانین کے نفاذ کے موضوع پر ایک گفتگو کا انعقاد طالبان اور دوسری مذہبی جماعتوں نے کیا ، لیکن شریعت کی جو تعریف انہوں نے پیش کی اس میں مردوں کے غلبہ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا ۔ شرعی قوانین کی حمایت کر کے یہ مذہبی جماعتیں عورتوں پر ظلم و ستم کرنا چاہتے ہیں جس سے کہ معنیٰ یکسر غلط ہو جاتا ہے ۔ شریعت کی حمایت کرنے والوں کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ شریعت اور مردوں کے تسلط میں فرق ہے ۔
برقع پہننا ، گھروں میں پڑے رہنا ، بولنے ، سوچنے اور حقوق کے لئے آواز بلند کرنے سے عورتوں کو محروم رکھنا ، کیا یہی شریعت ہے ؟ یا کیا یہ نظام حیات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ؟ جس میں شریعت کا مقصد ان تمام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ہے جو تم سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ رواداری کے منافی یہ تمام پالیسیاں بالکل ہی شرعی قوانین نہیں ہیں بلکہ محض انتہاء پسندی ہیں ۔اب ہم شریعت کی تعریف از سر نو کرتے ہیں ، شریعت اسے کہتے ہیں جسے اللہ نے قرآن میں نازل کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ کیا ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وہ تمام وحشی قوانین نہ صرف یہ کہ مسترد اور مردود ہیں بلکہ ایسا کرنے والا سزا کا بھی حقدار ہے ۔
اگر فتویٰ کے ماہرین ایک مرتبہ اپنے سخت اور غیر لچکدار نظریات کو برطرف کر کے قرآن و سنت کی تعلیمات کا جائزہ لیں ، تو ہو سکتا ہے کہ ان پر یہ امر عیاں ہو جائے کہ اسلام کس حقیقت کا نام ہے ۔اسلامی تعلیمات امن اور رواداری کو فروغ دیتی ہیں اور قرآن و سنت نے کبھی بھی جبر و تشدد کا حوالہ نہیں پیش کیا ہے ۔ اگر خود سے نافذ کئے گئے قوانین پر لوگوں کو غیر مشروط طریقے سے عمل کرنے کے لئے مجبور کرنا کوئی اسلامی عمل ہوتا تو پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی یہ طریقہ کیوں نہیں استعمال کیا ۔
سعودی عرب کے سخت قوانین کا مطالعہ کر نے کے بعد کوئی بھی یہ جان کر حیران اور مایوس ہو سکتا ہے کس طرح وہ اتنی آسانی کے ساتھ عورتوں کو قید میں اور مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں لیکن انہیں اکیلے بازار جانے یا حجاب کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے روکتے ہیں ۔ 2002 میں 15 لڑکیا ایک اسکول میں زندہ خاکستر ہو گئیں اس کی وجہ یہ تھی غیر اسلامی لباس میں ہونے کی وجہ سے مذہبی پولس نے انہیں باہر نہیں آنے دیا ۔ یہ بے رحمی اور سنگ دلی نہ تو اب شریعت کا حصہ ہے اور نہ ہی کبھی شریعت کا حصہ رہی ہے ۔ یہ طالبانیوں کے کسی خیالی قانون کی تعریف تو ہو سکتی ہے مگر شریعت کی نہیں ۔ سعودی علماء نے عورتوں کے لئے ڈرائیونگ کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے ۔ سماجی کارکنان کئی سالوں سے عورتوں کے لئے ڈرائیونگ کے حق کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن آج تک ان کی جد و جہد سے ان عورتوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔اس مضحکہ خیز قانون کے بارے میں کبھی بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی بنیاد شریعت پر ہے بلکہ ان کی بنیاد مردوں کے تسلط پر ہے ۔
ایک عورت کی قسمت یہ ہے کہ وہ ان تمام احکام کے آگے سر تسلیم خم کرے جو ان کے باپ ، شوہر اور بھائی ان پر تھوپیں ۔ایک لڑکا جس لڑکی سے چاہے شادی کر سکتا ہے لیکن اگر یہی کام کوئی لڑکی کردے تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے ۔جبکہ اسلام میں اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق مرداور عورت دونوں کو دیا گیا ہے ۔اور یہی مسئلہ تعلیم کا بھی ہے ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول تعلیم کو مرد اور عورت دونوں کے لئے ضروری قرار دیاہے تو پھر نام نہاد اسلام کے پیرو کار یہ طالبان کیونکر لڑکیوں کے اسکول پر پابندی لگا کر انہیں گھر کی چہار دیواری میں قید کر سکتے ہیں ۔ معاشرے میں ایک غیر تعلیم یافتہ عورت کبھی بھی شریعت پر عمل کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ اس سے ایک ایسے معاشرے کا پتہ چلتا ہے جس میں مردوں کا تسلط ہے ۔ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لئے جو کہ تشدد سے آزاد ہو ہمیں عورتوں کا احترام کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ضروری ہے ۔ اگر معاشرہ عورتوں کو یکساں حقوق فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ایسا شریعت کے نام پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے مردوں کا تسلط قرار دیا جانا چاہئے ، ورنہ اسے حقیقی شرعی قوانین پر عمل کرنا چاہئے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
ماخذ : http://pakobserver.net/detailnews.asp?id=224136
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-women-feminism/sharia-vs-male-dominance/d/34471
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/sharia-vs-male-dominance-/d/34532